اسلام آ باد ہائیکورٹ کے ججوں نے جو ہمت دکھانی تھی دکھا دی اور وہ کر دیا جس کی نظیر ہماری تاریخ میں کم ہی ملتی ہے۔ لیکن یہ کوئی اور ملک نہیں مملکتِ خداداد ہے اور اس کے طور طریقے اپنے ہی ہیں۔ یورپ یا امریکہ میں ایسا خط لکھا جاتا تو واقعی بھونچال آجاتا۔ یہاں ایک آدھ دن کے لیے بھونچال رہا اور ہم جیسوں نے یہ اُمید لگانا شروع کر دی کہ اسلام آباد کے ججوں کی پکار کے بعد وکلا برادری میں ایسی آگ بھڑک اُٹھے گی کہ 2007ء والی تحریک کی یاد پھر سے تازہ ہو جائے گی۔ ہم جیسوں کا ہمیشہ یہی پرابلم رہا ہے کہ تنکوں کی تلاش میں رہے۔ تھوڑی سی ہوا چلی تو اُمید باندھ لی اور ہوا تھمی تو اُمیدیں بھی بیٹھ گئیں۔
لیکن وکلا داد کے مستحق ہیں کیونکہ سمجھدار ہو گئے ہیں۔ ویسے بھی یہ 2007ء نہیں اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی بہت سمجھداری آ چکی ہے۔ وہ دن گئے جب وکلا تحریک کے دوران کہیں تقریری مقابلہ ہوتا تو ہمارے دوست علی احمد کُرد جیسے شعلہ بیاں مقرر یہ کہتے سنائی دیتے کہ قبر میں ہوں گے تو وہاں سے بھی آواز آئے گی ''گو مشرف گو‘‘۔ کُرد صاحب کے چاندی جیسے بال ماتھے پہ گرتے اور پھر ایک ڈرامائی جھٹکے سے چاندی جیسے بال پیچھے کیے جاتے اور شعلہ بیانی پھر سے شروع ہو جاتی۔ کیا دن تھے وہ‘ ٹی وی کیمرے دن رات چلتے تھے‘ وکلا برادری کی ان کیمروں سے پہلی شناسائی ہو رہی تھی۔ کیمرے چلتے تو بہادر وکلا سامنے کھڑے ہو جاتے اور پھر ہٹنے کا نام نہ لیتے۔ مشرف حکومت کی گرفت کمزور ہو چکی تھی یااُس حکومت کے چھماندرو حالات کا ادراک نہیں کرپارہے تھے۔ جو صورت بھی تھی ٹی وی چینلوں کو کوئی ایڈوائس نہیں جاتی تھی کہ فلاں کو دکھاؤ فلاں کو نہیں۔ چینلوں کو مکمل آزادی تھی اوروکلا تحریک کے جیالوں کے جذبات دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔
آج حالات ہی اور ہیں۔ ہر طرف سمجھداری ہی سمجھداری ہے۔ سمجھداری کا دوسرا نام حقیقت پسندی ہے۔لگتا ہے سب حقیقت پسند ہو گئے ہیں۔ اوروکلا برادری کی سمجھداری تواتنی انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ گو قانون وآئین کے ساتھ تقریباً وہ ہورہا ہے جو ہلاکو خان کے ہاتھوں بغدادکے ساتھ ہوا لیکن مجال ہے کہ ماتھوں پر کوئی شکن آتی ہویا بہادر دلوں میں خوئے بغاوت جنم لے ۔ وکلا برادری کا ایک بڑا حصہ (ن) لیگ سے اثرلیتا ہے اور (ن) لیگ کا شعار مصلحت پسندی بن چکا ہے۔
ساری تعریفیں البتہ (ن) لیگ اوروکلا برادری نہیں سمیٹ سکتی۔ بہت سی داد توسپریم کورٹ کو بھی جاتی ہے‘ کس خوبصورتی سے مسئلے کو ہینڈل کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس صاحب سے وزیراعظم ملنے آئے اور ملاقات کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا اُسے لٹریچر کا ایک شاہکار سمجھنا چاہئے۔ اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی حملہ برداشت نہیں کیاجائے گا۔اس قسم کے اور جملے بھی اعلامیہ میں شامل کیے گئے اور پھر آخر میں اس انقلابی نکتے پر اتفاق ہوا کہ اسلام آباد کے جج صاحبان کے اٹھائے گئے نکات کی چھان بین کیلئے ایک جوڈیشل کمیشن مقرر ہونا ضروری ہے۔ اس کمیشن کی سربراہی کسی نیک نام ریٹائرڈ جسٹس صاحب کو سونپی جائے گی۔ پاکستان کے تناظر میں ایسے ہومیوپیتھک اقدامات کو انقلابی ہی سمجھنا چاہئے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج صاحبان بھی سوچتے ہوں گے کہ اگر یہی کچھ ہونا تھا تو شاید بہتر تھا کہ کچھ نہ کیا جاتا۔ لیکن نہیں‘ کچھ ہونا ہوانا نہ بھی ہو پھر بھی ان ججوں کا لکھا خط یاد رہے گا۔ کوئی تو تھے جنہوں نے کچھ آواز اٹھائی۔ نہیں تو یہاںوہ کچھ ہورہا ہے جس کا چند سال پہلے تصور کرنا بھی مشکل تھا۔پاکستان کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ تو اپنی جگہ ہے لیکن جو آئین اور قانون کے ساتھ ہو رہا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ سچ پوچھئے آج کل کے حالات سامنے رکھیں تو نواب آف کالا باغ قانون کی حکمرانی کے داعی اوربنیادی انسانی حقوق کے علمبردار لگتے ہیں۔ نوا ب صاحب سخت مزاج کے آدمی تھے لیکن شاید وہ زمانے اور تھے ،اس لیے وہ کچھ نہ کرسکے جو آج کا معمول بنتا جارہا ہے۔
