انسان کی زندگی میں غم آتا ہے‘ تکلیفیں اُٹھانا پڑتی ہیں‘ اوروں کی طرح ہم نے بھی زندگی میں بہت اُتار چڑھاؤ دیکھا ہے لیکن بیٹے کا جو سزائے موت کا فیصلہ سنا تو کلیجے پر ایسا لگا کہ کچھ سوچ کے قابل نہ رہے۔ فیصلہ سننے کے لیے دوست احباب چکوال سے آئے ہوئے تھے اور میں ایسی خوش فہمیوں میں مبتلا تھا کہ فیصلے کی نوبت یہاں تک نہیں آئے گی۔ لیکن فیصلہ آیا توکچھ کہنے کے قابل نہ رہا۔ سارے دوست بھی وہاں سکتے میں آ گئے اور کسی نے دلاسہ دینا بھی فضول کی کارروائی سمجھا۔
گاڑی میں بیٹھا تو ارادہ تھا بھگوال کی طرف جاؤں گا لیکن موٹروے پر چڑھتے ہی احساس ہوا کہ یہ ٹھیک نہیں رہے گا۔ ہمارا ماحول ایسا ہے کہ تھوڑا سا صدمہ بھی ہو تو لوگ افسوس کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ میں تو اُس وقت دلاسوں اور افسوس کے موڈ میں نہیں تھا لہٰذا یہی فیصلہ کیا کہ بہتر ہے کہ گاؤں سے دور ہی جاؤں اور کسی تنہائی میں عافیت اور پناہ تلاش کروں۔ لاہور سے چھوٹے بیٹے نے بھی کہا کہ اچھا ہوگا کہ یہاں آ جائیں۔ سارا راستہ ایک سکتے کی کیفیت میں رہا لیکن انسانی فطرت دیکھیں کہ راستے میں کچھ نیند بھی آ گئی۔ ہزار صدمو ں کی دوا نیند کی بے خودی ہوتی ہے۔ بڑے سے بڑا صدمہ ہو پھر بھی فوراً نہیں تو کچھ دیر بعد نیند کا غلبہ آ ہی جاتا ہے۔
تمام مغربی لٹریچر یونانی مصنف ہومر (Homer) کی دو تصانیف سے شروع ہوتا ہے: ایک اِلیاڈ (The Iliad) اور دوسری اوڈیسی (Odyssey) ۔ اس دوسری تصنیف کا ہیرو اوڈیسی ایس (Odysseus) ہے اور یہ اس کے سمندری سفر پر مبنی کہانی ہے جب یونانی فوجی ''ٹرائے‘‘ کے خلاف دس سالہ جنگ کے بعد واپس یونان اپنی کشتیوں پر لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ دورانِ سفر آڈی سی ایس اور اُس کے ساتھی ایک سمندری راستے سے گزر رہے ہوتے ہیں جب اُن پر ایک دیو حملہ کرتا ہے اور کئی ساتھی مارے جاتے ہیں۔ ایک اور جزیرے پر پہنچتے ہیں تو بھوک ستانے لگتی ہے‘ کچھ بیلوں کو ذبح کیا جاتا ہے اور کھانا تیار ہوتا ہے۔ بھوک مٹتی ہے تو جو ساتھی مارے جاتے ہیں اُن کی یاد آتی ہے اور سب ساتھی رونے اور ماتم کرنے لگتے ہیں۔ یعنی پہلے بھوک کا خیال آتا ہے اور ماتم پھر ہی کیا جاتا ہے۔ روتے روتے نیند کا غلبہ اُن پر آ جاتا ہے اور وہیں ساحل پر تمام ساتھی نیند کی وادی میں چلے جاتے ہیں۔ انسانی فطرت میں یہی کچھ لکھا ہے۔
شکر ہے کہ میں چھوٹے بیٹے شہریار کے پاس آ گیا۔ باتیں کرتے کرتے رات ہو گئی تو کھانا کھا کر میں سو گیا۔ جس دن فیصلہ سنایا گیا میں نے ارادہ کیا کہ اس ہفتے اپنے ٹی وی پروگرام میں شامل نہیں ہوں گا کیونکہ اس وقت تو تصور کرنا بھی محال تھا کہ ٹی وی پر آؤں اور لایعنی باتوں کا ذکر اور ان پر تبصرہ کروں۔ لیکن صبح جب اٹھا اور رات کو کچھ نیند آ چکی تھی تو پھر سوچا کہ ایسا کرنے کا کیا فائدہ؟ زندگی بہرحال چلتی رہتی ہے۔ غزہ میں کیا کچھ نہیں ہو رہا‘ کتنے لوگ مارے گئے ہیں‘ وہاں کے حالات کا تصورکرنا بھی مشکل ہے۔ لیکن وہاں اس بربریت کے سائے میں بھی لوگ زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ غزہ کی تو بہت بڑی مثال ہے‘ ہماری ٹریجیڈی ایک چھوٹی شخصی قسم کی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ جتنا بڑا صدمہ ہو‘ برداشت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ البتہ اس سے بھی انکار کیا کہ اولاد پر کچھ بیتے تو اُس کے نقوش دل پر رہ جاتے ہیں۔ اولاد بڑی بھی ہو جائے یاد وہ ننھا مُنا بچہ آتا ہے جو آپ کی گود میں کھیلتا تھا۔ بہرحال دل سے دعا یہی نکلتی ہے کہ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے کسی قوم کو نہ سہنا پڑے اور جو چھوٹا سا معاملہ ہمارے ساتھ ہوا ہے‘ وہ کسی باپ کو نہ سہنا پڑے۔
