برصغیر کی شاعری میں کیا گونج اور اُڑان ہے۔ جذبات کا اظہار کرتے ہوئے آسمانوں تک پہنچ جاتی ہے۔ برصغیر کی موسیقی میں بھی یہی خاصیت پائی جاتی ہے۔ چالیس اور پچاس کی دہائیوں کا فلمی سنگیت ہماری شاعری اور موسیقی کا امتزاج ہے اور اسی وجہ سے دلوں پر اتنا اثر رکھتا ہے۔ لیکن جو سیاسی خیالات مسلمانانِ ہند نے اپنائے‘ اُن میں کوئی شاعری یا موسیقی کا اثر نظر نہیں آتا۔ ان سیاسی خیالات میں وہ وسعت اور گونج ہی نہ تھی جس کی بنا پر اُسے کوئی بڑا لقب دیا جا سکے۔
مسلمانانِ ہند کے سیاسی خیالات کی بنیاد ایک خوف تھا‘ وہ یہ کہ انگریز چلے گئے اور ہندوستا ن کو اُن سے آزادی ملی تو برصغیر میں ہندو راج قائم ہو جائے گا کیونکہ اکثریت میں ہندو تھے۔ یہ خوف مسلمان ذہنوں پر بیٹھا ہوا تھا یا یوں کہنا چاہئے کہ مسلمان اشرافیہ کے ذہنوں پر سوار تھا۔ عام آدمی یا کسی چھوٹے کسان کو کیا سروکار کہ اُس کے اوپر حاکمیت کسی گورے کی ہے یا کالے کی۔ اُس کی محکوم حیثیت تو ویسے ہی رہنی تھی۔ یہ خوف مسلمان اشرافیہ کا تھا کہ آزادی ملی اورجمہوریت رائج ہوئی تو ہم نیچے آ جائیں گے۔ آٹھ سو سال حکومت مسلمانوں نے ہندوستان پر کی‘ وہ ٹھیک تھی لیکن جمہوریت کا تصور ذہنوں میں خوف پیدا کر رہا تھا۔ جس سلسلۂ خیالات کی بنیاد خوف ہو اُس میں وسعت یا گونج کیسے آ سکتی تھی؟
اور شاید یہی ہماری ٹریجیڈی رہی ہے کہ ہمارے سیاسی نظریات محدود دائروں میں گھومتے رہے ہیں۔ جن طبقات کو حکمرانی کا شرف نئی مملکت میں بخشا گیا اُن کے ذہنوں کی وسعت کی کوئی دلیل پاکستانی تاریخ مہیا نہیں کرتی۔ شروع دن ہی سے برطانیہ نواز سے امریکہ نواز ہو گئے۔ نئی مملکت وجود میں آئی تو نعرے مذہب کے لگنے لگے اور تڑپ یہ پیدا ہوئی کہ مملکت کا تحفظ اسی میں ہے کہ امریکہ کی گود میں بیٹھا جائے۔ پنجاب اور سندھ کے بڑے لینڈ لارڈ اور یو پی کی اشرافیہ کے جو اکابرین کراچی جیسے شہروں میں آباد ہوئے اُن کی سوچ ویسے ہی رجعت پسندانہ تھی۔ کہاں اردو شاعری اورکہاں ان کی یہ سوچ۔ میر اور غالب عشق کی بھی بات کر رہے ہوں تو قلب میں ایک آگ سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ حضرتِ جوش کو چھوڑیے‘ وہ تو برملا انقلاب کی بات کرتے تھے‘ لیکن شاعری جس کا بظاہر موضوع سیاست نہیں بھی ہوتا تھا‘ اُس کے پڑھنے سے ایک شعلہ سا لگ جاتا تھا۔ لیکن اکابرینِ ملت جنہوں نے تحریکِ پاکستان کی نظریاتی آبیاری کی اُن کے تمام خیالات ان تصورات کے گرد گھومتے تھے کہ جمہوری اصولوں کی بنیاد پر شمع آزادی روشن ہوئی تو مسلمان مارے جائیں گے۔ شاید عام مسلمان میں یہ ڈر نہ ہو لیکن جو وہ سنتا تھا اورجو اُسے منبرِ سیاست سے بتایا جاتا تھا اُس کی وجہ سے انجانا خوف اُس کے تصورات کا حصہ بنتا گیا۔
