"AYA" (space) message & send to 7575

بارش کو ترسے ماٹی

تقدیر ایسی کہ ستتر سال سیدھی نہ ہو سکی۔ نصیب ایسے کہ کارواں اندھیروں میں بھٹکتے رہے اور میرِ کارواں ایسے کہ نظر پڑے تو ہاتھ جوتے کی طرف جائے۔ اس کے اوپر پتا نہیں کس بدبخت کی نظرِبد لگی ہے کہ آسمان روٹھ گئے اور بادل بیگانے ہو گئے۔ کوئی مبالغہ نہیں‘ ہوش سنبھالے ایسی خشک سالی نہیں دیکھی۔ اس بار گندم کی فصل ایسی کہ دیکھنا مشکل ہو گیا۔ سردیوں کے موسم میں تو ہر چیز پہ ایک جمال آجاتا ہے لیکن اس بار آسمان جو روٹھے تو ہر چیز کا مزہ ہی چلا گیا۔
خراب قسمت پر پوچھتے تھے کہ کن گناہوں کی سزا ہے کیونکہ خطاکار اور گناہگار تو ہیں لیکن اتنے بھی نہیں کہ بدنصیبی کی اتنی کٹھن سزا ملے۔ یہ جو آسمانوں کا تیور بدلا تو پھر پوچھنا بنتا ہے کہ کس گناہ کی سزا ہے؟ مانا کہ بطورِ قوم بڑے نکمے اور اُچکے پالے۔ صرف یہ نہیں‘ برسا برس ان کو برداشت کیا لیکن قوموں کی تقدیر میں ایسا ہوتا ہے‘ نکمے اور پہنچے ہوئے جیب تراش آتے ہی رہتے ہیں۔ ہمارا تجربہ بھی یہی رہا کہ ایسے میں آسمان تھوڑا سا مسکرا دیا کرتے ہیں۔ لیکن اب کی بار کیا ہوا ہے کہ بادلوں کا شوخ پن یکسر ختم ہو گیا۔ یہ محض ناراضگی کا اظہار نہیں‘ بلکہ اب تو محسوس ہوتا ہے کہ اوپر کی ہواؤں نے اس دھرتی سے منہ ہی پھیر لیا ہے۔ ہوتا تو یوں آیا ہے کہ بادلوں کو منانے کیلئے نماز اِستسقاء ادا کی جاتی تھی۔ اب کے بار بھی عبادتیں ہوئی ہیں لیکن بادل راضی ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ لگتا تو پھر یوں ہے کہ جوتشیوں کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ جوتشیوں کا اجتماع بلانا پڑے گا تاکہ یہ کھوج لگائی جا سکے کہ آسمان اور بادل اس دھرتی سے اتنے ناراض کیوں ہو گئے۔ کیا خطا تھی جس کی سزا مل رہی ہے؟
ماننا پڑے گا کہ روشیں یہاں کی کچھ درست نہ تھیں۔ ایک تو جیسے اوپر عرض کیا مستند چور اُچکوں کو کچھ زیادہ ہی یہاں گنجائش دی گئی۔ ایسے میرِکارواں یہاں پالے گئے کہ آسمان بھی اُنہیں دیکھ کر بیزار ہو گئے ہوں گے۔ لیکن کچھ اور خطائیں بھی تھیں جو قومی عادات کا روپ دھار گئیں۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ یہاں کا جو باسی ہے چاہے جتنے بھی وہ نظریے کے نعرے لگائے‘ درخت نام کی چیز کا بیری ہے۔ درخت دیکھا نہیں تو جب تک اُسے دھرتی پر لٹا نہ دیا روح کو چین نہ آیا۔ ایک مثال تو یہ ہے کہ نئی سڑکوں پر کام ابھی شروع ہونا ہے اور انگریز دور کے لگائے ہوئے پرانے درختوں کا قتلِ عام ہو جاتا ہے۔ جن کو ہم نے دشمن کہا اُن کو تو شاید زیر نہ کر سکے لیکن درختوں کے ساتھ جو یہاں ہوتا رہا ہے اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے ساتھ ہی تعمیرات و ترقی کے نام پر جو اس نڈر قوم نے قدرتی ماحول اور کھیتی باڑی کی زمینوں کے ساتھ کیا ہے اُس سے اس قوم کے مہذب ہونے کا کچھ پتا چلتا ہے۔ جوتشیوں کے اجتماع کو ان سب کارروائیوں کو سامنے رکھنا ہو گا تب ہی کوئی نتیجہ اخذ ہو سکے گا۔ بہرحال کارواں کا انجام کیا ہو سکتا ہے جب ایسے میرِکارواں ہوں جیسے یہاں پائے گئے ہیں؟ ہندوستان کے ساتھ دشمنی تو ایک طرف رہی‘ اُس کا شاید کچھ عذر بنایا جا سکے لیکن نعروں سے مدہوش اس قوم اور اس کے راہنماؤں سے اتنا تو پوچھا جائے کہ قدرت کے کرشمات نے ان کا کیا بگاڑا ہے کہ کلہاڑی لے کر ان کے پیچھے پڑ جائیں؟ اور تعمیرات کے نام پر زرخیز زمینوں کو تباہ کرنا یہ کون سے سائنس میں لکھا ہے کہ ایسا کرنا اس قوم پر فرض بنتا ہے؟ ان تینوں چیزوں کو ملایا جائے تو آسمانوں کے غیظ و غضب کی کچھ سمجھ آنے لگتی ہے۔
قدیم یونانیوں کے مذہبی خیالات کچھ ایسے تھے کہ انسانوں کی کسی خطا پر اوپر بیٹھے دیوتا طیش میں آ کر بجلی کا تھنڈر بولٹ رسد کر دیتے تھے۔ اور دیوتاؤں کے غیظ و غضب سے انسان لرزتے تھے۔ ایسے خیالات سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں لیکن سچ پوچھیے آج کل آسمانوں پر نظر پڑتی ہے تو ڈر سا لگنے لگتا ہے۔ کیونکہ کسی نرم دلی کا شائبہ نہیں ملتا۔ بادل جو آسمان سے گزرتے ہیں صاف نظر آتا ہے کہ ان میں پانی کے قطروں کی بہتات نہیں۔ ویسے بھی بادل ایک جگہ ٹکنے کا ذرا برابر بھی احساس نہیں دیتے۔ گاؤں میں میرا معمول بن چکا ہے کہ صبح اُٹھتے ہی آسمان پر نظر جاتی ہے اور ایسا کرکے دل دہل جاتا ہے کیونکہ آسمان کے تیور ذرا سی امید بھی پیدا نہیں کرتے۔ اب تو مہتاب کو دیکھنا بھی چھوڑ دیا ہے کیونکہ یہ موسمِ سرما ایسا بے لذت گزرا ہے کہ خوامخواہ کی شاعری سے دل اُکتا گیا ہے۔ فیض صاحب نے کیا کہا تھا کہ آئے کچھ ابر۔ ابر آنے کے آثار ہی نہ ہوں تو رِند کسی اور چیز کی بات کیا کریں؟ اور سچ تو یہ ہے کہ بے ابر آسمانوں کی وجہ سے کسی اور چیز کا دل ہی نہیں کرتا۔
یہاں تین ماہ سے زائد عرصہ ہونے کو ہے کہ بارش نہیں ہوئی۔ کیلیفورنیا‘ جہاں آگ کے شعلوں نے تباہی مچائی وہاں ایسے علاقے ہیں جہاں پچھلے آٹھ نو ماہ سے ایک بوند بھی آسمان سے نہیں گری۔ جنوبی افریقہ میں کیپ ٹاؤن‘ جو وہاں کا بڑا شہر ہے‘ وہاں اتنی سخت خشک سالی ہو چکی ہے کہ زیر زمین پانی نہیں رہا۔ یہاں آپ دیکھیں تو دیہات کیا اور شہر کیا لوگوں نے نَل کھولے ہوتے ہیں جن سے پانی ایک نہر کی صورت میں جاری رہتا ہے۔ کوئی بتانے والا نہیں کہ زیر زمین پانی لامتناہی نہیں۔ اس کی ایک مقدار ہوتی ہے اور آپ پمپ کرتے رہیں تو پہلے تو پانی کی سطح نیچے آ جائے گی اور پھر پانی ختم بھی ہو سکتا ہے۔ لاہور کے باسی ایک تو پھیپھڑوں میں زہریلا دھواں پھَکتے رہتے ہیں۔ اسی لیے ہر دوسرے انسان کو وہاں نزلہ زکام لگا ہوا ہے۔ پھر یہ نہیں پتا لاہوریوں کو کہ ان کے شہر میں پانی کی گراوٹ کس حد تک ہو چکی ہے۔ پانچ چھ سو فٹ بور کریں پھر بھی پانی کی سطح نہیں ملتی اور اتنا نیچے جو پانی ہے وہ صحت کیلئے مضر ہے۔
ایک تو ہم عجیب لوگ ہیں۔ جو باہر سے ہمیں سبق سکھایا جاتا ہے وہی طوطوں کی طرح ہم دہرانے لگتے ہیں۔ مغربی دنیا میں موسمی تبدیلی کی باتیں ہوتی ہیں تو ہم نے بھی یہاں کانفرنسیں منعقد کرنا شروع کر دی ہیں۔ دنیا میں جو موسمی تبدیلی رونما ہو رہی ہے اُس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ امریکہ‘ چین اور مغربی یونین کی انڈسٹریل پالیسیوں پر ہم کیا اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ لیکن ہم جو چیزیں کر سکتے ہیں اُن کے بارے میں ہمارا ذرا سا دھیان بھی نہیں۔ گلوبل وارمنگ پر امریکہ اور چین کانفرنسیں منعقد کریں‘ لمبے لمبے اعلامیے وہ جاری کریں۔ ہم وہ کریں جو ہماری دسترس میں ہے۔ اتنے بلند و بانگ دعوے تو اپنی جگہ‘ یہ پلاسٹک شاپر ہم سے ختم کیوں نہیں ہوتے؟ پورے ملک میں پہاڑوں سے لے کر سمندر تک‘ دیہات سے لے کر شہروں تک‘ انہوں نے تباہی پھیلائی ہوئی ہے۔ ہمیں نظر نہیں آتی؟ درختوں کا کٹاؤ ہم نہیں دیکھ سکتے؟ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے بے دریغ پھیلاؤ سے ہمیں کچھ محسوس نہیں ہوتا؟ آلودگی سے کراچی کا سمندر ہم تباہ کررہے ہیں‘ اُس کے بارے میں ہم کچھ نہ کریں گے لیکن باہر سے جو سبق آئیں گے وہ ہم الاپتے رہیں گے۔
بہرحال کارواں کچھ ایسے ہوں گے تو ان چیزوں کے بارے میں بھی سوچ لیا جائے گا۔ فی الحال تو بات روٹھے ہوئے آسمانوں کی ہے۔ کیا کسی سہگل سے راگ دیپک گوانا پڑے گا کہ بادل برسیں اور کچھ قرار آئے؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں