اب جو ہوتا ہے ہماری بلا جانے ‘ ہم حالات سے بیگانہ ہوچکے۔ اور کریں بھی کیا ‘ کون سے تیر ہم چلاسکتے ہیں‘ کس نے ہماری سننی ہے؟ اتنا کچھ دیکھ کر ایک بات سمجھ چکے ہیں کہ یہاں ایسا ہی چلنا ہے‘ کسی چیز نے ٹھیک نہیں ہونا۔ہمارے مسائل پیچیدہ تو تھے ہی لیکن اب دائمی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ ہم ماہر ہیں ٹوٹکوں کے‘ لیکن کسی ٹوٹکے نے یہاں کام نہیں دکھانا۔تو پھر سرکھپانے کی کیا ضرورت؟لکھتے لکھتے اب تو عمر بیت چکی ہے۔ ویسے بھی ہم کون سی تلوار چلاسکتے تھے اور اب تو یہ بات عیاں ہے کہ جو ماحول اس مملکتِ خداداد میں بن چکا ہے لکھنے لکھانے سے زیادہ فضول کوئی اور کام نہیں ۔
روزمرہ کی ویسے بھی یہاں کوئی معیاری لکھائی رہی نہیں۔ چند اخبارات ہیں‘ آپ ہی منصفی کیجئے ‘ کتنے کالم یامضامین شائع ہوتے ہیں جن کا کوئی انتظاررہتاہے؟ایک مثال اگر دینے کی اجازت ہو ‘ ہندوستان میں ایک خاتون جرنلسٹ ہیں‘ پالکی شرما۔ Vantage کے نام سے پروگرام کرتی ہیں۔پُرکشش شخصیت کی مالک تو ہیں ہی لیکن اس سے بڑھ کر بڑا عمدہ پروگرام ہوتا ہے‘ جس میں ریسرچ اور محنت صاف ظاہر ہوتی ہے۔میں اس لیے ذکر کررہا ہوں کیونکہ اس معیار کا پروگرام ہمارے ہاں کوئی نہیں ہے۔دانشورانہ پستی ہماری ہر میدان میں نظرآتی ہے۔ ہمیشہ ایسے نہیں تھا‘ ہماری صحافت کا معیار بھی خاصا بلند ہوا کرتا تھالیکن جب زوال شروع ہوا تو اُس نے ہرچیز اور ہرشعبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔جس ملک یا معاشرے میں نظریات کاڈھول اس زور سے پیٹا جائے اُس میں سوچنے اوراظہارِ رائے کی صلاحیت کہاں رہ جاتی ہے۔
گزارش اس لیے یہی ہے کہ یہاں کچھ کہنے کا فائدہ نہیں۔جیسے حالات یہاں چل رہے ہیں ویسے ہی رہنے ہیں۔ جنہوں نے حکم چلانا ہے وہ ایسا کرتے رہیں گے اور اُنہوں نے کسی اور کی بات نہیں سننی۔ جہاں تک آئین اور قانون کی بات ہے یہ الفاظ تو اب مذاق بن کے رہ گئے ہیں‘ انہیں سنجیدگی سے کوئی نہیں لیتا۔ موجودہ دور میں تو سب پردے چاک ہو چکے ہیں‘ عام آدمی بھی سمجھ گئے ہیں کہ حقیقت میں آئین اور قانون نامی چیزوں کا کوئی خاص وجود نہیں۔جن کا حکم چلنا ہے وہی صورتحال رہے گی‘ باقی چیزیں ثانوی حیثیت کی حامل ہیں۔
میں تو اکثر سرپکڑنے پر مجبورہوجاتا ہوں۔ہماری اجتماعی سمجھ کا معیار اب یہ ہوچکا ہے کہ اکثر لوگ طنز اور سارکیزم (sarcasm) سمجھنے سے قاصر معلوم ہوتے ہیں۔ ہمارے گناہگار قلم سے سامانِ راحت یا سامانِ شب کا ذکر ہوتا ہے تو مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہر چوراہے پر بادہ خوری کی دکان کھولی جائے‘ یا ہرچوبارے پر کوئی مے کدہ بنے۔ ذکرِ شب اصطلاحاً ہوتا ہے کہ یارب اس معاشرے کی گھٹن تو ذرا کم ہو‘ اور گھٹن صرف اس لحاظ سے نہیں کہ مطلوبہ چیزیں میسر ہوں بلکہ زیادہ اس لحاظ سے کہ ہمارے معاشرے کی ذہنی گھٹن کم ہو۔ لیکن ایسے مہربانوں کی کوئی کمی نہیں جو یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ دیکھو جی سوائے بادہ خوری کے ان صاحب کا کوئی اور مسئلہ نہیں۔کئی مہربان تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ اس عمرمیں اللہ اللہ کرنا چاہئے‘ لیکن اِن صاحب کو نہ اپنی آخرت کا خیال ہے نہ کسی اعتقاد کا۔کوئی یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ بیٹے کی اصلاح توکر نہ سکے معاشرے کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایاہوا ہے۔ایسے تبصرے پڑھ کے یقین ہو جاتا ہے کہ ہمارا کوئی علاج نہیں‘ یہاں اُس صلاحیت کی خاصی کمی ہے جس سے اچھائی کی کوئی امید پیدا ہوسکے۔
آج کے ٹائمز آف لندن کا وہ معیار نہیں رہا جو ایک زمانہ میں ہوا کرتا تھا‘ لیکن گزرے وقتوں میں ٹائمز آف لندن میں 'لیٹرز ٹو دی ایڈیٹر‘ پڑھنے کا اپنا ہی ایک مزہ ہوا کرتاتھا۔اُن خطوط میں کیا کیا چٹکلے نہیں ہوتے تھے‘ پتا چلتا تھا کہ یہ پڑھا لکھا معاشرہ ہے۔لیکن ہمارے اخبارات میں جو خطوط شائع ہوتے ہیں ‘اُن کا کیا معیار ہوتا ہے؟انگریزی اخبارات ہوں یا اردو کے‘ جو خطوط چھپتے ہیں اُن کے مطالعے سے یہ تاثر قطعاً نہیں ابھرتا کہ یہ کوئی بہت روشن خیال معاشرہ ہے۔انگلستان کو چھوڑیے ہندوستان کی صورتحال ہم سے مختلف ہے ‘وہاں اخبارات یا رسائل میں خطوط پڑھیں توپتا چلتا ہے کہ اُن کے حالات ہم سے بہتر ہیں۔
یہ جو ہم نظریات کی بھینٹ چڑھے اس کا ہماری اجتماعی سوچ پر بہت منفی اثر پڑا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہماری جامعات کا حال دیکھ لیجئے۔ تعلیمی معیار ہمارے گر کررہ گئے ہیں۔نصاب جو ہمارے سکولوں اور کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے‘ آج کل کے دور میں کیا ایسا نصاب ہونا چاہئے؟لطف کی بات البتہ یہ ہے کہ معاشرے میں جو طبقات کچھ مقام رکھتے ہیں وہ گھاٹے کا سودا کبھی نہیں کرتے۔یہاں ایک نظامِ تعلیم ہو پھر تو کچھ کہا جائے لیکن عوام کیلئے نظام تعلیم اور ہے خواص کیلئے کچھ اور۔اس دہرے معیار پر ہمارے معاشرے میں کوئی احتجاج بھی نہیں ہوتا۔ جو مرضی ہے آپ کرتے جائیں معاشرہ ہمارا ایسا ہے کہ سب سہہ لیا جاتا ہے۔جہاں بہت سی چیزوں کی کمی ہے قوتِ برداشت کی یہاں انتہا ہے۔ ہاں‘ یہ بات اور ہے کہ عقل اور سمجھ کی بات کی یہاں کوئی برداشت نہیں۔چھوٹی سے چھوٹی بات اشتعال انگیزی میں بدل جاتی ہے اور ہمارا معاشرہ جب اشتعال میں آئے توعقل پر مکمل پردے پڑجاتے ہیں۔ لیکن ویسے ہمیں کوئی رگیدے ہم پر ڈنڈا چلائے ‘ زبانیں ہماری بند کر دی جائیں ‘ تو پھر ہماری برداشت کسی مہاتما کی برداشت سے بھی زیادہ ہو تی ہے۔جبرِنظام ہم برداشت کرلیں گے جبرِ عقل یا سمجھداری ہم سے برداشت نہیں ہوتی۔
تو بتائیے جب ایسی صورتحال ہو تو ہم کہاں کے حکیم بن جائیں کہ ہر کالم میں معاشرے کی اصلاح کرتے پھریں؟ نہ تو ہم حکیم نہ ہماری دوا اتنی کارگر‘ نہ معاشرہ ایسا کہ ہم مستند گناہگارو ں کی دوا قبول کرے۔ تو جب معلوم ہے کہ یہاں کی بنیادیں ایسی رکھی گئیں کہ تعمیرشدہ عمارت میں کسی تبدیلی یا بہتری کی کوئی گنجائش نہ رہے‘ تب ہی تو کہتے ہیں کہ چھوڑو ان جھمیلوں کو ‘ چلنا ہے تو چمن کو چلئے یا غوروفکر اس بات کی ہو کہ اداسی ٔ شب کو کیسے کم کیا جائے ۔
یاتو ہمیں کوئی بتلائے کہ فلاں پہاڑوں پر کوئی فیدل کاسترویا چے گوویرا مورچہ زن ہے اور اُن جیسوں کے ہاتھوں انقلاب کی تیاری ہو رہی ہے۔ پھر تو ہم بھی کوئی سلیپنگ بیگ خریدیں ‘ نواب اکبر بگٹی کی طرح سرپر ہیٹ پہنیں اور پہاڑوں کی طرف چل پڑیں۔لیکن اس بدنصیب دھرتی کی قسمت دیکھئے کہ یہاں کوئی فیدل کاسترو یا چے گوویرا نہیں ‘ یہاں کے پہاڑوں میں تو کوئی ٹی ٹی پی والے ہی مل سکتے ہیں اور اُن کے ہتھے کوئی چڑھ جائے توپہلے کے تمام نظریات بھولنا پڑیں۔ بتائیے ‘ پھر آدمی جائے توجائے کہاں؟ایک طرف پاکستان کے حالات اور نجات دہندہ ایسے جن کی شکلیں دیکھ کر دل میں خوف اترنے لگے۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ حالات سے مقابلہ کیا جائے لیکن مملکتِ خداداد کی ہیئت ایسی بن چکی ہے کہ مقابلے کی گنجائش نہیں رہی۔ایسے میں انسان راہِ فرار اختیار کرتا ہے ۔ یعنی جدوجہد کی راہ نہ رہے تویا تو انسان بوریت سے مر جائے یا زندگی کی رمق باقی ہو تو طاؤس و رباب کی راہ اختیار کرے۔ہم ایسے فضول لوگ نکلے ہیں کہ ایک زمانے میں جو رنگین چوبارے ہوا کرتے تھے اُنہیں بھی نظریات کے نام پر بند کردیا گیا۔ جھنکار کی آواز اب بھی سنائی دیتی ہے لیکن جہاں ہرچیز کی گراوٹ ہوئی ہے طاؤس و رباب کا حال بھی بُرا ہے۔ اب تو بھول کے کسی محفل میں جائیں توبڑے بڑے سپیکروں پراکثر ایسی موسیقی سننے کو ملتی ہے کہ پستول نکالنے کا جی چاہتا ہے۔