"AYA" (space) message & send to 7575

ہمارے نیتا اور خوف کا درس

مسلمانوں کی ہندوستان میں ہزار سالہ تاریخ رہی۔ فتوحات ہوئیں سلطنتیں بنیں مسلمان اقلیت میں رہے لیکن ہندو اکثریت سے کبھی ڈر نہ رہا۔ مسلمانوں کا عروج زوال میں تبدیل ہو گیا لیکن پھر بھی ہندو سماج یا ہندو قوم سے ڈرنے کا سبق کسی مسلمان نے نہیں پڑھایا۔ ہزار سالہ تاریخ میں ہماری پہلی نسل ہے مسلمانوں کی جسے باقاعدہ بتایا اور پڑھایا جا رہا ہے کہ ہوشیار رہو نہیں تو ساتھ کے ہندو نگل جائیں گے‘ کھا جائیں گے۔ پاکستان کے شروع سالوں سے کانوں میں یہ پیغام گھولا گیا کہ ہندوستان نے پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کیا اور موقع ملنے پر اس وجود کو ختم کر دے گا۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سرکار میں تسلط سکھوں کا تھا مسلمان رعایا اور محکوم تھے لیکن اس خوف کا اظہار تاریخ کے اوراق میں نہیں ملتا کہ مسلمانوں کو ڈر تھا کہ سکھ ریاست اُن کو صفحۂ ہستی سے مٹا دے گی۔ یہ ہمارا کمال ہے کہ توپ و تفنگ کا ایک اچھا خاصا نظام حاصل ہے‘ سازو سامان اتنا کہ دنیا کی بڑی فوجوں میں شمار ہوتا ہے۔ ایٹمی صلاحیت حاصل ہے‘ میزائلوں کا ذخیرہ‘ اُن کی اڑان کا بندوبست‘ کروز میزائل بنا لیے لیکن پھر بھی دھڑکا لگانے کا سلسلہ بند نہ ہوا کہ مکار اور عیار ہندو ہمارے وجود کے در پے ہے۔ 24کروڑ کی آبادی ہو اور رکنے کا نام نہ لے رہی ہو‘ اوپر ایٹمی چھتری‘ اور اس کے باوجود اگر ریاست یہ درس دینے پر تُلی ہو کہ قوم کو مسلسل ایک خطرہ لاحق ہے تو اس کیفیت کو کیا نام دیا جائے اور اس کا کیا ممکنہ علاج ہو سکتا ہے؟
نیتا کہتے نہیں تھکتے کہ ہندوستان کا تسلط قبول نہیں کیا جائے گا۔ کس مہاتما نے کہا ہے کہ تسلط قبول کیا جائے؟ اتنی بڑی آبادی اور سامانِ حرب کا اچھا خاصا سلسلہ‘ تو تسلط کا سوال ہی کیوں پیدا ہو؟ اس کا ذکر بھی کہاں سے اُٹھے؟ لیکن اچھے خاصے بظاہر سمجھدار پاکستانیوں کا منترہ بن چکا ہے کہ ہندوستان سے خطرہ ہے۔ حالیہ دنوں کے چار روزہ معرکے میں اتنا تو ثابت ہو گیا کہ پاکستان پر خوامخواہ کا رعب نہیں جمایا جا سکتا۔ پہلے کی جنگیں جو ہم ہارے یا جن میں برابری رہی جیسا کہ 1965ء میں‘ اُن میں اتنی ہندوستانی برتری نہیں بلکہ ہماری حماقتوں کا حصہ ہے کہ ہزیمت کا سامان اٹھانا پڑا۔ ہر چیز کو ہندوستان کے زاویے سے دیکھنا‘ مقابلے کی باتیں کرنا‘ تسلط کے لفظ کا کچھ زیادہ ہی استعمال ہونا‘ ایسی کیفیت اپنے اوپر ہم نے کیوں طاری کر رکھی ہے؟ جغرافیہ اٹل ہوتا ہے‘ ہندوستان نے ہمسایہ رہنا ہے‘ نارمل حالات رکھیں۔ دوستی جائے بھاڑ میں لیکن بے جا کی تکرار‘ فضول کا جنگی جنون‘ بات بات پر برا بھلا کہنا‘ دونوں ممالک اپنے ساتھ اچھا نہیں کر رہے۔
افغانستان سے ہی ہم کچھ سیکھ لیں۔ اُن کے پاس نہ باقاعدہ ایئرفورس نہ میزائل نہ ایٹمی قوت۔ وہاں کے باشندوں نے انگریزوں کو قبول نہیں کیا‘ روس کا تسلط نہیں مانا‘ امریکہ کے خلاف سولہ سال لڑتے رہے۔ ہمارا کیا پرابلم ہے کہ ہر بات پر ہندوستان ہندوستان پکارتے ہیں؟ ہندوستان ہم پر اتنا سوار نہیں جتنا کہ ہمارے حکمرانوں نے ہندوستان کو پاکستانی اعصاب پر بٹھا دیا ہے۔ اور ہماری عقلمندی ملاحظہ ہو کہ آج بات دریاؤں اور اُن کے پانیوں تک پہنچ گئی ہے۔ ایک وہ ہمارے نصیبوں میں آئے جنرل ایوب خان جو تین دریاؤں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اور جس معاہدے کے تحت یہ ہوا اُسے تدبر کی نشانی کے طور پر پیش کیا گیا۔ معاہدہ کرنا بھی تھا تو ایسا ہوتا کہ راوی‘ ستلج اور بیاس میں کچھ پانی بہتا رہتا۔ لیکن ان دریاؤں کا پانی مکمل طور پر ہندوستان کے کھاتے میں چلا گیا اور جہلم اور چناب کا پانی ہندوستان ویسے ہی بجلی بنانے کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ اور اب دھمکی یہ ہے کہ ان دو دریاؤں کے پانی کے ساتھ ہندوستان کچھ اور بھی کرے گا۔ کشمیر کو لیتے لیتے دریاؤں کے مستقبل پر سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ہے۔
حضور‘ کوئی نہیں کہتا کشمیر مؤقف سے دستبردار ہو جائیں۔ اُس پر ڈٹے رہنا چاہیے اُسی انداز میں جس طرح تائیوان کے معاملے میں چین اپنے مؤقف پر کھڑا ہے۔ لیکن اُس مسئلے کے باوجود تائیوان سے تجارت چلتی ہے‘ تائیوان کے سرمایہ دار چین میں ہنوز انویسٹمنٹ کرتے ہیں۔ تجارت اور جنگ کی باتیں بیک وقت چلتی ہیں۔ ہمیں کس بلا نے کاٹا ہے کہ کشمیر حاصل کرتے کرتے جب موقع ملتا ہے اپنے پاؤں پر کلہاڑی چلا دیتے ہیں؟ بارڈر کو تجارت کیلئے بند کر دیا‘ اس سے ہمیں کیا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ مودی حکومت مقبوضہ کشمیر کا خاص مقام ہندوستانی آئین سے حذف کر دیتی ہے اور وزیراعظم عمران خان تجارت بند کرنے کا اعلان فرما دیتے ہیں۔ ہمارے نیتا ایسے فیصلے کیوں کرتے ہیں؟ کس پریشر میں آکر ایسے قدم اٹھائے جاتے ہیں؟ ملکی معاملات کا جائزہ لیں۔ سیاسی ماحول یہاں کا کشیدہ ہے۔ معیشت مانگے تانگے اور غیروں کی مہربانی پر چل رہی ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے حالات سے ہم آگاہ ہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ شورش زدہ علاقوں میں جھڑپ نہ ہو اور جانوں کا ضیاع نہ ہو۔ لیکن ہمارے ہاں اکثر یوں لگتا ہے کہ زیادہ زور مشقِ سخن پر رہتا ہے۔ اور یہ روایت تو اب پکی ہو چکی ہے کہ مشقِ سخن چلے تو ہندوستان کا ذکر ضروری ہے۔
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ افغانستان یا وسطی ایشیا سے مسلمان لشکر حملہ آور ہوتے تو اُن کی تعداد لاکھوں میں نہیں ہزاروں میں ہوتی۔ کتنی سلطنتیں اُنہوں نے قائم کیں‘ کتنی صدیوں تک شمال سے لے کر جنوب تک اور پنجاب سے لے کر بنگال تک ہندوستان پر راج کیا۔ لیکن جب پاکستان کے قیام کی باتیں ہونے لگیں تو پہلی بار یہ درس سننے کو ملا کہ ہندو اکثریت کے سامنے مسلمان بے بس ہوں گے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی جامع مسجد دلی میں 1947ء کی تقریر سن لیجئے‘ کس انداز سے مجمعے سے مخاطب ہیں کہ بزدلی کے دلائل کیوں سینوں سے لگائے ہوئے ہیں۔ چلیں وہ وقت گزر گیا‘ پاکستان معرضِ وجود میں آ گیا۔ تب تو بزدلی کی باتیں ختم ہونی چاہئیں تھیں۔ ہندوستان کی آبادی تب کیا تھی؟ چالیس کروڑ جن میں سے مسلمانوں کی تعداد دس کروڑ تھی‘ یعنی چار میں سے ایک۔ ہم تو یہ کہانیاں سنتے تھے کہ ایک مسلمان دس ہندوؤں کے برابر ہے اور یہاں جب تناسب تین اور ایک کا تھا پسپائی اور فنا ہونے کی باتیں ہونے لگیں۔
دنیا کو اپنی نظروں سے دیکھیں ہندوستان کے زاویے سے نہیں۔ امریکہ اور روس میں سرد جنگ چل رہی تھی تو امن اس لیے قائم رہا کہ دونوں اطراف ایٹمی ہتھیار تھے۔ ہونا تو یہاں بھی یہ چاہیے تھا کہ ایٹمی دھماکے ہوئے تو امن کی بات چلتی۔ کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور باقی بین الاقوامی سرحد پر فوجوں کی تعیناتی میں کمی ہوتی۔ ہتھیاروں کی دوڑ کو روکا جاتا۔ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سوچ بچار کی جاتی۔ لیکن ایٹمی دھماکے ہوئے اور ایک سال بعد ہی کارگل کی جنگ چھڑ گئی۔ اب یہ والا چار روزہ معرکہ ہوا ہے جس میں باہر کی مداخلت نہ ہوتی تو حالات بگڑ سکتے تھے۔ دونوں طرف ایٹمی صلاحیت کے ہونے سے جنگ کے امکانات ختم ہونے چاہئیں۔ کیفیت یہاں یہ ہے کہ فروغِ جنون کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔
میر تقی میر کا کیا فائدہ‘ دیوانِ غالب کس کام کا؟ فروغِ جنون کی جگہ فروغِ مے کی کوئی بات چلتی۔ گفتگو میں کچھ اسلوب آتا۔ شاعر بیچارے مر گئے کہتے کہتے کہ رنجش میں بھی سلسلۂ کلام جاری رہے۔ لیکن لگتا یہی ہے کہ ہمارے پلے کچھ نہ پڑا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں