اُداس کیا ہونا ہے‘ بس ایک احساس ہے کہ حالات نے کچھ ایسا ہی رہنا ہے۔ اپنے پہ اب بھی بھروسا ہے کہ ہنسی خوشی وقت گزار لیں گے لیکن اپنے اردگرد کے ماحول کے بارے میں ایسا یقین نہیں۔ خاص طور پر ملکی حالات ایسے ہیں کہ ان پر تھوڑا سا بھی غور کیا جائے تو طبیعت ڈپریشن میں چلی جاتی ہے۔
سیاسی حوالے سے ایک چیز معلوم ہے کہ جو اربابِ اختیار ہیں انہوں نے ناپسندیدہ جماعت کو آگے نہیں آنے دینا۔ جو بھی ہو جائے اس جماعت کے راستے بند کرنے ہیں۔ ہم لوگ اس بات پر مرے جا رہے ہیں کہ الیکشن کب ہوں گے۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جب بھی الیکشن ہوئے‘ کس انداز سے کرائے جائیں گے؟ اس جماعت کے کچھ لوگ تو حکومتی جالوں میں پھنسے ہوئے ہیں‘ مقدمات چل رہے ہیں‘ کہیں ضمانت ملتی بھی ہے تو کوئی دوسرا مقدمہ قائم ہو جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ناپسندیدہ لوگ نکلنے نہ پائیں۔ جو بھی ہو وہ اندر ہی رہیں۔ ہم جیسے لاکھ کہیں کہ انتخابی میدان میں کوئی ناقابلِ شکست ہے‘ لیکن اس کا ناقابلِ شکست ہونا تب ہی کوئی معنی رکھے گا جب وہ سلاخوں کے اس طرف ہو گا۔ الیکشن کی تاریخ کا اگر اعلان ہو بھی جائے‘ اور وہ اندر ہی رہیں تو ان کا عالم ایک بے بسی کا عالم ہوگا۔کسی کا بھی نام لے لیں‘ یہ منطق معتوب جماعت کے سب لوگوں پر فٹ ہوتی ہے‘جو پابندِ سلاسل ہیں۔ کچھ نام لینے کا جی چاہتا ہے لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں حالات کچھ یوں ہیں کہ معتوب لوگوں کا نام لینا بھی ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے۔
یہ تو وہ لوگ ہو گئے جن پر باقاعدہ مقدمات قائم ہیں اور جو ان مقدمات کی پاداش میں زیرِ حراست ہیں۔ کچھ ایسے ورکر اور لیڈر ہیں جو اَب تک روپوش ہیں اور کسی کے ہاتھ نہیں آ رہے۔ ان کے بارے میں بتائیے کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوتا ہے تو یہ کاغذات کیسے داخل کرائیں گے؟ ریٹرننگ افسروں کے کہیں نزدیک بھی پھٹکے تو اٹھا لیے جائیں گے۔ ہائیکورٹوں میں رِٹیں دائرکرتے رہیں‘ ان سے کیا فرق پڑے گا؟ الیکشن کے کاغذات داخل کرانے کا عمل ایک فزیکل کارروائی ہوتی ہے‘ یعنی امیدوار کو خود ریٹرننگ افسر کے سامنے آنا پڑتا ہے۔ اب کسی کو عدالت کے احاطے سے پہلے ہی اٹھا لیا جائے تو اُس نے کاغذات خاک جمع کرانے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ معتوب جماعت کے سرکردہ افراد الیکشن کے عمل سے باہر رہیں گے۔کوئی کیسے آئے گا کسی حلقے میں کاغذات داخل کرانے کیلئے؟ مطلب یہ کہ ہر سُو ایک مخصوص قسم کی فضا طاری ہو تو جو پولیس کو مطلوب ہیں وہ سامنے کیسے آئیں گے؟ کہیں بھی نظر آئے تو پولیس کا ان پر ہاتھ ہوگا۔
اس سب کے علاوہ ایک اور مشق اب شروع ہو چکی ہے۔ جو بھی متوقع امیدوار سمجھے جا رہے ہیں اور جن پر اب تک کوئی مقدمات قائم نہیں ہیں‘ ان پر اینٹی کرپشن قسم کے پرچے دیے جا رہے ہیں۔ مقدمات جتنے بھی بھونڈے ہوں‘ مقدمات تو رہتے ہیں اور اُن کی موجودگی میں پولیس کے پاس ہتھیار رہتا ہے لوگوں کو اٹھانے کا۔ مقصد تو یہ ہوگا کہ ناپسندیدہ جماعت کے لوگ الیکشن کے عمل کا حصہ نہ بن سکیں۔عموماً تین دن ہوتے ہیں کاغذات نامزدگی جمع کرانے کیلئے۔ ان تین دنوں میں کسی کو آگے نہ آنے دیا جائے تو اس کے بعد وہ جتنا شور مچائے اُس سے کیا فرق پڑتا ہے؟کوئی کہتا رہے کہ کاغذات جمع نہیں کراسکے‘ کہتے رہیں‘ کسی کی صحت پہ اثر نہیں پڑے گا۔ اس وقت آئی بی‘ سپیشل برانچ اور دیگر ایسے محکمے ایک کام پر لگے ہوئے ہیں کہ ہرانتخابی حلقے میں متوقع امیدواروں کی لسٹیں بنائیں اوررپورٹیں دیں کہ متوقع طورپر جیتنے والے کون ہیں اور مختلف امیدوارں کی انتخابی پوزیشن کیا ہے۔ان محکموں میں اور کچھ کام نہیں ہورہا۔ لہٰذا مسئلہ الیکشن کی تاریخ کا نہیں‘ الیکشن کی تاریخ کا اعلا ن ہوگا تو جو ناٹک درپردہ چل رہا ہے وہ زیادہ واضح ہو جائے گا۔
