سائفر کیس ہی ایک بڑا بم ہمارے کرم فرماؤں کے ہاتھوں میں تھا اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے جو اس کا حشرکیا ہے‘ دن میں تارے نظر آ گئے ہوں گے۔ قیدی نمبر فلاں اور شاہ محمود قریشی کو دس دس سال قید ہوئی تھی اس مقدمے میں۔ جان تو اس کیس میں کوئی نہیں تھی‘ نہ کوئی بنیاد‘ لیکن بھلے وقتوں میں مرضی کے فیصلے ہو جایا کرتے تھے اور بھونڈے مقدموں سے بھی پھل اُتار لیا جاتا تھا۔ رُت بدل گئی ہے‘ خوئے بغاوت نے وہاں جنم لیا ہے جہاں سوچا نہ جا سکتا تھا۔ ان عوامل کے تحت رسائی جج صاحبان تک مشکل ہو گئی ہے اور ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ اس نئی صورتحال کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ فیصلہ سن کے پی ٹی آئی والوں کے جذبات نے آسمانوں کو چھوا ہو گا لیکن ہماری حالت پر بھی کوئی غور کرے۔ اب لے دے کے عدت کیس رہ گیا ہے جو اتنا مضحکہ خیز ہے کہ اس پر بھاری امیدیں باندھنا بیوقوفی ہو گی۔ تو پھر ہمارا بنے گا کیا؟
مصیبتوں میں گھرے وزیراعظم شہباز شریف نے کیا دانشورانہ بات کی تھی کہ عدلیہ میں چند کالی بھیڑیں ہیں جو ہر قیمت پر قیدی نمبر فلاں کو ریلیف مہیا کرنا چاہتی ہیں۔ اس تبصرے پر طوفان اُٹھنا شروع ہوا تو اٹارنی جنرل نے جھٹ کہا کہ وزیراعظم تو ماضی کی بات کر رہے تھے‘ حالانکہ وزیراعظم نے یہ نہیں کہا تھا کہ کالی بھیڑیں تھیں‘ انہوں نے کہا تھا کالی بھیڑیں ہیں۔ لیکن ہم کون ہیں جو اُن کی تردید کریں‘ درست وہی ہو گا جو وہ کہہ رہے ہیں۔ بہرحال صورتحال کچھ اچھی نہیں‘ حالات پہلے بھی قابو میں نہ تھے لیکن اب تو ہاتھ سے بالکل نکلے جا رہے ہیں۔ رجیم چینج کو دو سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے لیکن سرکش جماعت قابو میں نہ آئی اور کمبخت عوام ہیں کہ بپھرے ہی جا رہے ہیں۔ ہمارا کوئی گھڑا ہوا افسانہ سننے کے لیے تیار نہیں۔ الیکشنوں سے پہلے کون سے پاپڑ نہ بیلے گئے؟ کون سی ہنرمندیاں نہ دکھائی گئی تھیں؟ لیکن کچھ نہ کام آیا اور عوام نے وہ کیا جو ازلی دشمن نہیں کرتے۔ اور اب اسلام آباد کے جج صاحبان ہیں جو کسی کہانی کو دوام بخشنے کے لیے تیار نہیں۔
