مسلمانانِ ہند کو درس دیا گیا کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف قومیں ہیں‘ ان کی ہر چیز مختلف ہے‘ ان کا اُٹھنا بیٹھنا اور ہے‘ حتیٰ کہ لباس اور کھانے پینے میں ان کے انداز مختلف ہیں‘ لہٰذا ان کا ملاپ نہ صرف نہیں ہو سکتا بلکہ ناممکن ہے۔ اس موضوع پر قائداعظم کا ایک مشہور بیان بھی ہے جس میں انہی پہلوؤں پر زور دیا گیا ہے۔ یہ درس ذہنوں میں سما گیا اور دو قومی نظریہ کے نام پر ہندوستان کی تقسیم کا یہی جواز بنا۔ لیکن پیچھے مڑ کر دیکھیں تو حیرانی اس بات پر ہوتی ہے کہ ہندوؤں کو تو مسلمانانِ ہند اشتراک کے کسی عمل کیلئے قبول نہ کر سکے لیکن جہاں تک انگریزوں کا تعلق ہے تو نہ صرف یہ کہ مسلمانانِ ہند نے اُن کی حکمرانی کو قبول کیا بلکہ اطاعت اور فرمانبرداری کا ایسا نمونہ پیش کیا جس کی نظیر تاریخِ عالم میں کم ہی ملتی ہے۔
انگریزوں نے جب بنگال میں قدم جمائے تو بنگالی مسلمان اور بنگالی ہندو‘ دونوں ایسٹ انڈیا کمپنی کی رجمنٹوں میں بھرتی ہوئے۔ یہی پوربی سپاہی تھے جنہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف 1857ء میں بغاوت کی۔ اور انہی پوربیوں نے دہلی آ کر مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو مجبور کیا کہ اُس بغاوت کے سرخیل بنیں۔ بہادر شاہ ظفر اور اُن کے خاندان نے جو عَلم بغاوت تھاما‘ مجبور ہو کر ایسا کیا۔ لیکن جب انگریزوں نے بغاوت کو کچلا تو اُن کی سپاہ کہاں سے آئی؟ پنجاب اور سرحد سے۔ یہ فوج جو انگریزوں کے ریلیف کیلئے دہلی پہنچی‘ یہ مسلمانوں اور سکھوں پر مشتمل تھی۔ بغاوت کے بعد انگریزوں کا اعتماد پوربیوں پر نہ رہا اور فوج کی بھرتی کیلئے انحصار پنجاب اور صوبہ سرحد پر ہونے لگا۔ سکھ دو جنگیں انگریزوں کے خلاف لڑ چکے تھے لیکن جب شکست ہوئی اور رنجیت سنگھ کی ریاست کا ادغام برٹش ایمپائر میں ہو گیا تو سب کچھ بھول کر سکھوں کا شمار برطانیہ راج کے وفادار ترین محکوموں میں ہونے لگا۔ مسلمانوں کا بھی یہی حال تھا‘ اُنہوں نے بھی وفاداری میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
جب بغاوت کے بعد انگریزوں کا زیادہ نزلہ مسلمانوں پر گرا اور دہلی کی پرانی شان وشوکت انگریز غضب کے آگے تباہ ہونے لگی تو خاص طور پر سید احمد خاں نے مسلمانوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ جیسے اُنہوں نے بزورِ شمشیر ہندوستان فتح کیا تھا‘ انگریز بھی حاکمِ ہندوستان اسی منطقِ شمشیر سے ہیں۔ اُنہوں نے مسلمانوں کو یہ بھی بتایا کہ زمانہ بدل چکا ہے اور نئے زمانے کے تقاضوں سے وہ اپنے آپ کو ہم آہنگ کریں۔ تجارت میں ہندو ویسے ہی آگے تھا‘ مغربی تعلیم کے مواقع بھی اُس نے دونوں ہاتھوں سے لیے۔ لیکن اگر ان میدانوں میں سید احمد خاں کی کاوشوں کے باوجود مسلمان پیچھے رہے تو فوج کی نوکری میں وہ سب سے آگے تھے۔ یہ بات یاد رہے کہ پہلی عالمی جنگ میں چھ لاکھ سے زیادہ ہندوستانی سپاہ بادشاہِ برطانیہ کے جھنڈے تلے مغربی محاذ اور ترکوں کے خلاف سرگرمِ عمل رہی۔ اس چھ لاکھ سے زائد سپاہ میں تقریباً 63فیصد کا تعلق متحدہ پنجاب سے تھا‘ اور جہاں ہندو اور سکھ بھی اس ٹوٹل میں شمار ہوتے ہیں‘ زیادہ تناسب پھر بھی مسلمانوں کا تھا۔ یعنی انگریز تابعداری میں مسلمانانِ ہند نے ذرہ برابر تامل نہ دکھایا۔
سیاست میں نافرمانی کی کسی روش کے قریب مسلمانانِ ہند نہیں گئے۔ انڈین نیشنل کانگریس نے انگریزوں کے خلاف آواز اٹھانا شروع کر دی تھی لیکن جن زعما نے مسلم لیگ کی بنیاد 1906ء میں ڈھاکہ میں رکھی اُن سے ایسی کوئی خطا سرزد نہ ہوئی۔ اس کے برعکس جب وائسرائے ہند لارڈ منٹو کے سامنے مسلم لیگ کے وفد نے شملہ میں حاضری دی تو اُنہوں نے فرمانبرداری کا بھرپور اظہار کیا۔ وائسرائے ہند کی خدمت میں جو تحریر پیش کی گئی اُس کا مفہوم یہی تھا کہ ہم تو آپ کے بندے ہیں‘ آپ کے تابعدار‘ آپ پر فرض بنتا ہے کہ ہمارا کچھ خیال رکھیں۔ خیال بہ نسبت ہندو اکثریت۔ برطانوی راج کی بنیادیں مضبوط ہوئیں تو مسلمانانِ ہند نے انگریزوں کے خلاف آواز اٹھانے کا کبھی نہ سوچا‘ سیاسی لحاظ سے اُن کا جو بھی مطمح نظر تھا ہندو اکثریت کے حوالے سے تھا۔ یعنی جو انڈین قوم پرستی کے بیج بوئے جا رہے تھے مسلمانانِ ہند نے اس سارے عمل سے اپنے آپ کو دور رکھا۔ انگریزوں نے جو مہربانی فرمائی وہ جداگانہ طرزِ انتخاب کی صورت میں تھی۔ مسلم لیگ کا بڑا مطالبہ بھی یہ تھا کہ اُن کا انتخابی کوٹہ الگ رکھا جائے جس میں ووٹ صرف مسلمانوں کے ہوں۔ جداگانہ طرزِ انتخاب تقسیمِ ہند کی طرف پہلا بڑا قدم تھا۔
انگریزوں کو بھی دیکھیے۔ پہلی عالمی جنگ میں چھ لاکھ سے زیادہ فوجی انگریزوں کی جنگوں میں جاتے ہیں اور جنگ ختم ہوتی ہے تو 1919ء میں انگریز بدنام زمانہ رولٹ ایکٹ (Rowlatt Act) نافذ کرتے ہیں جس کے تحت ناپسندیدہ سیاسی سرگرمیوں کیلئے سخت ترین سزائیں رکھی جاتی ہیں۔ اس پر شور اُٹھا‘ جلیانوالہ باغ امرتسر میں ایک جلسہ ہوا اور جنرل ڈائر کے حکم پر گولی چلائی گئی جس میں مختلف اندازوں کے مطابق 380 سے لے کر 1500 اشخاص مارے گئے‘ 1200 سے زیادہ زخمی ہوئے جن میں 192 بُری طرح زخمی تھے۔ اس قتلِ عام کے خلاف دھیما سا احتجاج تو ہوا اور بادشاہی مسجد لاہور میں شاید تاریخ میں پہلی اور آخری بار تمام مذاہب کا اجتماع ہوا لیکن پنجابی مسلمانوں کی طرف سے کوئی زیادہ پُرزور آواز نہ اٹھی۔ ترکی میں خلافت ختم ہوتی ہے تو یہاں کے مسلمانوں نے خلافت تحریک شروع کر دی‘ لیکن جلیانوالہ باغ میں جو زمین خون آلود ہوئی اُس کے خلاف کوئی تحریک نہ اٹھی۔
عجیب بات ہے کہ اس سارے دور میں مسلمانانِ ہند نے نہ آزادی کا نعرہ لگایا نہ برطانوی راج سے آزادی کی بات کی۔ مسلمان ذہنوں پر یہی سوچ سوار تھی کہ انگریزگئے تو ہندو اکثریت میں ہوں گے اور پھر ہمارا کیا بنے گا۔ لیکن یہ کہنا ضروری ہے کہ جن علاقوں پر آج پاکستان مشتمل ہے یہاں یہ سوچ اتنی نمایاں نہ تھی بلکہ زیادہ تر یو پی کے مسلمانوں نے اس سوچ کو دو قومی نظریہ کی صورت میں ڈھالا۔ یعنی دو قومی نظریہ پر زیادہ زور وہاں ہوا جہاں مسلمان اکثریت میں نہیں تھے۔ بہرحال بات تو تابعداری کی ہو رہی ہے اور 1947ء تک علیحدہ ریاست کی بات تو ہونے لگی لیکن انگریز سامراج کے خلاف ہر احتجاج سے مسلمانانِ ہند نے اپنے آپ کو دور رکھا۔
دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو جہاں دیگر قومیتوں اور مذاہب نے برطانوی پرچم تلے مختلف محاذوں پر عسکری فرائض سرانجام دیے‘ مسلمان بھی اس عمل میں شریک تھے۔ اور بہ نسبت مسلم آبادی کے‘ برطانوی مسلح افواج میں مسلمانوں کا تناسب سب سے زیادہ تھا۔ ایوب خان برما کے محاذ پر تھا اور روایت یہی ہے کہ ان کی عسکری کارکردگی کوئی زیادہ اچھی نہ تھی۔ یحییٰ خان اور صاحبزادہ یعقوب خان اٹلی میں جرمنوں کے ہاتھوں قید ہوئے اور جنگی قیدی کے طور پر کچھ عرصہ انہوں نے جرمن کیمپوں میں گزارا۔ پاکستان بنا اور ہندوستان آزاد ہوا تو ان جیسے سارے لوگ بغیر کسی دقت کے اپنی اپنی فوجوں میں چلے گئے۔ دو نئے ممالک دنیا کے نقشے پر معرضِ وجود میں آئے لیکن جہاں تک محکموں اور اداروں کا تعلق ہے‘ وہی قانون اور کلچر رہا جو انگریزوں کا تھا اور جو بطورِ ورثہ انگریز پیچھے چھوڑ کر گئے تھے۔
ہندوستان میں جاگیرداری ختم کر دی گئی لیکن پاکستان میں قائم رہی۔ پاکستان کے جاگیرداروں نے باغیانہ طرزِ عمل کہاں سے سیکھنا تھا۔ انگریز کے زمانے میں بادشاہِ برطانیہ کے جنم دن پر پنجاب کے جاگیردار تحائف لے کر گورنر ہاؤس لاہور حاضری دینے تشریف لاتے۔ اُچکنیں اور پگڑیاں پہن کر سب اکٹھے ہوتے تو اندر سے کوئی انگریز اہلکار نکلتا اور بآواز بلند کہتا کہ لاٹ صاحب نے آپ کی مبارک بادیں قبول کر لی ہیں۔