ریاست کی صحت کے بارے میں بڑی آسانی سے حتمی رائے دی جا سکتی ہے کہ اس کا کوئی علاج نہیں۔ بحیثیت قوم کُڑھنے کے ہم ماہر ہیں لیکن کُڑھنے سے علاج ہوتے تو کسی حکیم لقمان کی ضرورت کیا تھی۔ جو مسائل پاکستان کو لاحق ہیں یہ کسی خلا میں یا ویسے ہی پیدا نہیں ہوئے‘ برا نہ مانیں تو ان مسائل کی جڑیں ہماری تخلیق میں پنہاں ہیں۔ بنیادیں ہی کچھ یوں ڈالی گئیں کہ ایسے مسائل نے اُٹھنا ہی تھا۔ ہر گزرتے روز تو یہ بھی عیاں ہو جاتا ہے کہ ایسے مسائل کے حل کی صلاحیت بطورِ قوم ہم میں زیادہ نہیں۔ لہٰذا فکرِ ریاست کو اپنے اوپر سوار نہیں کرنا چاہیے۔ ہماری کشتی پر کنٹرول ہمارا نہیں۔ طغیانیٔ ساگر جہاں کشتی کو لے جائے وہیں اس نے جانا ہے۔
فکر کرنی چاہیے تو اپنی صحت کی۔ ہماری جیسی عمر کو جب انسان پہنچتا ہے تو فانی ہونے کا احساس بہت بڑھ جاتا ہے۔ زندگی کا آخری چکر نزدیک نظر آنے لگتا ہے۔ اس چکر سے چھٹکارا تو کوئی ہے نہیں‘ ہر زندہ چیز کا ختم ہونا اُس کی تقدیر میں لکھا ہے۔ لیکن اس آخری راؤنڈ کو خوش اسلوبی سے گزارنے کیلئے اگر کوئی ایک چیز ضروری اور درکار ہے تو وہ صحت ہے۔ صحت قائم ہو تو اس عمر میں بھی ہر طوفان کا خندہ پیشانی سے نہ صرف انتظار بلکہ مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ صحت اور توانائی میں کمی آنے لگے تو پھر کیا کسی مندر میں جانا یا کہیں اور‘ کوئی کام نہیں آتا۔ یہ لمبا چوڑا بھاشن لبوں اور انگلیوں پر صرف اس لیے آ رہا ہے کہ پچھلے دنوں دائیں پیر میں انگوٹھے کی جانب ہلکی سی سوجن اور ہلکا سا درد ہونے لگا۔ گاؤں میں تھا تو کسی پردھان نے کہا کہ کوئی سانپ پیر کے اوپر سے گزر گیا ہے‘ ہماری ملازمہ نے کہا کہ کوئی چیز لَڑ گئی ہے۔ کہا گیا کہ فلاں دربار پر حاضری دیں تو افاقہ ہو جائے گا۔ ہم نے کیا کرنا تھا‘ شام کو اپنی پرانی عادت کو لے کر بیٹھ گئے۔ صبح دیکھا تو سوجن کہیں اور پہنچ چکی تھی‘ اتنی کہ پاؤں جوتے میں نہ آئے۔
لاہور جانا ہوا اور ڈاکٹر شاہینہ کے پاس مدد کیلئے پہنچے تو اُنہوں نے فوراً کہا تمہیں تو گاؤٹ کا حملہ ہو گیا ہے۔ کہا کہ یہ کیسے کیونکہ ہم تو اتنا گوشت نہیں کھاتے اور ہم نے تو یہی سنا تھا کہ گاؤٹ گوشت خوروں سے بدلہ چکانے والا ایک مرض ہے۔ اُنہوں نے کچھ سمجھایا‘ کچھ دوا دی‘ کچھ کھانے پینے میں احتیاط کا درس سنایا اور کچھ دن بعد افاقہ ہوا اور ہم حسبِ معمول اپنی پرانی روٹین پر آ گئے۔ وہ تو اب کے لاہور گئے تو دائیں پیر کی اُسی جگہ ہلکا سا درد پھر ہونے لگا۔ دل میں اضطراب پیدا ہوا کہ یہ مرض پکی ہو رہی ہے۔ کچھ پسینہ آیا اور لگ گئے ہم گوگل پر گاؤٹ کی کھوج لگانے۔ تحقیق جاری رہی تو پھر سمجھ آنے لگی کہ معاملہ کیا ہے۔
معلوم ہوا کہ جسم میں یا یوں کہیے دورانِ خون میں ایک کچرا پیدا ہوتا ہے جسے یورِک ایسڈ کہتے ہیں۔ یہ معمول کی کارروائی ہے اور یورک ایسڈ پیدا ہوتا رہتا ہے اور گردوں کے ذریعے یہ جسم سے خارج ہوتا ہے۔ مسئلہ تب بنتا ہے جب اخراج میں خلل پیدا ہو اور گردے اپنا صحیح کام نہ کر سکتے ہوں۔ اور یہ تب ہوتا ہے جب یورک ایسڈ کچھ زیادہ پیدا ہونے لگے۔ سوال تو پھر یہ ہے کہ یورک ایسڈ کی بہتات کس چیز سے ہوتی ہے اور پھر معلوم ہوا کہ اس واردات میں دو بڑے مجرم ہیں: ایک الکوحل‘ دوسرا چینی یا میٹھا۔ الکوحل بھی چینی کی ایک شکل ہے یعنی بڑا مجرم پھر ہر قسم کا میٹھا ہی ٹھہرا۔ چینی کا ریشہ جب جگر سے گزرتا ہے تو ایک کیمیکل بن جاتا ہے جسے پیورین کہتے ہیں۔ یہ کیمیکل خون میں پہنچتا ہے اور مقدار زیادہ ہو تو جسم سے اخراج کے بجائے جوڑوں کے گرد کرسٹل کی شکل میں بیٹھ جاتا ہے۔ اور یہ کرسٹل ایک حد سے مقدار میں بڑھ جائیں تو پھر جوڑوں میں وہ درد اُٹھتا ہے کہ زمین و آسمان کی تمام نانیاں یاد آ جاتی ہیں۔