اسی شاعر احمد فرہاد کو دیکھ لیں‘ یہ کون سا احمد فراز کا رشتہ دار تھا کہ جسٹس محسن اختر کیانی نے اس کی گمشدگی کو اتنی اہمیت دی؟ ایسے اٹھائے جاتے تھے تو کوئی پوچھتا نہیں تھا‘ کسی کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ ایسا موسم بدل رہا ہے کہ بات بات پر رسوائی کا سامان پیدا ہو رہا ہے۔ ہم پر کوئی انگلی نہیں اُٹھا سکتا تھا اور اب ہمارے ساتھ وہ ہو رہا ہے جس کا کبھی تصور نہ تھا۔ مجبور ہو کر اس احمد فرہاد کو رونما کرانا پڑا۔ کیا ہوا کہ مظفرآباد کے کسی تھانے میں اس پر مقدمہ قائم کرنا پڑا؟ یہ کون سی ایسی انوکھی بات ہے‘ یہاں تو ایسا چلتا ہے۔ لیکن جسٹس کیانی کے تیور دیکھیے کہ پھر بھی یہ مسئلہ فارغ کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کہتے ہیں کہ پتا تو چلے کہ گمشدگی کے پیچھے کون سے ہاتھ تھے۔ یہ دن بھی آنا تھا۔
1957ء کی پرانی فلم ''پیاسا‘‘ میں رفیع صاحب کا مشہور گانا ہے ''سر جو تیرا چکرائے یا دل ڈوبا جائے‘ آ جا پیارے پاس ہمارے کاہے گھبرائے‘‘۔ مشہورِ زمانہ کامیڈین جانی واکر پر یہ گانا پکچرائز ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ طبیعت خراب ہو تو مجھ سے مالش کرائیں۔ سر تو واقعی چکرا رہے ہیں اور حالات دیکھتے ہوئے دل بھی ڈوبا جا رہا ہے لیکن ہماری مالش کون کرے گا؟ اب تو لگتا ہے کہ حالات ہماری ٹکور کریں گے کیونکہ جیسا عرض کیا کچھ بھی کام نہ آیا‘ حالات قابو سے باہر ہوئے جا رہے ہیں۔ جہاں دیکھیں افراتفری سر اُٹھا رہی ہے۔ دونوں مغربی صوبوں میں آئے روز حملے اور بم دھماکے‘ معیشت کا بُرا حال‘ قومی کشکول خالی‘ جولائی تک قرضوں اور سود کی مد میں دس بلین ڈالر کی ادائیگیاں سر پر پڑی ہیں۔یہ مصیبتیں کافی نہ تھیں کہ اوپر سے سائفرکیس کا فیصلہ آ گیا اور جیسے ہوائیں چل رہی ہیں‘ دل ڈر سے مارا جا رہا ہے کہ باقی مقدموں میں بھی ایسے ہی فیصلے آئیں گے۔ کہاں جائیں گے‘ کیا کریں گے؟
مصیبتیں بھی ایسی کہ آئی جا رہی ہیں۔ اسلام آباد کے الیکشن ٹربیونل کو دیکھئے‘ جسٹس جہانگیری صاحب نے اسلام آباد کے تینوں حلقوں کا مکمل ریکارڈ منگوا لیا ہے۔ یہ تو اچھی بات ہے کہ الیکشن کمیشن اب تک حب الوطنی کی مسلمہ راہوں پر چل رہا ہے اور اُس کے سامنے یہ درخواست آئی ہے کہ اسلام آباد کے تینوں حلقوں کے الیکشن کیس جہانگیری صاحب سے تبدیل ہو کر کسی اور ٹربیونل میں سنے جائیں۔ یہ تو شکر ہے کہ وہ آرڈیننس نافذ ہو گیا جس کے تحت الیکشن کمیشن انتخابی عذرداریاں اِدھراُدھر کر سکتا ہے۔ نہیں تو مارے جاتے۔ اور اسلام آباد والی تینوں عذرداریاں جسٹس جہانگیری کے سامنے ہی سنی جاتیں تو چھپنے کی جگہ نہ ملتی۔ کہنے کا مطلب یہ کہ دو سال ہوئے اور تمام ہنرمندیوں کے باوجود حسبِ منشا نتائج حاصل نہ ہوئے۔
اسی کو دیکھ لیجئے کہ مخصوص جماعت کے لیڈر اور دیگر ورکر کتنی دیر سے اندر ہیں لیکن پتا نہیں کس مٹی کے بنے ہیں ہر چیز برداشت کیے جا رہے ہیں۔ ان کے لیڈر کو دیکھئے‘ اس گرمی میں بھی اتنی سی آواز بھی نہیں آئی کہ گرمی بہت ہے یا کوئی تکلیف ہے جس کے لیے ہسپتال جانا ضروری ہے۔ نواز شریف کے رنگین اوقات یاد آتے ہیں‘ بیماریوں کے کیا کیا راگ نہ الاپے جاتے تھے‘ ڈاکٹروں کی رپورٹیں آتی تھیں کہ پلیٹ لیٹس گر رہے ہیں‘ صحت خطرے میں ہے۔ اتنا شور اُٹھا کہ میاں صاحب کے باہر جانے کا اہتمام کرنا پڑا۔ یہ اور بات ہے کہ ہوائی جہاز کی سیڑھیاں چڑھتے ہی طبیعت بحال ہونے لگی۔ لیکن یہ جو ہیں‘ اُف نہیں کر رہے۔ پریشانی سے طبیعت ہماری خراب ہو گئی ہے‘ سر ہمارے چکرا رہے ہیں۔ انہیں جیسے کسی چیز کی پروا ہی نہیں۔ اور جیسے کہا‘ عوام ہیں کہ انہی کے پیچھے کھڑے ہیں۔ کسی بنائی گئی کہانی پر اس عوام نے کان نہیں دھرے۔ وہ کیا لفظ ہے جو آج کے پاکستان میں بڑا مقبول ہوگیا ہے؟ بیانیہ۔ بیانیہ چل رہا ہے یا بِک رہا ہے تو انہی کم بختوں کا۔ سوشل میڈیا پر ہمارا ایسا تمسخر اُڑایا جاتا ہے کہ الامان الحفیظ۔ دھمکیوں کا کوئی اثر نہیں‘ زور زبردستی سب کر چکے‘ اُس کا بھی کوئی اثر نہیں رہا۔
مسئلہ یہ ہے کہ نوشتۂ دیوار پڑھا نہیں جا رہا۔ یہ جو لا کر اقتدار میں بٹھائے گئے ہیں جن کی خاطر الیکشن کے تمام کرتب کیے گئے‘ یہ کسی کھاتے میں نہیں۔ یہ وہی کرتے رہے ہیں جو ڈگڈگی کی تھاپ انہیں کہتی تھی۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ حالات تیزی سے آگے جا رہے ہیں۔ جس قیادت کو اندر کیا گیا‘ گھٹنے ٹیک دیتی تو اور بات تھی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام ان کے ساتھ ہیں۔ کمزور لیڈروں کے ساتھ عوام کب کھڑے ہوتے ہیں؟ (ن) لیگ سمجھ نہیں رہی کہ اس کے ساتھ ہاتھ ہونے میں اب کچھ رہا نہیں۔ ایک ویسے حالات ان کے قابو میں نہیں اور اب تو ان کے اپنے لوگ مایوس ہیں کیونکہ اِنہیں پتا ہے کہ اصل حالات کیا ہیں۔
نعیم بخاری صاحب کیا کمال کی بات کرتے ہیں۔ ایک (ن) لیگی وزیر صاحب کے بارے میں حال ہی میں کہا کہ پاکستان میں میرٹ کی بنیاد پر کچھ ہوتا تو یہ صاحب لاہور ریلوے سٹیشن کے سامنے سانڈے کا تیل بیچتے ہوتے۔ رات گئے فون گھما رہا تھا تو یہ جملہ سامنے آیا۔ ہنسی چھوٹ گئی کیونکہ تبصرہ بالکل فِٹ بیٹھتا ہے۔ حضور‘ موجودہ ناٹک زیادہ دیر چل نہیں سکتا کیونکہ اس کے کوئی پیر نہیں۔ مسائل میں دھنسا پاکستان اور اوپر سے ایسے حاکم اور ایسی حکمرانی۔ دو سال بھی جو اس کھیل کو چلایا گیا وہ بھی کچھ زیادہ تھا۔ اب ٹائم اوور ہوتا جا رہا ہے۔ قوم کی بہتری اِسی میں ہے کہ اس بات کو سمجھ لیا جائے۔