ڈبل ٹریجیڈی یہ ہوئی کہ انجانے وسوسوں کی بنیاد پر نئی مملکت معرضِ وجود میں تو آ گئی لیکن اُس کے حکمران طبقات کے خیالات میں کوئی بڑائی یا وسعت نہ آ سکی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آزاد حیثیت نصیب ہونے کے بعد قومی مطمح نظر ایک ہی ہوتا کہ نئی ریاست کو ترقی کی راہ پر کیسے گامزن کرنا ہے۔ یہ بھی سوچ ہونی چاہیے تھی کہ بغیر عدل‘ انصاف اور بھائی چارے کے ترقی کا ہر خواب لاحاصل رہے گا۔ ایک طبقاتی معاشرے میں یہ بھی لازم تھا کہ سماجی انصاف کی بات کی جائے‘ طبقات کی خلیج کو کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن یہاں ایسے تصور کا مکمل فقدان تھا اورعملاً یہاں یہ ہوا کہ چہرے تو بدلے لیکن جسے حقیقی آزادی کہا جا سکتا ہے‘ وہ یہاں کے محروم طبقات کو نصیب نہ ہوئی۔
جن مختلف بحرانوں کی زد میں پاکستان آج گھرا ہوا ہے یہ آج کی پیداوار نہیں‘ وہی نظریات جن کی مدہم روشنی میں نئی مملکت کا سفر شروع ہوا‘ آج اپنا رنگ دکھا رہے ہیں۔ سماجی انصاف کا مکمل فقدان ہو‘ معاشی پالیسیاں ایسی ہوں کہ امیروں نے مزید امیر ہونا ہے اور غریبوں نے مزید پِس جانا ہے تو ترقی اور خوشحالی نے کہاں سے آنا ہے؟ بلوچ آبادی کو پہلے روز سے شکایات تھیں‘ بنگالی جو اکثریت میں تھے اُن کے ساتھ حکمران طبقات کا رویہ نہایت عجیب تھا۔ اور جوں جوں وقت گزرتا گیا اُن کی دل آزاری بڑھتی گئی۔ لیکن یہاں حکمران طبقات کی فیورٹ اصطلاح نیشن بلڈنگ (Nation-building) تھی۔ ہر ناانصافی کا جواز اس اصطلاح میں ڈھونڈا جاتا۔ ان گونا گوں تضادات کے نتیجے میں جو صورتحال پیدا ہوئی اُس میں یہ قدرتی امر تھا کہ ملکی سیاست میں استحکام نہ آئے۔ پھر یہ بھی قدرتی امر تھا کہ سیاسی بے یقینی کے ہوتے ہوئے طالع آزما اپنی گرفت میں حکومتی معاملات لے لیں۔ چھوٹے لوگوں نے سیاست کرنا چاہی تو بگاڑ پیدا ہوا۔ بگاڑ کی صورت میں طالع آزما نمودار ہوئے۔ یہ بھی کوئی انوکھی بات نہ ہوئی کہ جو طالع آزما آیا وہ قومی معاملات کو مزید گمبھیر کرتے ہوئے قومی سٹیج سے رخصت ہوا۔ شاعری اور موسیقی کا اثر کیا ہونا تھا‘ مختلف اقسام کی لوٹ مار قومی شعار بنتا گیا۔ آج ہماری بگڑی ہوئی تقدیر ہے اور ہمارا مضبوط کشکول۔ شروع کے سالوں میں غریب غربا ملکوں کے اجتماعات میں پاکستان کی کچھ عزت ہوتی تھی۔ آج وہ صورتحال نہیں لیکن حیرانی اس بات کی ہے کہ جو بھی مسندِ اقتدار پر بیٹھتا ہے یا لایا جاتا ہے‘ اُس کے تیور ایسے ہوتے ہیں جیسے صلاح الدین ایوبی کا اصلی وارث یہی ہو۔
سوچنے کا مقام ہے‘ کہاں بلھے شاہ‘ وارث شاہ اور شاہ عبد اللطیف کے درد بھرے گیت اور لعل شہباز قلندر کا رقصِ بسمل‘ اور کہاں مملکت کی موجودہ حالت اور اس کے حکمرانوں کے چمکتے دانت۔ اقبال، جوش اور فیض کی شاعری سے آشنائی حاصل کی جائے تو دلوں میں تصور اٹھتا ہے کہ جہاں ایسے شاعر گزرے ہوں اُس سلطنت کی وسعت کیا ہو گی۔ شیکسپیئرکی شاعری سے انگلستان کا ایک تصور ذہنوں میں ابھرتا ہے۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں کی شاعری اور موسیقی بانجھ رہی۔ شاعری اور موسیقی کی عظمت سے مملکت کے معاملات میں عظمت کا دور سے بھی شائبہ نہ آ سکا۔
برصغیر کا جو ٹکڑا آج پاکستان کہلاتا ہے اس جغرافیائی خطے پر دو ہزار سال سے محض دو آزاد اور خودمختار مملکتیں رہی ہیں: ایک سکھوں کی سلطنت اور دوم پاکستان۔ نہیں تو یہ خطہ ہمیشہ کسی اور سلطنت کا محکوم رہا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد سکھ سلطنت کا زوال جلد ہو گیا لیکن زوال سے پہلے اُس سلطنت کا ایک عروج بھی تھا۔ پاکستان کا رونا یہ بنتا ہے کہ عروج سے پہلے ہی مسائل کی منزلیں طے کرنی پڑ رہی ہیں۔ یعنی ہمارا قومی سفر شروع ہی کہاں ہوا تھا کہ ہمارا قومی نشان کشکول بنتا گیا۔ کچھ تو مختلف اکائیوں کو ایک مضبوط مملکت کی شکل میں ڈھالا ہوتا۔ اس سارے خطے میں پاکستان کو سب سے اہم تجارتی گزرگاہ‘ جسے انگریزی میں cross-roads کہا جاتا ہے‘ ہونا چاہیے تھا۔ ایرانی تیل اور گیس پاکستان اور ہندوستان کو جا رہی ہوتی‘ ہندوستان کا تجارتی راستہ یہاں سے وسطی ایشیا تک ہوتا۔ افغانستان میں دہشت گردی کے بجائے تجارت فروغ پا رہی ہوتی۔ پاکستان ایک ابھرتا ہوا انڈسٹریل اور کمرشل سنٹر ہوتا۔ چین تک ہماری راہداری ہوتی اور اس سے فائدہ خطے کے تمام ممالک کو پہنچ رہا ہوتا۔ کس بڑے ملک یا سپر پاور کو ہمت ہوتی کہ برصغیر میں بغیر اجازت قدم رکھے؟ لیکن حکمتِ ریاست ملاحظہ ہو کہ ایک عظیم گزرگاہ ہونے کے بجائے پاکستان کو ایک تھرماس کا فلاسک بنا دیا گیا ہے۔ ہرطرف سے بند‘ سوائے وہ جو ایک سڑک کاشغر کو جاتی ہے۔
پوچھنا تو یہ چاہیے کہ اس مقام پر ہم کیسے پہنچے۔ تقدیر کے وہ کون سے ستارے تھے جنہوں نے اس ریاست کو یہاں تک پہنچایا؟ لیکن پہلا سوال پھر وہی ہے کہ آیا اندھیروں سے کبھی عظمت جنم لے سکتی ہے؟