ہندوستان کی جنتا نے ایک طاقتور حکمران کے اقتدارکے چولیں ہلا کے رکھ دیں۔ لوک سبھا کے چناؤ میں نریندرمودی کا دعویٰ تھا کہ بی جے پی چارسوسیٹیں جیتے گی۔لیکن نتائج آنے لگے توظاہر ہوا کے اُن کے پلڑے میں دوسوچالیس سیٹیں ہی آئی ہیں۔ وزیراعظم پھر بھی وہی ہوں گے لیکن دوسری جماعتوں کا سہارا لینا پڑے گا‘ یعنی چناؤ کے بعد اُن کی وہ بات نہیں جو پہلے تھی۔ لیکن وہاں یہ سب کچھ ہوا اورکوئی فارم 45یا 47 کا جھگڑا نہ ہوا‘ دھاندلی کی آوازیں نہ اُٹھیں۔ کیا بی جے پی اورکیا دوسری جماعتیں‘ سب نے نتائج تسلیم کیے۔ لیکن سب سے بڑی بات کہ یہ سب کچھ آئین اور قانون کے دائرے میں ہوا۔چناؤ میں مکمل طور پر سول ادارے کارفرما رہے۔ الیکشن کمیشن نے چناؤ کے تمام مراحل خوش اسلوبی سے طے کیے اور کسی غیرسول ادارے کی کارکردگی کی بات نہ ہوئی۔47ء میں وہ آزاد ہوئے ہم ایک نئے ملک کی شکل میں نمودار ہوئے‘ لیکن اُن کے طور طریقے کیا اور ہماری غضبناک تاریخ کیا رہی ہے۔ایک ساتھ ہمار ا سفر شروع ہوا لیکن آج وہ کہاں اور ہم کہاں‘اوریہ موازنہ کرتے ہوئے دل خون کے آنسوروتا ہے۔
مٹی ایک ہے ‘ آب و ہوا ایک ‘ پہاڑوں کا سلسلہ وہی ‘ ساحلوں سے ایک ہی قسم کے پانی ٹکراتے ہیں۔ پھر اتنا فرق کیوں؟ منزلیں اتنی جدا کیوں؟ فرق اتنا سا ہی ہے کہ تمام کوتاہیوں اور کمزوریوں کے باوجود ہندوستان کا کاروبارِ مملکت آئین اور قانون کے تابع ہے اور ہم نے مسلسل آئینی تقاضوں کا جو حشرکیا وہ روداد کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔کرپشن اور بدعنوانی وہاں بھی ہے لیکن ریاستی ادارے وہاں چلتے ہیں‘ قانون کی حاکمیت قائم ہے۔ سنجے دت جیسا آدمی قانون سے روگردانی کرتا ہے تو اُس کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ دہلی میں جاکے دیکھ لیں‘ ٹریفک پولیس والا روکتا ہے توروکے جانے والا توں تکرار میں نہیں پڑ جاتا۔وہاں کے تھانوں میں بھی بہت کچھ ہوتا ہے لیکن یہاں جوقانون کا مکمل بریک ڈاؤن ہوچکاہے ایسی صورتحال وہاں نہیں۔وہاں کے پنجاب کے کسانوں نے مودی سرکارکی زرعی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کیا اوریہ احتجاج سال بھرجاری رہا ورآخرکار کامیاب ٹھہرا۔ حالیہ گندم سکینڈل کے بعد یہاں بھی کسانوں نے احتجاج کی کوشش کی لیکن ہم نے دیکھا کہ پنجاب پولیس کے ہاتھوں اُن کا کیا حشرہوا۔ مقبوضہ کشمیر میں کم ظلم وستم نہیں روا رکھا گیا لیکن بالعموم پورے ہندوستان کو دیکھیں توآئین کی حاکمیت قائم رہی ہے۔شری متی اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کی تھی لیکن اُنہیں الیکشن کرانے پڑے اوراُن انتخابات میں ہندوستانی ووٹروں نے مسز گاندھی کوخوب سبق سکھا یا۔وہاں جیسی بھی جمہوریت ہے قائم ہے‘ یہاں جو کچھ قائم ہے اُس کا صحیح نام بھی ہم اب تک نہیں چُن سکے۔ایوب خان کے زمانے میں یہاں کنٹرولڈ جمہوریت تھی ‘ ضیاالحق کے دور میں اسلام کے نام پر بہت کچھ ہوا‘ مشرف صاحب ایک عجیب قسم کی ماڈریشن کی باتیں کرتے رہے اورآج کل جو نظام رائج ہے وسیع ترحلقو ں میں شاید اُسے ہائبرڈ جمہوریت کہتے ہیں۔ صحیح طریقے سے ہائبرڈ اجناس تو ہم پیدا نہ کرسکے لیکن ہائبرڈ جمہوریت پیدا کرلی۔
ہر بار ارادہ بندھتا ہے کہ رونے دھونے کی باتیں نہیں کرنی لیکن جب پردۂ دماغ پر ملکی حالات آتے ہیں تو رونے دھونے کے سوا کوئی بات نہیں رہتی۔ یہ کوئی مبالغہ ہے؟ ہرطرف آگ نہیں لگی تو شعلے بھڑک رہے ہیں۔چمن میں کچھ ہوتا ہے تواحتجاج کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ گلگت بلتستان میں شورش ہم دیکھ چکے ہیں۔آزاد کشمیر میں جو حالیہ فساد ہوئے وہ ہمارے سامنے ہیں۔ دو صوبوں میں دہشت گردی جاری ہے اورسب سے خطرناک بات یہ ہے کہ عوام الناس کا ہرچیز سے اعتباراُٹھتا جا رہا ہے۔ عزت و تکریم کسی چیز کی رہی نہیں ۔جیسے آج کل کی گفتگو چل رہی ہے ہم جیسوں نے پہلے کبھی نہ سنی۔برُے حالات میں بھی وہ تنقیدکے نشتر نہیں چلا کرتے تھے جو آج معمول بن گئے ہیں۔ برُے وقتوں میں بھی ہم پاکستانی کہتے تھے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ آج کل شاذ و نادر ہی کوئی ایسا کہتا ہے۔ انکار کرنے والے توہرچیز سے انکار کریں گے لیکن اس حقیقت کو جھٹلا نامشکل ہے کہ پوری قوم ایک عجیب ڈپریشن میں مبتلا لگتی ہے۔
یہ گُل جو ہماری کرکٹ ٹیم نے امریکہ میں کھلائے ہیں یہ ایسے ہی نہیں ہوا۔ ٹیم ہاری بعد میں ‘ ذہنی طور پر مفلوج پہلے ہو چکی تھی۔وہ لڑنے والی بات ہی اُس میں نہیں رہی تھی۔ جو بتنگڑ ہم نے باقی چیزوں کا بنا ڈالا ہے کھیل کا میدان اُس سے مستثنیٰ نہیں۔کرکٹ کے معاملات ہم کیسے چلاتے ہیں؟ میرٹ نام کی چیز یہاں ہے کوئی نہیں‘ بس آپ کی رشتہ داریاں اور تعلقات ٹھیک ہونے چاہئیں اورپھر آپ کیلئے تمام دروازے کھل جاتے ہیں۔وہ زمانہ بھی تھا کہ پاکستان کرکٹ ٹیم نے ورلڈ کپ جیتا ۔ اُس ٹیم کے کپتان کا نام نہیں لیتے کیونکہ یہاں ہرچیز حساس ہے ‘لیکن کپتان کے علاوہ اُس ٹیم کا موازنہ آج کے کھلاڑیوں سے کریں۔ کوئی موازنہ بنتا ہی نہیں کیونکہ اُس دور کے کھلاڑیوں کا لیول ہی کچھ اور تھا۔ آج ہماری ٹیم سیاست اور ڈپریشن دونوں کی ماری ہے۔ کھلاڑیوں کا اتنا قصور نہیں کیونکہ اُنہیں ماحول ہی ایسا مہیا کیا گیا ہے۔
