پچھتاوا ہو رہا ہے لیکن اتنا جلدی؟ کل ہی اسی اخبار میں دو فرنٹ پیج رپورٹیں چھپیں۔ ایک ہمارے دوست سلمان غنی کی‘ دوسری حسن رضا کی‘ وہ بھی ہمارے دوست ہیں۔ موضوع میاں صاحب کا رونا دھونا تھا۔ حسن رضا کو میاں صاحب یہاں تک کہہ گئے کہ یہ حکومت بندھی ہوئی ہے اور ہم اس کی نوزل ہیں۔ کیا الفاظ کا چناؤ ہے‘ ساری کہانی اس ایک لفظ نوزل میں بیان ہو جاتی ہے۔ میاں جاوید لطیف نے کچھ دن پہلے یہی کچھ کہا تھا کہ ہمارے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میاں نواز شریف کو سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے۔ لیکن ان جیسے نون لیگی اپنے سے یہ نہیں پوچھ رہے کہ سائیڈ لائن تو میاں صاحب ہو گئے لیکن انہیں ایسے کس نے کیا؟ اصل قصہ تو یہ ہے کہ میاں صاحب کو کسی مقتدرہ نے سائیڈ لائن نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ ہاتھ پاکستان بالخصوص پنجاب کے عوام نے کر دیا۔ کرتے دھرتوں نے تو پھر بھی اتنی مہربانی کی کہ میاں صاحب کو اپنی سیٹ جتوا دی نہیں تو ڈاکٹر یاسمین راشد کے ہاتھوں پِٹ گئے تھے اور ظاہراً جو عزت بچی وہ اندھیروں کے سبب بچی۔
اب یہ اور بات ہے کہ میاں صاحب کسی اور چیز کے عادی تھے کہ ہر چیز اُن کی گود میں ڈال دی جائے۔ ایسی صورتحال اب رہی نہیں‘ نہ (ن) لیگ کے پاس وہ عوامی پذیرائی رہی ہے جو ایک زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ پی ٹی آئی کے ہاتھوں (ن) لیگ اب پنجاب میں پِٹ کے رہ گئی ہے اور جوکچھ (ن) لیگ کو آٹھ فروری کی کرشماتی رات کو ملا وہ اندھیروں کے کمال کی وجہ سے ملا‘ اس رات کے کرشمات نہ ہوتے تو ان کے ہاتھ کچھ بھی نہ آتا۔ جتنی مہربانی ہوئی ہے اس کا شکر ادا کریں اور اسی پر قناعت کریں۔ یہ تو ہونے سے رہا کہ بدنامی کوئی اور اٹھائے اور آپ کی گود میں سب کچھ ڈال دیا جائے۔ لہٰذا میاں صاحب کا رونا دھونا بجا نہیں۔ ان کے دن گئے‘ سیاسی طور پر وہ قصۂ پارینہ ہو گئے ہیں۔ جتنی آکسیجن ان میں بھری جائے نوے کی دہائی کے نواز شریف نہیں بن سکتے۔ ہرایک کا وقت ہوتا ہے اور ان کا وقت گیا۔ اسی پر خوش رہیں کہ ان کی ہونہار بیٹی کو کچھ نہ کچھ مل گیا ہے ورنہ حق اور سچ پر بات ہوتی تو وہ شاید اسمبلی نہ پہنچ پاتیں۔ اس بات کا کسی کو شک ہے توکسی ایک حلقے میں صنم جاوید سے ان کا مقابلہ کرا لیا جائے۔ نون لیگیوں کی ایک فیورٹ اصطلاح ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ صنم جاوید کے ساتھ مقابلہ پڑے تو واقعی دودھ اور پانی الگ ہو جائے۔
میاں صاحب کو لندن سے یہاں لانے کا سبب یہ تھا کہ انہیں پی ٹی آئی کے خلاف استعمال کرنا مقصود تھا۔ سب کی بھول تھی کہ مجمعے لگ جائیں گے اور (ن) لیگ کے حق میں ایک عوامی اُبھار اٹھے گا۔ ایسا نہیں ہوا‘ (ن) لیگ تو صحیح طور پر الیکشن مہم نہیں چلا سکی۔ انگریزی کی اصطلاح ہے کہ آپ گول پوسٹوں کو اپنا فائدہ دیکھ کر شفٹ کرتے رہیں۔ یعنی گول تو آپ سے صحیح طور پر ہو نہیں رہا‘ گول پوسٹوں ہی کو وہاں کر دیں جہاں گیند جا رہا ہو۔ الیکشن کمیشن نے یہی کچھ کیا‘ گول پوسٹ اٹھا کر ادھر اُدھر کرتا رہا۔ بات پھر بھی نہ بنی اوروہ کچھ کرنا پڑا جو اُس حیران کن رات کو کرشماتی طور پر رونما ہوا۔ کوسنا کسی کا بنتا ہے تو عوام کو کوسیں جو ایک اور طرف دیکھنے لگ پڑے ہیں۔ جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ پنجاب میں (ن) لیگ کی حمایت نہیں رہی۔ اب بھی ہر حلقے میں اس کی ایک حد تک حمایت موجود ہے لیکن وہ دن گئے جب بھاری مینڈیٹ کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ وہ حالات گئے‘ وہ دن گئے۔
سب کیلئے مسئلہ بھی یہی بنا ہوا ہے کہ ایک حکمرانی کا بندوبست کھڑا تو کر دیا گیا ہے لیکن اس کے پیچھے عوامی حمایت نہیں۔ یہ سب مصنوعی تعمیر ہے‘ پیچھے سے جن کی ٹیک لگی ہوئی ہے ہٹا لی جائے تو ایک دن یہ تعمیر قائم نہ رہے۔ شہباز شریف یہ حقیقت جانتے ہیں‘ ان کی کابینہ جانتی ہے‘ اسی لیے اب تک چہرے اُترے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں میں وہ اعتماد آ ہی نہیں رہا جو کہ صحیح عوامی حمایت کی وجہ سے آتا ہے۔ انہیں پتا ہے کہ ہم کسی اور کے مرہونِ منت یہاں قائم ہیں۔ اسی لیے تابعداری شرطِ استواری ہے اور یہ سب لوگ تابعداری کے تمام تقاضوں پر ہمہ وقت پورے اُتر رہے ہیں۔ رانا ثنا اللہ طنز کا کوئی تیر کبھی اُڑا دیتے ہیں‘ جاوید لطیف کوئی جملہ کس دیتے ہیں لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو موجودہ تعمیر کے احاطے سے باہر کھڑے ہیں۔ ان کا ہر گز یہ رونا نہیں کہ آٹھ فروری کی کرشماتی رات کو دھاندلی کیوں ہوئی‘ ان کا رونا یہ ہے کہ کرشموں کے فیض سے انہیں کیوں باہر رکھا گیا۔ یہ بھی فارم 47کے جیتے ہوئے ہوتے تو وہ ڈھول نہ پیٹتے جو اَب پیٹ رہے ہیں۔
سمجھ جو نہیں آ رہی کسی کو یہ ہے کہ کمرے میں جو ہاتھی کھڑا ہے اس کا کیا کیا جائے۔ کرتے دھرتے بھی جان گئے کہ ہاتھی کھڑا ہے۔ اُس کرشماتی رات نے کچھ اور ثابت کیا نہ کیا لیکن ہاتھی کی حقیقت بیان کردی۔ اب ہاتھی ہے اور ان کی بے بسی کا عالم۔ طرح طرح کی افواہیں سننے میں آتی ہیں کہ قیدی نمبر 804جلد رہا ہو جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ کوئی پکی اطلاع ہمارے پاس نہیں۔ جہاں سے ایسی خبریں اُڑتی ہیں ہم اُن حلقوں سے دور اپنے گاؤں یا چکوال میں بیٹھے ہیں۔ خبر رساں ایجنسی ہمارے سامنے سوشل میڈیا ہی ہے اور اس میں مختلف قسم کی پتنگیں ہمیشہ اُڑتی رہتی ہیں۔ ہم تو صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ جنہوں نے یہ سارا بندوبست ترتیب دیا انہوں نے اس لیے ایسا نہیں کیا کہ اسے جلد تحلیل کر دیں۔ ان کے ذہنوں میں پتا نہیں کیا کچھ چل رہا ہو گا‘ مستقبل کے کون سے خواب پال رکھے ہوں گے۔ میاں نواز شریف کو تو اَب سمجھ آ رہی ہے کہ ہم تو محض نوزل ہیں‘ اور نوزل وہ ہوتی ہے جو نالی یا پائپ کے آگے لگی ہوتی ہے۔ یہ انہیں پہلے سمجھ آنی چاہیے تھی کہ استعمال ہونے والے نوزل ہی رہتے ہیں۔ رانا ثنااللہ حقائق کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ اسی لیے انہوں نے کہا کہ محسن نقوی نے وزارتِ داخلہ پر قناعت کی ہے‘ ورنہ چاہتے تو وزیراعظم بن جاتے۔
پنجاب کے دیہات میں ایک اصطلاح عام ہے کہ فلاں کا کِلہ مضبوط ہے یا کمزور یعنی کِلے کے مطابق انسان پھرتیاں دکھاتا ہے۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے‘ البتہ اتنا محسوس ہو رہا ہے کہ ٹھیکیداروں کی اُڑان میں فرق ضرور پڑا ہے۔ یہ نہیں کہ دلوں میں نرمی پیدا ہو گئی ہے‘ سختی کرنے کی صلاحیت کم ہو گئی ہے۔ پکڑ دھکڑ کے سلسلے میں فرق آچکا ہے۔ اور یہ ایک قدرتی امر ہے‘ وقت گزرنے کے ساتھ پہلے کی سی سختی رہتی نہیں۔ مارشل لاء لگانے والے ایوب خان اور تھے اور زوال کے ایوب خان مختلف شخصیت ہو چکے تھے۔ شروع کے ضیاالحق اتنے سخت گیر دکھائی دیتے تھے لیکن 1987-88ء کے ضیا الحق کو حالات سے سمجھوتا کرنا پڑا تھا۔ یہ بھی ہم نے دیکھا کہ شروع کے پرویز مشرف اور تھے‘ وکلا تحریک کے بعد وہ کچھ اور نظر آنے لگے تھے۔ آٹھ فروری کے الیکشن آج کے دیوتاؤں کی مجبوری تھی‘ جیسے بھی کرائے گئے انہیں کرانے تھے‘ اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ کرشمات کے باوجود الیکشنوں کا محض انعقاد اگلوں کیلئے کمزوری کا ذریعہ بنا ہے۔ کیونکہ ووٹ پڑے اور ووٹوں کے پڑنے سے ہاتھی کی شکل نمایاں ہو گئی اور کرشمات کرنے سے رسوائی اپنے پلے باندھنی پڑی۔ تو جوکچھ ظہور پذیر ہوا اس کا مثبت پہلو دیکھنا چاہیے۔ ایسے تضادات اور ان کے حل سے تاریخ کا پہیہ آگے چلتا ہے۔