پاکستان کا موجودہ برانڈ جس کی تشکیل اتنے سال پہلے ہوئی تھی ناکارہ ہو چکا ہے۔ پاکستان بطورِ ملک کی بات نہیں ہو رہی‘ اُس برانڈ کی ہو رہی ہے جو نئے معرضِ وجود آنے والے ملک پر چسپاں ہوا۔ یہ برانڈ دوائیوں کی طرح اپنی شیلف لائف پوری کر چکا ہے۔ ناکارہ ہونے کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ناکامی کے شواہد ہر طرف دیکھے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک نئے برانڈ کی تشکیل کی جائے۔ پاکستان کو ری ڈیفائن (Redefine) کرنے کی ضرورت ہے اور یہ ایک ایسا لیڈر ہی کر سکتا ہے جسے عوامی حمایت حاصل ہو‘ نہیں تو طاقتور حلقے ہر عوامی لیڈر کو چبا جاتے ہیں۔ یعنی ضرورت اس بات کی ہے کہ لیڈر کے پاس عوامی حمایت ہو اور وہ مضبوط اعصاب کا مالک بھی ہو۔ بالکل جیسے امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔ دس دنوں میں واشنگٹن کو اوپر نیچے کر دیا ہے۔ باتوں تک اپنے آپ کو محدود نہیں رکھا بلکہ عمل کی ایسی رفتار اپنائی ہے کہ امریکہ کی اسٹیبلشمنٹ چکرا گئی ہے۔
عوامی لیڈر یہاں ایک ہی ہے‘ نام لینا بیکار کا چلن ہے کیونکہ بااثر حلقوں کو اس نام سے چڑ ہے اور سنتے ہی ذہنوں پر ایک وبال سا آ جاتا ہے۔ بہرحال اتنا سمجھنا چاہیے کہ موجودہ حالات دائمی نہیں عارضی نوعیت کے ہیں۔ جو ناٹک یہاں چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کتنی دیر رہ سکتا ہے؟ یہ مصنوعی قسم کا بندوبست ہے۔ پاکستان کی تقدیر خراب ہو گی لیکن اتنی خراب بھی نہیں کہ جس قسم کا دستور اب چل رہا ہے‘ ہمیشہ کیلئے قائم رہے۔ منطق اور حالات کے خلاف کوئی سیاسی بندوبست کچھ دیر ہی چل سکتا ہے‘ پھر اُس کا اختتام لازمی ہو جاتا ہے۔ اتنے میں کوئی اور عوامی لیڈر آ جائے وہ اور بات ہے لیکن فی الحال کیونکہ ہمیں حقیقت کا سامنا کرنا ہے نہ کہ افسانہ نگاری میں جانا ہے‘ ایک ہی لیڈر ہے جس کے نام سے بہتوں کو بخار ہو جاتا ہے۔
مسئلہ البتہ یہ ہے کہ عوامی مقبولیت کا ہر گز مطلب نہیں کہ ایسا لیڈر مؤثر بھی ثابت ہو۔ بڑے بڑے آمر مؤثر لیڈر ثابت ہوئے ہیں اور بڑے بڑے مقبول لیڈر ناکارہ اور نکھٹو نکلے ہیں۔ لہٰذا ہمارا مسئلہ ہے کہ جس کسی کے پاس عوامی حمایت ہے وہ اقتدار میں آنے کے بعد مؤثر اور قابل بھی ثابت ہو۔ وہ اپنا ہوم ورک تب نہ شروع کرے جب اقتدار میں آئے بلکہ اقتدار میں آنے سے بہت پہلے اُس کا ہوم ورک مکمل ہونا چاہیے۔ روزِ اول سے اُسے پتا ہو کہ میرا ایجنڈا کیا ہے‘ میں نے کرنا کیا ہے اور جو میں نے کرنا ہے اُس کا بہترین طریقہ کرنے کا کیا ہے۔ اپنی ٹیم پہلے سے تیار کی ہو نہ کہ اقتدار میں آئے اور پھر اندھیرے میں ہاتھ ہلانا شروع کرے۔ یہ اس لیے کہنا ضروری ہے کہ جب عمران خان وزیراعظم بنے تھے تو کوئی ہوم ورک وغیرہ مکمل نہیں تھا۔ اور کئی ایسے اقدامات کیے گئے جو بچگانہ نوعیت کے تھے۔ لگتا تھا کوئی فلسفۂ حکمرانی سامنے نہیں ہے۔ بس روز کی ایک تقریر ہو جایا کرتی تھی اور اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ تقریر بے ربط نوعیت کی ہوتی تھی۔
بائیس سال سیاسی صحرا میں چلّہ کاٹا لیکن سیاسی تعلیم مکمل نہ ہوئی۔ اقتدار میں آئے یا لائے گئے‘ اس بحث میں نہیں پڑتے‘ تو پھر بھی عیاں تھا کہ اتنے لمبے چِلے کے باوجود سیاسی تعلیم مکمل نہیں ہوئی۔ تب کی اسٹیبلشمنٹ نے اُن کے ساتھ مہربانی یہ کی کہ اقتدار سے رخصتی کے حالات پیدا کیے۔ اقتدار سے نکلنا تھا کہ اُن کا اصلی چلہ شروع ہوا۔ جہاں اپنے مخالفین کو نہ صرف بے نقاب بلکہ عوام کی آنکھوں میں رسوا کیا وہاں ایک آگ کے دریا سے بھی گزرنا پڑا جس نے کندن نہ بھی کیا ہو مضبوط تو کر دیا۔ اڈیالہ کی یاترا کب ختم ہوتی ہے اس بارے میں کیا کہا جائے۔ بنیادی بات بالکل مختلف ہے اور وہ یہ کہ جب آسمان اپنا رنگ بدلیں تو کیا آگ سے گزرنے والوں کا ہوم ورک مکمل ہو گیا ہوگا؟ کیا ذہن میں ایک مربوط سیاسی ایجنڈا تشکیل پا گیا ہوگا؟ پاکستان کو تقریری مقابلوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹرمپ نے جو تقریریں کیں وہ دورانِ صدارتی مہم تھیں۔ چار سال تقریریں کرتے رہے لیکن اقتدار میں آئے ہیں تو دس دن میں اُن کی تقریروں نے نہیں اُن کے اقدامات نے سب کچھ ہلا کے رکھ دیا ہے۔