ایسے میں مجھے یہ بھی برملا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ جو معصوم‘ بے ضرر اور نہایت ہی پیاری سارہ انعام تھی اُس کی یاد اور اُس کا چہرہ دل سے نہیں جاتا۔ بیٹے کا سوچتا ہوں تو سارہ کی شکل بھی سامنے آتی ہے۔ سارہ کے والدین کے دکھ کا کیا کہوں‘ وہ تو میرے دکھ سے کہیں زیادہ ہو گا۔ ہم مسلمان چاہے نیکوکار مسلمان ہوں یا میرے جیسے گناہگار‘ ہم میں ایک چیز ہے کہ ہم رب کی ذات پر تکیہ کرتے ہیں اور جو کچھ بھی ہو جائے ہم کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا کرنا ہے اور اللہ کی باتیں وہی جانے۔ بہت برا بھی ہو جائے ہم کہتے ہیں کہ یہی تقدیر میں لکھا تھا اور جو لکھا ہوتا ہے اُسے کوئی مٹا نہیں سکتا۔ کتنے ہی ہمارے جوان اور بیٹے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں شہید ہوئے ہیں۔ ضلع چکوال کا کوئی قبرستان نہیں جس میں ایک یا ایک سے زائد شہدا کی قبریں نہ ہوں۔ شہدا کی لاشیں آتی ہیں تو والدین اور عزیز و اقارب صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہی کہتے ہیں کہ یہی خدا کی مرضی ہے۔ ان واقعات اور صدموں کو سامنے رکھیں تو جس کرب سے میں گزر رہا ہوں وہ چھوٹا ہی سمجھا جائے گا۔ کہاں میدانِ جنگ میں شہادتیں اور کہاں کسی واقعہ کی پاداش میں ایک شخص کی سزا۔ موازنہ ہی نہیں بنتا لیکن جس کے ساتھ جوکچھ ہو وہ تو یہی سمجھتا ہے کہ یہ واقعہ کائنات کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔
سزائے موت کے قیدیوں کو جہاں رکھا جاتا ہے جیلوں کی اصطلاح میں اُن چھوٹے کمروں کو چَکی کہا جاتا ہے۔ چھوٹی سی جگہ میں چار چار‘ پانچ پانچ قیدی مقید ہوتے ہیں۔ یہ سوچ کر روح تڑپ اٹھتی ہے کہ میرا بیٹا ان حالات میں زندگی بسرکر رہا ہو گا۔ ایک دو دفعہ مجھے ان چکیوں کے معائنے کا اتفاق ہوا۔ قیدیوں کو وہاں دیکھ کر افسوس تو ہوتا ہے لیکن یہ بھی زندگی کا ایک حصہ ہے۔ چَکیوں کے قیدی پتا نہیں کن حالات کی بنا پر وہاں پہنچتے ہیں۔ ہر ایک کی کہانی الگ ہوتی ہے اور ہرکہانی پر ایک ناول لکھا جا سکتا ہے۔ البتہ جیلوں کے دورے جب میں نے کیے تو یہ خیال کبھی دل میں نہ آیا کہ وہ دن بھی آئے گا کہ اپنا بیٹا انہی سلاخوں کے پیچھے ہو گا۔ مجھے تو کم از کم یہ سہولت ہے کہ اخبار کی سطروں میں اپنا رونا رو رہا ہوں‘ نہیں تو زندگی صدموں اور ٹریجیڈیوں سے بھری پڑی ہوتی ہے۔ میرے بیٹے کو پھر بھی جیل میں کھانے پینے کی سہولت رہے گی حالانکہ جہاں قیدیوں کی ملاقاتیں ہو رہی ہوتی ہیں وہاں آپ جائیں تو احساس ہوتا ہے کہ پسماندگی اور لاچارگی کے معنی کیا ہیں۔
والد صاحب مرحوم نے ایک بار مجھے کہا تھا کہ بس یہی چاہتا ہوں کہ تمہیں نہ جیل جانا پڑے نہ ہسپتال۔ فیصلہ سننے کے بعد جب شاہنواز کو جلدی سے پولیس گاڑی میں بٹھایا گیا مجھے والد صاحب کی بات سمجھ آئی۔ لیکن پھر انحصار اس بات پر ہے کہ جو لکھا ہو‘ کیسے ٹل سکتا ہے۔ سوچ میں ڈوب جاتا ہوں کہ میری غلطیاں یہ تھیں‘ پرورش میں کوتاہی یہ تھی۔ ایسا نہ ہوتا تو شاید کچھ اور ہو جاتا۔ انسان افسوس کرنے بیٹھے تو بہت کچھ سامنے آ جاتا ہے لیکن گزرے ہوئے وقت کا ماتم کرنا‘ اِس سے کیا حاصل؟
تاریخِ عالم کا مطالعہ کریں تو ایسی قوموں کی کمی نہیں جنہوں نے ہزار مواقع گنوائے‘ اپنا وقت بربادکیا۔ اس تناظر میں انفرادی یا شخصی ٹریجیڈیوں کی کیا حیثیت؟ روز لوگ مرتے ہیں‘ کئی تو بھوک سے مر جاتے ہیں۔ کئی زندگی سے تنگ آ جاتے ہیں۔ کئی انسان تو ایسے ہیں کہ زندگی کی تمام آسائشوں کے باوجود زندگی سے بیزار ہو جاتے ہیں۔ اور ایسوں کا بھی ہم سنتے ہیں جو بھوک اور افلاس سے تنگ آکر اپنے بچو ں کو لے کر کسی بہتے پانی میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ ہر ایک کا رونا اپنا ہوتا ہے۔