یوٹیوب پر یورک ایسڈ کے بارے میں کچھ بہت ہی اچھی وڈیوز بنی ہوئی ہیں۔ ہر کسی کو‘ جوان یا ہم جیسا‘ وقت نکال کر یہ وڈیوز دیکھنی چاہئیں تاکہ یورک ایسڈ کے بارے میں صحیح جانکاری ہو سکے۔ اس مطالعہ کے بعد کسی ڈاکٹر کے پاس ہم نہ گئے‘ چکوال میں آر ایف ٹی یعنی رینل فنکشن ٹیسٹ کرایا جس سے پتا چلا کہ یورک ایسڈ تھوڑا سا بڑھا ہوا ہے۔ شام کی مشق بالکل بند ہو گئی‘ میٹھے کے چسکے کو یکسر ترک کر دیا۔ جو رات کے کھانے کے بعد کچھ میٹھا کھائے بغیر نہیں رہ سکتے تھے اب ایک سیب پر قناعت ہوتی ہے۔ دن بھر کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ پانی پیا جائے۔ اور کیونکہ سالہا سال سے عادت گرم پانی پینے کی ہے تو دن میں اب پانچ چھ گلاس گرم پانی پینے کی کوشش رہتی ہے۔ کافی ویسے ہی بغیر چینی اور دودھ کے پیتے آئے ہیں‘ تھوڑی سی چینی کافی میں پڑ جائے تو پی نہیں جاتی۔ لیکن شام پانچ بجے جو ایک چائے کا کپ چلتا تھا اُس میں بجائے تھوڑی سی چینی کے تھوڑی سی شکر کا استعمال ہو جاتا ہے۔ دیہاتیوں کی طرح کھانا ہم دو ٹائم ہی کھاتے ہیں‘ صبح اور شام ۔ پانچ بجے کچھ بھوک لگ جاتی تھی تو نیچے پہلوان بیکری سے ایک عدد پیٹی منگوا لیتے تھے یا تو بسکٹ کھا لیتے تھے۔ یہ سلسلہ بھی اب ختم ہو گیا ہے اور بھوک کا احساس ہو تو تھوڑا سا ڈرائی فروٹ کھا لیا جاتا ہے۔ سات بجے شام کو بھوک لگ گئی‘ ایک روٹی سبزی کے ساتھ کھا لی اور اُس کے بعد ایک سیب اور پھر نو بجے تک نیند کی وادی کی طرف من پھسلنے لگتا ہے۔ یقین مانیے اُس وقت کی نیند سب سے اچھی ہوتی ہے۔ اس وقت سوؤں تو دو تین بجے صبح جاگ آ جاتی ہے۔ ایک گلاس گرم پانی پھر پی لیا‘ کچھ کتاب کھول لی اور نیند کا جھونکا پھر سے آ گیا۔ کوئی دوا کا استعمال نہیں ہوا اور اس روٹین سے پیر میں جو درد شروع ہوا تھا ختم ہو گیا ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ جو کام واعظ و نصیحت سے نہ ہو سکا وہ گاؤٹ کے کرشمے نے کر دکھایا۔ کتنی بار ارادے بندھے کہ بہت ہو گیا‘ جو کوٹہ حضورِ خداوندی سے گناہگار بشر کو عطا ہوتا ہے وہ ہم کب کا پورا کر چکے۔ اب مشقِ شب ختم ہونی چاہیے لیکن مصمم ارادوں کے باوجود نیت کچھ ڈگمگا جاتی اور ارادوں کے ٹکڑے ہو جاتے۔ لیکن کیا تھوڑا سا درد دائیں پیر میں بڑے انگوٹھے کے ساتھ اُٹھا تو محسوس یوں ہوا کہ گریبان سے پکڑے گئے ہیں۔ اور جھٹ سے پھر اُن تدابیر پر آگئے جو آشرم نہ ہسپتال سکھا سکتے تھے۔ یہی کہیں گے مولا کے رنگ ہیں اور مولا کے اپنے طریقے ہیں سمجھانے اور سکھانے کے۔ ایک بات تو دل پر لکھی جا چکی کہ ہر انداز کا میٹھا سب سے بڑا مجرم ہے۔ کسی ذی شعور شخص کی غذا کا حصہ میٹھے کو نہیں ہونا چاہیے۔ اور میٹھے کا مطلب صرف لڈو اور حلوہ نہیں بلکہ تمام فزی ڈرنک جو کہ کونے کونے پر دستیاب ہیں یہ جرمِ صحت میں برابر کے شریک ہیں۔
پسِ تحریر: کالم لکھنے سے پہلے ریڈیو سیلون کچھ لمحے سنا تو پرانی فلموں کے سنگیت میں عظیم اور لافانی لتا کا یہ گانا تھا ''آج کی رُت ہے جواں‘ دل کے مہماں یہاں‘‘۔ 1952ء کی فلم اَن داتا کا یہ گانا ہے۔ لاجواب الفاظ حسرت جے پوری کے سنگیت محمد شفیع کا۔ سنیے تو ہوش اڑ جائیں۔