صحیح تماشا تو اُن تین دنوں میں لگے گا جو کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے کیلئے مختص ہوں گے۔ (ن) لیگی امیدوارجلوسوں کے ساتھ عدالتی احاطوں میں آ رہے ہوں گے اور ریٹرننگ افسرو ں کے سامنے اپنے کاغذات پیش کررہے ہوں گے۔ جلوسوں کے شرکا حسبِ توفیق نعرے لگا رہے ہوں گے‘ عدالتی احاطوں کے باہر تک ڈھول کی تھاپ بھی سنائی دے گی۔ لیکن مخالف امیدوار کہیں نظر نہیں آئیں گے۔ جو امیدوار رات اپنے گھر میں گزار نہ سکے‘ جو پولیس سے چھپ رہا ہو‘ اُس بیچارے نے کہاں کے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے ہیں؟یعنی یہ جو آنے والا الیکشن ہے ایک نرالا الیکشن ہوگا۔ ناپسندیدہ جماعت پر کوئی قانونی پابندی نہ ہوگی۔ٹی وی چینلوں پر لیول پلیئنگ فیلڈ کی باتیں ہو رہی ہوں گی۔ نگران وزیراعظم اور نگران وزرائے اعلیٰ معصوم چہروں سے کہہ رہے ہوں گے کہ کسی جماعت پر کوئی پابندی نہیں‘ الیکشن میں حصہ لینے کیلئے تمام جماعتوں کو برابر کے مواقع مل رہے ہیں۔البتہ عملاً آزادی صرف سرکارپسند جماعتوں کیلئے ہو گی۔ (ن)لیگ اورپیپلز پارٹی آزاد ہوں گی‘ جے یو آئی آزاد ہوگی‘ کسی اور جماعت پر بھی پابندی نہ ہو گی۔ لیکن ناپسندیدہ جماعت کے امیدوار بیچارے آگے آ ہی نہیں سکیں گے۔وہ کیا کہتے ہیں کہ برابر تو سب ہوں گے لیکن کچھ اوروں سے ذرا زیادہ برابر ہوں گے۔
یعنی ایسا ہی ہوگا جیسا کہ قانونی میدان میں اب ہو رہا ہے ۔ کہنے کو تو قانون سب کے لیے برابر ہے لیکن اُس کا اطلاق مختلف لوگوں پر مختلف انداز سے ہوتا ہے۔یعنی قانون کی وہی کتابیں ہیں جن سے محترم نوازشریف کو ریلیف درریلیف ملا جا رہا ہے اوروہی کتابیں جن کے تحت معتوب جماعت کے معتوب لیڈرکیلئے تمام دروازے بند ہیں۔ ملک میں کوئی سٹیٹ آف ایمرجنسی نافذ نہیں۔ کہنے کو توعام قانون چل رہا ہے اور عدالتیں بھی آزاد ہیں۔البتہ عملاً ایسے لگتا ہے کہ ملک میں ایمرجنسی سے بھی کوئی بھاری ایمرجنسی نافذ ہے ۔پولیس جو چاہے کر رہی ہے اور عدالتیں اپنا کام تو کررہی ہیں لیکن جو عتاب کے نیچے آئے ہوئے ہیں اُنہیں قانون کے مطابق ریلیف نہیں مل رہا۔لہٰذا فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں‘ جیسے قانون کا اطلاق ہو رہا ہے الیکشن بھی بالکل ویسے ہی ہوں گے۔ کہنے کو سب برابر ہوں گے‘ کہنے کو سب کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ ہوگی لیکن کچھ کے ہاتھ پیر بندھے رہیں گے اور کچھ کے لیے تمام سہولتیں میسر ہوں گی۔سمجھنے کی بات تو یہ ہے کہ ہم نارمل حالات سے نہیں گزررہے‘ یہ خاص قسم کے حالات ہیں جن میں ایک قسم کی جنگ جاری ہے۔جو نام نہاد رجیم چینج کے تحت ہٹائے گئے تھے اُن کو ہٹانے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ کچھ عرصے بعد اُنہیں پھر اقتدار میں لایاجائے۔ بھٹو صاحب ہٹائے گئے تو ہٹائے گئے تھے‘ نوے دن میں انتخابات کس نے کرانے تھے؟بالکل اسی طرح رجیم چینج کے زخمیوں کو اقتدارسے دور رکھنا ہے۔الیکشن اس لیے تھوڑی ہوں گے کہ فیلڈ کھلی ہو اورجسے عوام چاہیں وہ ہرچیز کو روندتے ہوئے اقتدار میں آ جائے۔اقتدار کی کشمکش میں ایسا نہیں ہوتا۔
بے بسی کا عالم اسی وجہ سے ہے کہ عوام کی خواہشات تو ہیں لیکن عوام کے ہاتھ میں کچھ نہیں ۔ پرچی کا استعمال تو عوام کرسکیں گے لیکن اپنی پسندکا امیدوار بیلٹ پیپر پر ہوہی نہ تواُس پرچی سے کسی نے کیا کرنا ہے؟ ایسے میں کچھ اُداسی بھی ایک قدرتی ردِعمل ہے۔ کیا ہمارے ملک میں یہی کچھ ہونا تھا؟ کیا ہم اسی کے قابل ہیں؟ چھہتر سال ہو گئے ملک کو بنے اور یہ ہمارے حالات ہیں۔تھوڑا سا رونا تو پھر آتا ہی ہے۔