جب ہم کہیں کہ پاکستان کو ری برانڈنگ کی ضرورت ہے تو اس کا مطلب ہے کہ رائج الوقت حکمرانی کے طریقوں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ تبدیلی کمزور لیڈر نہیں لا سکتا اور اس وقت پاکستانی سیاسی اُفق پر کوئی مضبوط ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے وہ ایک ہی ہے‘ چاہے کسی کو اُس کی شکل پسند ہو یا نہ ہو۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عوام کا بیشتر حصہ ایک ہی سیاسی جھنڈے تلے کھڑا ہے۔ اگر آسمانوں کا رنگ بدلتا ہے اور بہتوں کا یقین ہے کہ جلد یا بدیر ضرور بدلے گا تو پاکستانی تاریخ میں وہ لمحہ کتنی اہمیت کا حامل ہو گا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے سامنے ایسا موقع تھا لیکن اُن کے پانچ سالہ اقتدار کے بعد پاکستان کس اندھیری رات کی نذر ہو گیا وہ ہم سب جانتے ہیں۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ دوبارہ ایسا موقع آتا ہے تو پاکستان کیلئے پُرمعنی ثابت ہوتا ہے یا ایک اور سیاہ رات کا پیش خیمہ بنتا ہے۔
ہمارے ہاں تقریر بازی کا بہت شوق رہتا ہے۔ ہر کوئی بولتا رہتا ہے اور لیڈرانِ کرام تو خاص طور پر بے معنی تقریروں پر ہی گزارا چلاتے ہیں۔ آج کی بات نہیں کریں گے‘ آئندہ کی کریں گے کہ یہ ہم کریں گے یہ ہمیں کرنا ہوگا۔ پاکستان کا علاج تقریروں میں ہوتا تو ہم مریخ پر پہنچ گئے ہوتے۔ پہلے تو ادراک ہونا چاہیے کہ ملک کے مسائل کیا ہیں اور پھر ذہن میں ٹھوس نقشہ ہونا چاہیے کہ مسائل سے نمٹنا کیسے ہے اور ملک میں کرنا کیا ہے۔ دیکھا ہے امریکہ میں ٹرمپ کیا کر رہا ہے؟ اور چیزوں کے علاوہ کہہ رہا ہے کہ وفاقی حکومت بہت پھیل چکی ہے‘ اسے کم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں بھی یہ مسئلہ نہیں؟ کتنے محکمے ہیں جو فوراً بند کیے جا سکتے ہیں؟ پنشن کا نظام ایسا ہے کہ وہ دن آئے گا جب پنشنوں کیلئے پیسے نہ ہوں گے۔ بیکار کے کتنے کام ہیں جن پر قومی وسائل اور توانائیاں خرچ ہو رہی ہیں۔ یہاں کھل کے بات بھی نہیں کی جا سکتی کہ کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
اتنی بات واضح ہونی چاہیے کہ تصورِ پاکستان کو ری ڈیفائن نہیں کریں گے تو کام نہیں چلے گا۔ فرسودہ باتوں اور فرسودہ نعروں کا وقت نہیں رہا۔ بے جا کی دشمنیوں کا وقت نہیں رہا۔ بارڈر کھولنے ہوں گے‘ تجارت کو وسعت ملنی چاہیے اور قومی سلامتی کے نام پر جو راگ یہاں الاپے جاتے ہیں اُن میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ظاہر ہے قومی سیاست میں جمود ہے۔ پانی رُکے ہوئے ہیں کیونکہ بلا نہ ٹل رہی ہے نہ ختم کی جا سکی ہے۔ بس اعصاب پر سوار ہے۔ وقت ٹپاؤ کی پالیسی قومی فلسفہ بنا ہوا ہے۔ اور دونوں مغربی صوبوں میں ایسی شورشیں جاری ہیں کہ تفصیل میں جائیں تو خوف سا طاری ہونے لگتا ہے۔
لہٰذا اپیلیں دونوں جانب ہیں۔ ایک حکمرانی کے ستونوں سے کہ حضور موجودہ کام چل نہیں رہا نہ دیرپا چل سکتا ہے۔ دوسری اپیل عوامی سپوتوں سے کہ حضور جو چیزیں کرنے کی ہیں اُن کا ٹھوس نقشہ ذہنوں میں ہونا چاہیے۔ اب کی محض تقریروں سے کام نہیں چلے گا۔ ٹھوس حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ عوامی طاقت کا لوہا منوا چکے‘ ترجیحات طے کرنے کا وقت ہے۔