"AYA" (space) message & send to 7575

آج اے کیو خان یاد آرہے ہیں

کبھی ڈاکٹر اے کیو خان کو اتنا بڑا دیوتا نہیں سمجھا تھا لیکن آج بہت یاد آ رہے ہیں۔ اٹامک انرجی کمیشن تو ہمارا پہلے بھی تھا لیکن اے کیو خان تھے جو ہالینڈ سے آئے اور ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹمی طاقت بننے کا راستہ دکھایا۔ بھٹو کی سمجھ اور دور اندیشی جانیے کہ بات سمجھتے ہی اُنہوں نے حامی بھرلی اور یوں ہمارا عسکری ایٹمی پروگرام شروع ہوا۔ ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ حاصل کرنے کیلئے بھٹو نے فرانس سے معاہدہ بھی کیا تھا لیکن امریکن پریشر بیچ میں آ گیا اور وہ معاہدہ ناکارہ ثابت ہوا۔ بھٹو کا کارنامہ یہ ہے کہ ایک طرف فرانس سے ایٹمی سلسلہ چل رہا تھا اور درپردہ گہرے اندھیروں میں اے کیو خان والے ایٹمی نسخے پر کہوٹہ میں کام شروع ہو گیا۔ اے کیو خان نے سینٹری فیوج کے ذریعے یورینیم کو بھاری کرنے کی ترکیب بتائی تھی۔ دنیا کی توجہ فرانس کے معاہدے پر رہی اور کہوٹہ میں سینٹری فیوج زوروں سے چلنے لگے۔ بھٹو تختہ دار پر چلا گیا لیکن دنیا کو کہوٹہ کے رازوں کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ یہ بھی ایک انوکھی بات ہے کہ ایٹمی طاقت بننے کا خواب دیکھنے والا تختہ دار پر گیا اور تختہ دار پر پہنچانے والے یعنی جنرل ضیا الحق نے اُس پروگرام کو پایۂ تکمل تک پہنچایا۔ مرکزی کردار البتہ ڈاکٹر اے کیو خان ہی تھا‘ وہ نہ ہوتے تو شاید ہم اس طغیانی میں غوطے کھاتے رہتے۔
یہ تمام باتیں ایران کے ایٹمی پروگرام کے تناظر میں یاد آ رہی ہیں۔ کتنے سالوں سے ہمارے ایرانی بھائی ایٹم کے راز افشاں کرنے میں لگے ہوئے ہیں لیکن ایٹمی قوت اُن کے ہاتھ ابھی تک نہیں آئی۔ کب سے لگے ہوئے ہیں‘ زمین میں کتنا نیچے جا کے اُنہوں نے ایٹمی تنصیبات تعمیر کیں۔ اگلے روز پڑھ رہا تھا کہ نتنز ایٹمی پلانٹ پر زیر زمین جو سیمنٹ استعمال کیا گیا وہ ایک خاص قسم کا تھا کہ حملے کی صورت میں محفوظ رہے۔ صرف اس حملے میں نہیں بلکہ پہلے بھی اُن کے کئی چوٹی کے ایٹمی سائنسدان اسرائیلی خفیہ تنظیم موساد کے ہاتھوں مارے گئے۔ ایرانیوں نے بھی وہی اے کیو خان والا سینٹری فیوج کا راستہ اپنایا۔ بہت حد تک اُنہوں نے یورنییم کو افزودہ بھی کر لیا لیکن وہ کیا کہتے ہیں لبوں اور پیالے میں فاصلہ رہا۔ اتنی جستجو کے بعد بھی وہ بم نہیں بنا سکے حالانکہ اُن کے ایٹمی سائنسدانوں کا معیار شاید ہم سے زیادہ ہو۔
یہ درست ہے کہ ایرانی قیادت نے ہمیشہ یہ کہا کہ وہ ایٹمی ہتھیار حاصل نہیں کرنا چاہتے۔ ایک طرف آپ اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور یہ بخوبی جانتے بھی ہیں کہ اسرائیل کے پاس بھاری ایٹمی ذخیرہ ہے اور ساتھ ہی ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے انکاری ہیں۔ جب شام سے لے کر لبنان تک اور وہاں سے حماس کی حمایت تک آپ سب کچھ کر رہے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہمیں ایٹمی ڈھال نہیں چاہیے تو یہ پرلے درجے کی معصومیت ہے یا بیوقوفی۔ لیکن اگر آپ کی خفیہ کوشش ہے کہ ایٹمی ہتھیار حاصل کریں پھر تو یہی کہا جائے گا کہ جتن آپ کے بہت تھے لیکن مقصد پورا نہ ہو سکا۔ اسی لیے تو اے کیو خان یاد آ رہے ہیں۔ ضیا الحق بھی معصومیت کا دعویٰ کرتے تھے لیکن درپردہ ایٹمی پروگرام پر کام جاری رہا۔ افغانستان میں امریکہ کے پُرزور حامی تھے لیکن ایٹمی پروگرام سے دست بردار نہ ہوئے۔ افغان جہاد ختم ہوا تو افغانستان میں امریکہ کو پاکستان کی ضرورت نہ رہی۔ اُس وقت پاکستان پر دباؤ ڈالا گیا کہ ایٹمی پروگرام پر کام روکا جائے نہیں تو پابندیاں لگ جائیں گی۔ ضیاالحق جا چکے تھے‘ صدر اُس وقت غلام اسحق خان تھے۔ اُنہوں نے اور فوجی سربراہ جنرل اسلم بیگ نے پابندیاں قبول کیں لیکن ایٹمی پروگرام ترک نہ کیا۔ بعد میں جب دھماکوں کا وقت آیا تو صدر بل کلنٹن نے بہت کچھ کہا لیکن وزیراعظم نواز شریف اور فوجی قیادت نے دھماکے کر دکھائے۔ اس کا مطلب ہے کہ لاکھ کمزوریاں سہی لیکن اتنے بھی ہم گئے گزرے نہیں۔