بات صرف کرکٹ یا آئین یا قیدی نمبر 804کی نہیں۔انحطاط ہر شعبے اور ہر اطراف نظر آتا ہے اور یہی ہماری قومی ڈپریشن کی بنیادی وجہ ہے۔محکمہ پولیس اور محکمہ مال کی مثال لے لیجئے۔ ہماری قومی زندگی کے یہ دو اہم شعبے ہیں اور یہ مکمل ٹھگی پر چلتے ہیں۔محکمہ مال میں چھوٹے سے بڑا کام کروانا ہوحقِ خدمت ادا کرنا پڑتا ہے‘ اُس کے بغیر کام ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ ہم سب جانتے ہیں۔ محکمہ پولیس کی حالت بھی یہی ہے کہ پرچہ کٹوانا ہو یا تفتیش کروانی ہو تو پیسے جیب سے نکالنے پڑتے ہیں۔ چین‘ یورپ یا امریکہ میں یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ آپ تھانے میں شکایت کرانے جائیں اورمیز کی دوسری طرف بیٹھا افسر آپ سے کہے کہ گاڑی لے آؤ؟ اورپھر یہاں کا جو مخصوص ماحول ہے کہ تقرریاں سفارش پر ہوتی ہیں اورآدھے سے زیادہ وقت پولیس کا سیاسی یا فروعی کاموں میں لگتا ہے۔مقصد محکمہ پولیس پر مضمون لکھنا نہیں صرف یہ بتانے کی کوشش ہے کہ ایسی صورتحال ہو تو سمجھیے کہ معاشرہ آپ کا تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ جہاں امن و امان خریدنا پڑے‘ عوام کیلئے طبی سہولتیں موجود نہ ہوں‘ تعلیم مہنگی ہو چکی ہو ‘ بے روزگاری اور مہنگائی سے لوگ مرے جا رہے ہوں‘ ایسے معاشرے کو کوئی صحت مند کہہ سکتا ہے؟
غربت ہندوستان میں بھی ہے‘ دولت کی اونچ نیچ وہاں شاید ہم سے زیادہ ہو لیکن معاشی ترقی بھی تو وہاں ہوئی ہے۔ ہندوستان دنیا کی پانچویں بڑی اکانومی بن چکا ہے۔ برطانیہ سے اُ س کی معیشت اب بڑی ہوچکی ہے۔ تعلیمی ادارے اُن کے عالمی لیول کے ہیں۔ امریکہ میں کتنی ہی بڑی کمپنیاں ہیں جن کے اعلیٰ عہدوں پر ہندوستانی بیٹھے ہوئے ہیں۔ہم کہاں بھٹک گئے؟ہم سے اپنے معاملات کیوں نہ ٹھیک چلائے گئے؟ کیا کمی تھی ‘ کیا غفلت ہم سے ہوئی؟
آئین اور قانون کی بات تو اوپر ہوچکی۔ ایک اور بات دلوں پر لکھ لینی چاہیے۔ ہندوستانی آج بڑی بڑی بین الاقوامی کمپنیوں کے مالک ہیں۔ہندوستانی باہر جائیدادیں رکھتے ہیں لیکن شاید ہی کوئی بڑا ہندوستانی لیڈر ہو جس کی باہر جائیداد یا جائیدادیں ہوں۔ نریندر مودی کے کوئی فلیٹ لندن میں تھے؟ پریانکا گاندھی یا راہول گاندھی کے امریکہ میں کوئی گھر ہیں؟لیکن ہماری داستان ہی کچھ اور ہے۔ یہاں تو وہ لیڈر سمجھا ہی نہیں جاتا جس کا بہت کچھ باہر نہ ہو۔آج جو بڑے مگرمچھ بنے ہوئے ہیں اُن کی شروعات کیا تھیں؟ لیکن اقتدار میں آئے تواِن کی جائیدادوں کی سلطنتیں قائم ہوتی گئیں۔