کبھی سوچا نہ تھا کہ یہ دور ایسا ہوگا‘ ناکامی کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان۔ معاملات ہم سے کچھ سنبھالے نہ گئے۔ ہمت تو بعد میں آتی ہے‘ اس سے پہلے سمجھ ہوتی ہے۔ اب تو یہ راز سب پہ کھلتا جا رہا ہے کہ ہماری اجتماعی سمجھ میں کچھ کمی تھی۔ ارادے تو تھے لیکن غلط سمت کے ارادے تھے۔ توانائیاں جتنی بھی تھیں فضول کے کاموں میں صرف کر دیں اور یہ سمجھ نہ سکے کہ ترجیحات کیا ہونی چاہئیں۔ اور یہ سب کچھ دہائیوں میں نہیں ہوا‘ بہت جلد ہو گیا۔ یہ کل ہی کی بات ہے کہ لگتا تھا کہ ہم امید سے پُر ہیں اور اب لگتا ہے کہ پلے کچھ رہ نہیں گیا۔
سب سے بڑا نقصان نفسیاتی ہوا ہے۔ ارادے ٹوٹ چکے ہیں اور اب تو دل ہی نہیں کرتا کہ کوئی ارادہ باندھا جائے۔ بڑی پُرجوش قوم ہوا کرتی تھی‘ جذبات کے گھوڑے دوڑنے لگتے تو دور فلک تک پہنچ جاتے تھے۔ کون سی منحوس گھڑی آئی کہ سارا جوش ہی دب کے رہ گیا؟ قوموں کی زندگی میں نہ صرف ناکامی ہوتی ہے بلکہ شکست و ریخت کا سامنا بھی ہو جاتا ہے‘ لیکن زندہ قومیں‘ وہ قومیں جن میں تھوڑی سی بھی چنگاری ہو‘ ہار نہیں مانتیں۔ گرتے گرتے بھی سنبھل جاتی ہیں اور نئے عزم کے ساتھ آگے کو چلتی ہیں۔ اندر سے جب روح مر جائے پھر کوئی دوا کارگر نہیں ہوتی۔ افغانوں کو دیکھیں‘ امریکیوں کو اپنی سر زمین سے بھگایا تو ان کے قومی وجود میں ایک نیا عزم آ گیا ہے۔ اب وہ ہمیں آنکھیں دکھا رہے ہیں اور ہم وہ ہیں جنہوں نے ان کا بوجھ برسوں تک اٹھائے رکھا۔ اپنا نقصان کیا اُن کی خاطر لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ ہماری سوچ غلط تھی‘ جو مفروضے ہم نے گھڑے وہ غلط تھے۔ افغانستان میں ہم ڈھونڈنے کیا گئے تھے؟ ہمارے اکابرین سمجھ بیٹھے کہ افغانستان سے ہمیں تقویت ملے گی۔ تقویت کیا ملنی تھی‘ جیسے عرض کیا آج وہ ہمیں آنکھیں دکھا رہے ہیں۔
بہرحال ایک تکلیف ہو تو اس کا ذکر کریں۔ ہم نے تو اپنے لیے ایسی صورتحال بنا لی ہے کہ مسائل ہر طرف پیدا کر لیے ہیں۔ سیاست برباد‘ معیشت تباہ حال‘ کشکول خالی‘ بس خیالی پلاؤ پکائے جا رہے ہیں کہ وہاں سے خیرات آئے گی‘ آسمان کے فلاں کونے سے زرِمبادلہ کی بارش ہونے لگے گی۔ سلطنتِ روما کا زوال کئی صدیوں پر محیط تھا۔ ہم کہاں کی سلطنتِ روما‘ قومی وجود ہی ہمارا کتنا طویل ہے؟ زیادہ دیر نہیں ہوئی ہمارے قومی سفر کو شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ارادے خاک میں ملے جارہے ہیں۔ تقریباً تمام کلاسیکل اردو شاعری زوال کے زمانے کی شاعری ہے‘ جب مغلیہ سلطنت کا سورج ڈھل چکا تھا۔ اُس شاعری میں جو گداز ہے یا جسے انگریزی میں Pathosکہہ سکتے ہیں شاید اس داستانِ زوال کا ایک مظہر ہے۔ کیا کیفیت غالب کی ہوتی ہوگی جب شام ڈھلے خلوت میں بیٹھے طرح طرح کے خیال ذہن میں اُترتے ہوں گے۔ مغلیہ دربار کے شاعر تھے اور پھر ان کی آنکھوں کے سامنے اس دربار کا قصہ تمام ہوا‘ لال قلعے اور دہلی پر انگریز قابض ہو گئے اور بہادر شاہ ظفر انگریزوں کے مقید ہو گئے۔ گلی قاسم جان‘ جہاں غالب کی رہائش تھی‘ لال قلعے سے زیادہ دور نہ تھی۔ دیکھتے ہوں گے قلعے کی دیواروں کو تو کیا گزرتی ہو گی؟ لیکن دوست احباب تو تھے‘ دہلی کے کوچہ و بازار بھی تھے اور گو غالب کا ہاتھ تنگ رہتا تھا لیکن شاموں کے حوالے سے سامانِ راحت میسر ہو جاتا تھا۔
ہمارے پاس کیا رکھا ہے؟ بربادی تو کوئی اتنی انوکھی چیز نہیں لیکن بربادی ہو تو ذرا دھوم سے ہو۔ کوئی تو دروبام ہوں جہاں سے شب کے سائے ڈھلنے کے بعد قہقہوں کی آواز آتی ہو۔ جنگِ عظیم دوم میں جب لندن میں جرمنوں کی بمباری رہتی تھی تب بھی وہاں کے شام کدے بند نہیں ہوتے تھے۔ باہر بلیک آؤٹ ہوتا تھا لیکن شام کدوں کے دروازوں کے پیچھے قہقہوں کی آوازیں گونجتی تھیں۔ پیرس‘ جسے دنیا کا خوبصورت ترین شہر کہا جاتا ہے‘ پر جرمنوں کا قبضہ ہو گیا تھا لیکن اس قبضے کے دوران بھی شام کی تفریح گاہیں کبھی بند نہ ہوئیں۔ سلسلۂ زندگی چلتا رہتا ہے اور چلتا رہنا چاہیے۔ لیکن ہم کیا بیکار کے لوگ ہیں‘ ایک تو ناکامی کی داستان اوپر سے زندگی کے گرد بوریت کا کمبل لپیٹا ہوا ہے۔ صبح واٹر لُو کی جنگ تھی اور اس شام ایک بہت امیر کبیر خاتون ڈَچس آف رچمنڈ (Duchess of Richmond) نے برسلز میں ایک بہت بڑی پارٹی منعقد کی تھی جس میں تمام چیدہ چیدہ انگریز افسران مدعو تھے۔ ظاہر ہے اس پارٹی میں فیشن ایبل خواتین کی کوئی کمی نہ تھی‘ اس لیے رقص و سرود کی محفل تھی اور صبح وہ معرکہ آرا میدان تھا جس میں نپولین کو شکست ہوئی۔ کوئی بات تو ہوئی۔ ہم ہیں کہ برے وقتوں سے گزر رہے ہیں لیکن چہرے لٹکے ہوئے ہیں‘ آنکھوں سے چمک جا چکی ہے۔ ناکامی سے زیادہ ہمارے لٹکے چہرے مایوسی کی نوید سنا رہے ہیں۔ برا وقت ہو تو کیا؟ حوصلے تو قائم رہنے چاہئیں۔ یہاں سب سے خطرناک بات یہی ہے کہ لگتا ہے کہ حوصلے پست ہو چکے ہیں۔
لہٰذا جھنکار کا کوئی عالم تو پیدا ہونا چاہیے۔ ایک تو پلاٹوں کا جو کاروبار ہے اس نے عجیب و غریب لت لگا دی ہے۔ ان پلاٹوں اور فائلوں کے چکر میں ہم کیونکر پڑ گئے؟ جس معاشرے میں اور کوئی گفتگو ہی نہ ہو سوائے پیسے بنانے کے وہاں عزم اور حوصلہ کہاں سے پیدا ہوں گے؟ جو قوم ان چیزوں میں لگی رہے اس کی سوچ ناکارہ ہو جاتی ہے‘ اور یہ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ گفتگو تو یہ ہونی چاہیے کہ ہم اپنی مشکلات پر قابو پا لیں گے‘ جو قربانی دینی ہو دیں گے اور معیشت کو درست کریں گے۔ ٹی ٹی پی والے اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں‘ ہم میں وہ صلاحیت ہے کہ ان کا قلع قمع کر دیا جائے۔ لیکن ایسی گفتگو میں نے تو کہیں نہیں سنی۔ ہر طرف پلاٹوں کا چرچا ہے‘ لگتا ہے اس قوم کو اور کوئی کام ہی نہیں۔ عوام کو تو چھوڑیے‘ محکمے کے محکمے اس کام میں پڑے ہوئے ہیں۔ جنہوں نے ان کاموں میں پڑنا ہے انہوں نے خاک کوئی اور کام کرنا ہے؟
اچھا بھلا ملک تھا‘ اسے کیا ہم نے بنا دیا ہے۔ ضیاالحق کو کیا کوسنا‘ ان کو گئے لگ بھگ پینتیس سال ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اندھیری رات کی چادر اس قوم پر چڑھائی تو جو اُن کے بعد آئے ان کے پاس موقع تھا کہ ان کے پیدا کردہ مسائل کا کوئی حل نکالا جائے۔ لیکن کسی میں یہ ہمت نہ تھی اور پھر ہم پیچھے ہی جاتے رہے۔ حکمران جو آئے ان کی ایک ہی دلچسپی تھی کہ دونوں ہاتھو ں سے کیسے اس بدنصیب ملک کو لوٹا جائے۔ آج جس حال کو ہم پہنچے ہیں یہ انجام ویسے ہی تو نہیں ہوا۔ بس چھوٹے لوگوں کے ہاتھوں یہ ملک یرغمال بنا رہا اور آج حالت یہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے ملک سے موازنہ کریں تو شرم آ جاتی ہے۔ بنگلہ دیش سے موازنہ تو دور کی بات ہے‘ افغانستان کی کرنسی ہماری کرنسی سے زیادہ مضبوط ہے۔
پر چھوڑیں ان باتو ں کو‘ لگتا ہے کسی شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں اور نکلنے کی کوئی صورت نہیں۔ اہلِ درد ہیں اہلِ نظر بھی‘ لیکن یہ کس کام کے جب ان کے ہاتھ کمزور ہیں۔ اور جو مضبوط ہاتھوں والے ہیں بربادی کے تمام مناظر دیکھ کر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ وہ اپنی ہی دنیا کے مکین ہیں‘ ان سے کیا کچھ کہا جائے؟ لہٰذا یہی کہتے ہیں کہ کندن لال سہگل کی امر آواز میں ادا کی گئی غزلیں سنی جائیں۔ غالب کی شاعری پڑھی جائے۔ کچھ سامانِ راحت پیدا کیا جائے۔ کچھ تو دل میں جان آئے‘ کچھ تو رگوں میں خون دوڑے۔