پہلے سے کہیں زیادہ پاکستان کو آج ایک مضبوط اعلیٰ عدلیہ کی ضرورت ہے۔انتظامی من مانیاں اپنے انتہا کوپہنچی ہوئی ہیںاور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ہائیکورٹوں کے احکامات آتے ہیں لیکن بے اثر ثابت ہوتے ہیں۔ مقدمات ختم کرنے کے حکم صادر ہوں تونئے مقدمات بن جاتے ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں لوگ پُراسرار طریقے سے غائب ہو جاتے ہیں اورایسے واقعات کا کبھی کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔
سیاسی آوازیں دب کے رہ گئی ہیں ۔ ویسے بھی سیاست اور ہاتھوں میں جاچکی ہے اوربڑے فیصلے بھی وہیں ہو رہے ہیں۔شہبازشریف وزیراعظم تھے لیکن اُن کی اصلی حیثیت کسی سے پوشیدہ نہیں تھی۔اب یہ نگران وزیراعظم صاحب آئے ہیں اوران کی حیثیت بھی ہمیں معلوم ہے۔ ایسی صورتحال میں لوگ اعلیٰ عدلیہ کے دروازے پر ہی دستک دے سکتے ہیں لیکن اعلیٰ عدلیہ کے احکامات بھی مذاق بن جائیں توپھر لوگ کہاں جائیں اور شنوائی کہاں ہو؟
البتہ اعلیٰ عدلیہ تب ہی ایک مضبوط مقام حاصل کرسکتی ہے اگر اسے عوامی پذیرائی حاصل ہواور عوام اسے عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھیں۔ مضبوطی کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں کوئی دراڑیں نہ ہوں اورپوری عدالت یکسوئی سے کام کر رہی ہو۔ آپس کے پھڈے پڑے ہوں‘ جج ایک دوسرے سے بات کرنا گوارہ نہ کرتے ہوں‘ توپھر اعلیٰ عدلیہ کی تکریم کہاں سے آئے گی؟ اصولوں کی بنیاد پر اعلیٰ عدالتوں میں اختلاف تو ہوتے ہیں‘ مختلف موضوعات پر رائے مختلف ہوسکتی ہے‘ لیکن ذاتی رنجشوں کو تو سامنے نہیں آنا چاہئے اور اگر عوام الناس میں یہ تاثر پھیلے کہ جج صاحبان ایک دوسرے کے رقیب ہیں توپھر اعلیٰ عدلیہ کی عزت لازمی طور پر مجروح ہوتی ہے۔
اوپر کی گزارشات اس لئے ضروری ہیں کہ جناب عمرعطابندیال کی سپریم کورٹ میں نہ صرف تفریق پائی جاتی تھی بلکہ وہ تفریق بہت واضح بھی ہوچکی تھی۔ چیف جسٹس صاحب کے خلاف یہ شکایت تھی کہ اہم مقدموں کے حوالے سے بینچ اپنی مرضی کے بنائے جاتے ہیں اور دو تین ہم خیال جج اپنی مرضی کے فیصلے سناتے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ کوبطورِ خاص اہم مقدمات سے دوررکھا جاتا تھا‘ اہم مقدمات کے بینچوں میں اُن کا نام نہیں آتا تھا۔اُن کے خلاف ایک ریفرنس بھی دائر کیا گیا جس کی وجہ سے سپریم کورٹ میں خاصی بدمزگی پیداہوئی۔سیاسی مقدمات میں ایسے ایسے فیصلے سنائے گئے جس سے سپریم کورٹ تنقید کانشانہ بنی اور اس بنا پہ سپریم کورٹ کا کردار کچھ متنازع سمجھا جانے لگا۔مثال کے طور پر جس روز عمران خان کے خلاف تحریک عدمِ اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی سپریم کورٹ کے دروازے رات کو کھل گئے۔ ایسی بھی کیاجلدی تھی ؟ اور کس اندیشے کے تحت شام ڈھلے دروازے ایسے کھلے؟اور جب ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے اقدام کے خلاف پٹیشن دائر کی گئی تو فیصلہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف آیا ۔ لیکن جب پنجاب میں مسائل پیدا ہوئے تو چیف جسٹس بندیال نے ایسا فیصلہ سنایا جو چوہدری پرویز الٰہی کے حق میں سمجھا جانے لگا۔ جب پنجاب اسمبلی تحلیل ہوئی تو مقدمہ لاہور ہائیکورٹ میں چل رہا تھا لیکن چیف جسٹس صاحب جلدبازی کرتے ہوئے یہ مسئلہ خود سننے لگ پڑے۔کچھ دن انتظار کرلیا جاتا تو اس سے کیا ہونا تھا؟ لیکن جلد بازی دکھا کے چیف جسٹس صاحب نے اپنے آپ کو متنازع بنا دیا۔ پھر یہ جو قانون جس کا کیس سپریم کورٹ میں اب سنا جا رہا ہے بحوالہ سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر ایکٹ ‘ بہتر تو یہی ہوتا کہ پوری سپریم کورٹ اس کو سنتی لیکن چیف جسٹس صاحب نے ایسا نہ کیا اورقانون کو کالعدم قرار دے دیا۔لیکن اب لگتا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں اس قانون کی توثیق ہو جائے گی۔
بہرحال قاضی صاحب کی شروعات قابلِ ستائش ہیں۔پہلے دن بغیر پروٹوکول کے سپریم کورٹ میں آنا اچھا لگا۔ ہمارے ملک میں آدھی بیماری ہی پروٹوکول کی ہے۔ جسے دیکھو گاڑیوں کی قطاروں میں آجا رہا ہوتا ہے۔ ویسے بھی دیکھا جائے تو چیف جسٹس سپریم کورٹ کا پروٹوکول کچھ زیادہ ہی بھاری دکھائی دیتا ہے۔سپریم کورٹ میں آتے قاضی صاحب نے پولیس سے گارڈ آف آنر بھی نہیں لیا‘ یہ بھی اُنہوں نے اچھا کیا۔ہمارے ہاں یہ سب کچھ زیادہ ہوتا ہے۔قاضی صاحب نے اس لحاظ سے اچھی مثال قائم کی ہے اور پہلے دن ہی وہ جب سپریم کورٹ میں بیٹھے تو کیس سننے کیلئے تمام جج صاحبان موجود تھے۔ کوئی آسمان تو نہ گرا ‘ تمام جج صاحبان کی موجودگی بھی لوگوں کو اچھی لگی ہوگی۔ایسی شروعات اگر نیک شگون ہیں تو امید پیدا ہوتی ہے کہ قاضی صاحب کی سربراہی میں اور بھی اچھی چیزیں ہوں گی۔
متنازع ہونے کی وجہ سے بندیال صاحب کی اتھارٹی کمپرومائز ہوگئی تھی۔ پنجاب میں انتخاب کی تاریخ اُنہوں نے مقرر کر دی تھی لیکن حکومت نے اُن کے اس حکم کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔حکم تو آج بھی فیلڈ میں ہے لیکن کہاں گیا پنجاب کا انتخاب؟ عاجز عوام کی تو یہی خواہش ہوگی کہ سپریم کورٹ کی اتھارٹی بحال ہو تاکہ وہاں سے کوئی حکم آئے تو اُس کی کوئی عزت ہو۔ہم تو یہ دیکھ رہے ہیں کہ لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج صاحب آئی جی اسلام آباد کی پیشی کا حکم صادر فرماتے ہیں لیکن آئی جی صاحب کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہی ہر جگہ ہو رہا ہے ۔ اس وقت بہت سے اہم مسئلے سپریم کورٹ کے سامنے ہیں مثلاً عام شہریوں کے مقدمات کاعام عدالتوں کی بجائے خاص عدالتوں میں چلنا۔ بنیادی حقوق کے ضمن میں بہت سے ایسے مسئلے سپریم کورٹ کے سامنے ہیں۔حالات تو ایسے ہیں کہ قانون کی حکمرانی کا سارا تصور چیلنج ہو رہا ہے۔ سیاست بٹی ہوئی ہے کیونکہ اگر پی ٹی آئی کو مشکلات کا سامنا ہے تو اُس کی حریف جماعتیں حکومتی بندوبست کے ساتھ ملی ہوئی ہیں۔وکلا آوازیں اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اُن کی صفوں میں بھی وہ اتحاد نہیں جو 2007ء کی وکلا تحریک میں دیکھا گیا تھا۔
یہ کہنا اپنی جگہ بجا ہے کہ سیاسی مسائل کا حل سیاسی میدان میں ڈھونڈا جانا چاہئے لیکن جب سیاسی میدان دباؤ میں آ جائے اور لوگ کھل کے بات نہ کرسکیں توپھر لے دے کے عدلیہ ہی رہ جاتی ہے جس پر لوگ اپنی امیدیں باندھ سکتے ہیں۔ لہٰذا قاضی صاحب کے کندھوں پر بہت بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ جج صاحبان آتے ہیں اور اپنا وقت گزار کر چلے جاتے ہیں ۔ اُن کا نام بھی کسی کو یاد نہیں رہتا‘لیکن بات تو تب ہے کہ غیر معمولی حالات میں اعلیٰ عدلیہ بھی غیرمعمولی کردار ادا کرے۔قانون کی موشگافیاں بھی اپنی جگہ ہوتی ہیں۔ جوتواتر کے مقدمات کی روش چلی ہے یہ بھی دیکھا جائے تو قانون کے مطابق ہے۔اگر عدلیہ کسی کی رہائی کے احکامات صادر کررہی ہے تو سرکار کے پاس قانون کے مطابق مکمل اختیار ہے کہ نیا مقدمہ قائم کرے۔ بدنیتی کا ظاہر ہونا بعد کی بات ہے ‘جو اندر گیا وہ بیچارہ تو اندر ہی رہے گا اور بدنیتی کو ثابت ہوتے بھی وقت لگتا ہے۔اس لئے قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر ہوں گی کہ انتظامی من مانیوں کاکچھ تدارک ہوتا ہے یا قانون کی ہیرا پھیریوں کا سہارا لیتے ہوئے ایسی من مانیوں کو برداشت کیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان کے از خودسماعت کا اختیار بھی تنقید کا نشانہ بنا ہے۔ بجاکہا جاتا ہے کہ چیف جسٹس صاحبان کوخوا مخواہ کے ازخود نوٹس نہیں لینے چاہئیں۔ لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ زیادتیاں حد سے بڑھ جائیں اور کوئی اُس کا مداوا نہ ہوسکے۔ ایسے حالات میں ازخود سماعت کا جواز بنتا ہے۔ انتخابات کے التوا کو طول دیا جاتا ہے توسپریم کورٹ مداخلت نہ کرے تو اورکون کرسکتا ہے؟ نہیں تو یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ اپنا دامن تنازعوں سے صاف رکھے اور حالات بس جوں کے توں چلتے رہیں۔