ان دوخواتین کو بھی دیکھئے، عالیہ حمزہ اورصنم جاوید، متعلقہ انسدادِ دہشت گردی عدالت سے نومئی سے جڑے تمام مقدمات میں ضمانت ہو گئی لیکن یہ نہ سمجھ سکیں کہ عشق کے امتحان کہاں اتنے جلد ختم ہوتے ہیں۔ میانوالی کے کسی تھانے کی ایف آئی آر میں پھر سے دھر لی گئی ہیں۔ یہ مقدمہ بھی نو مئی کے واقعات سے متعلقہ ہے، یعنی ان خواتین کی مہارت اوردیدہ دلیری ملاحظہ ہو کہ ایک ہی وقت میں اور ایک ہی دن لاہور اور میانوالی میں دہشت گردی کے واقعات کی مرتکب ہورہی تھیں۔ان خواتین کی جگہ میں ہوتا تو یقین مانیے پہلے دن ہی کہلوابھیجتا کہ حضور صاف کاغذ لائیے، جہاں دستخط کروانے ہیں کروالیجئے۔لاہور تو کیا، گوادر ، تربت اورشانگلہ کے واقعات کا بھی کہتے توبخوشی ذمہ داری قبول کرلیتے۔ عجیب ہڈی کی یہ اوران جیسی دیگر خواتین بنی ہوئی ہیں کہ سال بھر سے پابندِسلاسل ہیں لیکن عدالت کی ہرپیشی پر قیدیوں کی مخصوص گاڑی سے اُترتی ہیں توانگلیوں سے وکٹری کا نشان بنا ڈالتی ہیں۔ایسی جانفشانی سے ہمیں کوئی ہمدردی نہیں۔ ایک آدھ بار جیل جانا ہو تو اور بات ہے لیکن مقدمات سہے جانا اورہمت نہ ہارنی ہمارے بس کی بات نہیں۔ ہم اسے سمجھداری بھی نہ کہیں گے ۔ ہم قائل ہیں اُس سمجھداری کے جو بیشتر سیاستدان اور وکلا دکھا رہے ہیں۔ چوہدری پرویزالٰہی سے بھی کوئی پوچھے کہ حضور پچھلی عمر میں یہ آپ کیا کرنے بیٹھ گئے ہیں؟ آپ بھی سادہ کاغذ منگوا لیتے اور ٹی وی پر پانچ چھ جملے اگلوں کے حسبِ منشا کہہ دیتے اورجان خلاصی ہو جاتی۔ الیکشن کی ضمانت بھی مل جاتی اورعزیزم مونس الٰہی کے حصے میں بھی کچھ آ جاتا۔ لیکن آپ ہیں کہ ایک نئی کہانی لکھنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
ایک بات ماننی پڑے گی کہ مملکت میں تماشا لگا ہوا ہے۔سرکار کے پیسوں سے خریدے ہوئے ناقص آٹے کی بوریوں پر تصویرِ یاراں چسپاں ہے۔ پنجاب کی میڈم سی ایم سے کوئی پوچھے کہ حُبِ پدر اپنی جگہ لیکن میاں نوازشریف کا تعلق سرکاری آٹے سے کیا بنتا ہے؟کیا یہ ناقص آٹاجاتی عمرہ سے آیا ہے، کیا خزانۂ شریفاں نے یہ راشن پیکیج ترتیب دیا ہے؟ اب سنا ہے کہ ایک 'نوازشریف کسان کارڈ‘ شروع کیا جارہا ہے۔ حضور، کچھ عقل سے کام لیں، جگ ہنسائی کی باتیں کرنے پر کیوں مُصرہیں؟پرانہیں کون سمجھائے اور شاید یہ بھی ہے کہ یہ تمام لوگ سمجھنے سے مکمل طور پر قاصرہیں۔ سمجھ کچھ ہوتی توجنابِ اسحاق ڈار کے حوالے سے آئے روز تماشے کیے جاتے؟ عہدہ وزیرخارجہ کا دیا گیا ہے لیکن ایک روز پرائیویٹائزیشن کمیشن اُن کو سونپی جاتی ہے اور دوسرے دن مشترکہ مفادات کونسل کے ممبر بنائے جاتے ہیں۔ امورِ خارجہ فل ٹائم کام ہے لیکن میاں نوازشریف کو یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ ہمارے سمدھی وزیرخزانہ کیوں نہ بنائے جاسکے۔
اصل غم شاید یہ ہے کہ خود چوتھی بار وزیراعظم نہ بن سکے۔ انہیں کون بتائے کہ حضور شکر ادا کریں ، اندھیروں کی مدد نہ ہوتی تو وزارتِ عظمیٰ دور کی بات اپنی لاہور کی سیٹ سے بھی جاتے۔ اس بار کے دھاندلے سے ایک اچھی بات ہوئی ہے کہ اس کی موشگافیوں سے مملکت کا بچہ بچہ واقف ہو چکا ہے۔ یعنی یہ دھاندلا راز نہیں تھا، مولاجٹ سے بڑا فلمی شاہکارتھا۔ اندھیرے کے راجوں کے سامنے میاں صاحب کو جھکنا چاہیے کیونکہ اُن کی مہربانی نہ ہوتی توہ وہ خود اوراُن کی جماعت ہرچیز سے جاتے۔