اپنے ملک کی جب کمزوریاں اور کوتاہیاں گننے بیٹھتے ہیں تو بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ بہت سی چیزوں میں ہم پرلے درجے کے نکمے بھی ہیں لیکن اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ دنیا بھر کی رکاوٹوں اور پابندیوں کے باوجود ایٹم بم تو ہمارے سائنسدانوں نے اے کیو خان کی قیادت میں بنا ہی لیا۔ اور ہم نے یہ بنایا اپنے کشکول کے سر پر کیونکہ ہمارے پاس تو کوئی تیل یا گیس کے ذخائر نہیں۔ جیسے مانگے تانگے سے یہاں کام چلتا ہے اُسی میں سے ہم اپنے ایٹمی پروگرام کیلئے پیسے اور وسائل نکالتے رہے۔
شمالی کوریا بھی ایسے ہی راستے پر چلا۔ تعداد کسی کو پتا نہیں لیکن یہی شنید ہے کہ اُن کے پاس آٹھ دس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ اور اسی سے امریکہ اور جاپان ڈرے ہوئے ہیں۔ شمالی کوریا پر کوئی حملے کی سوچتا بھی نہیں کیونکہ پتا ہے کہ کِم جانگ اُن نے حملے کی صورت میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے میں کوئی دیر نہیں لگانی۔ ایران ایٹم بم بنا لیتا‘ ایٹمی ہتھیاروں کا ٹیسٹ کر لیتا‘ تو اسرائیل کی جرأت نہ ہوتی اُس پر حملہ کرنے کی۔ اے کیو خان پہ جو الزام ہے کہ اُنہوں نے ایٹمی راز بیچے یا بانٹے‘ وہ کہا کرتے تھے (میں نے خود اپنے کانوں سے اُنہیں یہ کہتا سنا) کہ اسلامی دنیا کی بقا اسی میں ہے کہ ایک دو ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار آ جائیں۔ تب ایسی باتیں بکواس لگتی تھیں۔ ذاتی طور پر مجھے اُن کی یہ بات کبھی اچھی نہ لگی کہ میں نے پاکستان کا دفاع ناقابلِ تسخیر بنا دیا ہے۔ پاکستان کے دیگر مسائل دیکھ کر یہ بڑی کھوکھلی بات لگتی تھی۔ لیکن اگر دیکھا جائے کہ مسلم ممالک کے ساتھ پچھلے بیس بائیس سالوں میں کیا ہوا ہے تو اُن کی بات بہت ہی ٹھیک لگتی ہے۔
بیچارے کرنل قذافی کے ساتھ کیا ہوا؟ اپنی پچھلی روشوں کے حوالے سے وہ توبہ تائب ہو چکے تھے۔ امریکہ اور برطانیہ کی طرف اُنہوں نے دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہا۔ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے لیبیا کا دورہ بھی کیا۔ ڈاکٹر اے کیو خان پر بہت سے الزامات میں یہ الزام بھی تھا کہ لیبیا کے ایٹمی پروگرام کی مدد کی تھی اور سینٹری فیوج طریقے کے بلیو پرنٹ مہیا کیے تھے۔ کرنل قذافی نے اپنا پورا ایٹمی پروگرام ترک کر دیا۔ مغربی ممالک نے بغلیں بجائیں لیکن اُنہیں معاف نہ کیا۔ جسے عرب بہار کہتے ہیں وہ شروع ہوئی تو دیگر عرب ممالک کی طرح لیبیا میں بھی تھوڑی گڑبڑ شروع ہوئی۔ اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے برطانیہ اور فرانس نے امریکہ کی معاونت سے اور سکیورٹی کونسل کی ایک قرارداد کے زور پر لیبیا کے خلاف ہوائی حملے شروع کر دیے۔ یوں وہ ماحول پیدا ہوتا گیا جس سے باغیوں نے زور پکڑا اور کرنل قذافی کے دن تمام ہوئے۔ اُن کے قتل اور آخری لمحات کی تصویریں یوٹیوب پر موجود ہیں۔ دیکھیں تو لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ ایٹمی پروگرام سے کرنل قذافی کو کچھ حاصل ہو جاتا تو لیبیا پر حملے کی کسی کو جرأت نہ ہوتی۔
عراق تباہ‘ لیبیا تباہ اور اب شام کو بھی بالکل بے ضرر کر دیا گیا ہے۔ غزہ پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اور اسرائیل ہر طرف دندناتا پھر رہا ہے۔ اور جو مسلم ممالک تیل کی دولت سے مالا مال ہیں اُن کے اچھے دن گزر رہے ہیں۔ لیکن لگتا یہی ہے کہ بیشتر مسلم ممالک نے یہ اصول گلے سے لگا لیا ہے کہ عافیت امریکہ کی تابعداری میں ہے۔ ایران میں چلیں اتنی تو استطاعت ہے کہ اسرائیل پر جوابی حملے کر رہا ہے اور اُسے ایسا کرنا چاہیے۔ لیکن ایٹمی قوت حاصل کر لیتے تو یہ حالات پیدا نہ ہوتے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں