"AYA" (space) message & send to 7575

تجزیے چھوڑیں ایران پہ ناز بنتا ہے

جیسے حملے ایران پہ ہوئے‘ بیچ میں امریکہ بھی شامل ہو گیا۔ خواہش تھی کہ ایرانی حکومت ختم ہو اور اُس کا ایٹمی پروگرام تباہ ہو جائے۔ دونوں اہداف پورے نہیں ہوئے۔ اسلامی حکومت قائم اور کھڑی ہے اور اُس کے وجود کو کبھی خطرہ نہ تھا۔ اور جہاں تک ایٹمی پروگرام کا تعلق ہے فردو پر امریکی حملوں کی کوئی تصویریں نہیں آئیں جس سے اندازہ ہو سکے کہ اُس مقام کو امریکی بمباری کتنا نقصان پہنچا سکی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم اتنا تو کامیاب ہوا کہ صدر ٹرمپ کو ایرانی ایٹمی تنصیبات پر بمباری کرنے کیلئے تیار کر لیا۔ لیکن جو اس کا اصل مقصد تھا کہ امریکہ اس جنگ میں ملوث رہے اور ایران پر حملے کرتا رہے اُس میں اسرائیل کو واضح ناکامی ہوئی ہے۔ حملہ تو صدر ٹرمپ کر بیٹھا لیکن امریکہ میں اور خاص طور پر اپنے حمایتیوں کی طرف سے اُسے شدید تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ یہ صدر ٹرمپ کی سیاسی ہوشیاری کا ایک واضح ثبوت ہے کہ حملے کرکے قلابازی کھاتے ہوئے جنگ بندی کی طرف آیا۔ ساری معلومات تو ہمیں حاصل نہیں لیکن عالمی تبصروں میں یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ جب جنگ بندی کی خواہش واضح ہونے لگی تو اسرائیل کیلئے دوسرا راستہ نہ رہا اور جنگ بندی اُسے ماننی پڑی۔
لیکن ایسا بھی نہیں کہ اسرائیل صرف پریشر کی وجہ سے جنگ بندی پر آمادہ ہوا۔ یہ پہلی بار ہے اُس کی تاریخ میں کہ اُس کے شہروں اور رہائشی علاقوں پر ایسے حملے ہوئے۔ ایران پر تو حملے جاری رہے لیکن آخری دم تک جواباً اسرائیل پر میزائل گرتے رہے۔ اس جنگ میں اسرائیل کا دفاعی نظام کارگر تو رہا لیکن ایرانی میزائل اس دفاعی نظام کو چیرتے ہوئے اپنے اہداف پر پہنچتے رہے۔ کیا یہ تھوڑا نقصان ہے کہ تل ابیب میں اہم سرکاری تنصیبات ایرانی میزائلوں کے زد میں آئیں حتیٰ کہ موساد کے ہیڈ کوارٹر پر بھی مؤثر حملہ ہوا۔ بین گوریان ایئرپورٹ پر میزائل گرے۔ حیفہ کی بندرگاہ ایرانی میزائلوں کا نشانہ بنی۔ حیفہ کی آئل ریفائنری حملوں کی زد میں آئی۔ بَرشیبا جو کہ جنوب میں ہے وہاں تک ایرانی میزائل جا لگے۔
اس میں تو دو رائے نہیں کہ عسکری پلڑا اسرائیل کا بھاری تھا اور اس میں کوئی اچنبھا نہیں کیونکہ جس قسم کی امریکی امداد اسرائیل کو ملتی ہے اُس کا پلڑا بھاری ہونا ہی تھا۔ جدید ترین امریکی لڑاکا طیارے اسرائیلی ایئرفورس میں ہیں۔ پہلے دن سے اسرائیل نے ایران پر فضائی برتری قائم کر لی تھی۔ ایران کے پاس تو مقابلے کے لڑاکا جہاز ہیں ہی نہیں۔ لیکن ان سب چیزوں کے باوجود اپنے میزائل اثاثوں پر انحصار کرتے ہوئے ایران نے بھی اسرائیل کو خوب جواب دیا۔ صدر ٹرمپ کی بھی زبان بدلتی رہی۔ شروع میں تو اُنہوں نے کہا کہ ایران فوراً غیر مشروط طور پر شکست مان لے۔ لیکن آخر میں جب صدر ٹرمپ نے جنگ بندی کا اعلان کیا تو اسرائیل اور ایران دونوں کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ لچک ہو تو ایسی ہو۔
ایران نے کبھی اس خواہش کا اظہار نہیں کرنا کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے حصول میں لگا ہوا ہے لیکن اسرائیلی اور امریکی غنڈہ گردی کے بعد اتنی تو سمجھ ایرانی قیادت کو آ جانی چاہیے کہ جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ ہوتا تو اسرائیل نے ایران پر حملے کا کبھی سوچنا نہ تھا۔ اب ایرانی قیادت کو جیسے بھی ہو جوہری ہتھیاروں کی طرف تیزی سے جانا چاہیے۔ اسی میں اُس کی سلامتی ہے نہیں تو جو راہ اسرائیل نے اپنائی ہے کہ بلاوجہ ایران پر حملہ آور ہو جائے وہ آئندہ بھی ایسے کر سکتا ہے۔ جیسا کہ جب جی چاہے لبنان پر بمباری کر لیتا ہے اور جیسا کہ غزہ پر اسرائیلی حملے بدستور ہو رہے ہیں۔ کوئی بھی چھوٹی سی بات ہو تو اسرائیلی طیارے پھر سے تہران کی طرف اڑان بھر سکتے ہیں۔ ایسی غنڈہ گردی کو روکنے کیلئے ایران کو بغیر تامل کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی طرف جانا چاہیے۔ مغربی تسلط اور ٹھیکیداری بہت ہو چکی‘ کتنی مسلم ممالک کی تباہی ہو چکی ہے۔ عراق‘ لیبیا‘ شام اور دلی تمنا یہی تھی کہ ایران کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو۔ لیکن ایران ثابت قدم رہا اور مزاحمت کی ایک نئی تاریخ اُس نے رقم کی۔ ہمارے کیا فضول کے مسلکی جھگڑے رہتے ہیں۔ اس بارہ روزہ جنگ کے دوران دل میں یہی خواہش اٹھتی تھی کہ ہم جو مسلمان کہلاتے ہیں ہم سب میں ایران جیسی ہمت پیدا ہو جائے۔
ایک اور بات سوچنے کی ہے کہ جوہری ہتھیار ایران نے حاصل نہ کیے لیکن بیلسٹک میزائل پروگرام اُس کا بہت ہی آگے نکل چکا ہے۔ اس جنگ میں ایسے بیلسٹک میزائل استعمال کیے گئے جن کا اسرائیل کے پاس کوئی توڑ نہ تھا۔ ان میں سے کچھ ہائپر سونک میزائل بھی تھے جن کے سامنے اسرائیلی دفاعی نظام بے اثر ثابت ہوا۔ اس کا مطلب ہے کہ ایران کے پاس وہ سائنسی دماغ تو ہیں جنہوں نے میزائل پروگرام کو اتنی تقویت پہنچائی۔ اور یہ تو دورانِ جنگ بھی کہا جاتا رہا کہ ایٹمی اثاثوں کو نقصان ہوا بھی تو جوہری سوچ یا جوہری دماغ جو ایران کے پاس ہیں وہ تو ختم نہیں ہوں گے۔ اور یہاں تو یہ بات بھی سامنے آ رہی ہے کہ امریکی حملوں سے پہلے ایران فردو اور دوسرے مقامات سے افزودہ میٹریل پہلے سے ہی دوسرے مقامات پر منتقل کر چکا تھا۔ تو پھر اسرائیل اور امریکہ نے اس بدمعاشی کے نتیجے میں کیا حاصل کیا؟
اب تو موقع پاتے ہی ایران کو نیوکلیئر عدم پھیلاؤ معاہدے سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے۔ عالمی ایٹمی تنظیم IAEA کے انسپکٹروں کو ایران میں کبھی داخل نہیں ہونے دینا چاہیے۔ اس لحاظ سے پاکستان سمجھدار رہا‘ این پی ٹی پر کبھی دستخط نہیں کیے اور آئی اے ای اے کے انسپکٹروں کو پاکستان آنے کا تو کبھی سوال پیدا نہ ہوا۔ ہم کہیں اس چکنی زمین پر آ جاتے تو کہیں کے نہ رہتے۔ آئی اے ای اے کا نرغہ ایسے ہوتا کہ ہمارا ایٹمی پروگرام کبھی پایۂ تکمیل نہ پہنچتا۔
امن کے فلسفے کوئی جھاڑتا رہے اب تو کسی شک کی گنجائش نہیں رہی کہ کمزوروں کیلئے اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔ جو ملک اپنا دفاع نہیں کر سکتا وہ اوروں کے رحم و کرم پر رہ جاتا ہے۔ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی استطاعت ہونی چاہیے اور بازو اپنے مضبوط ہونے چاہئیں۔ البتہ ایک بات یہ بھی ہے کہ طاقت اور آزادی کا ساتھ ساتھ ہونا ضروری ہے۔ شمالی کوریا نے اپنا دفاع ناقابلِ تسخیربنا لیا ہے لیکن اُس ملک میں کوئی رہنا چاہے گا؟ اسرائیل کی یہ خاصیت ہے اور ہم مسلمانوں کو اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اپنے تمام بیرونی جرائم کے باوجود اسرائیل کے اندر یہودی آبادی کیلئے جمہوریت موجود ہے۔ یہ ہم تمام مسلم ممالک کیلئے نہیں کہہ سکتے۔ جمہوریت کی جستجو میں ہم اتنے کامیاب نہیں ہوئے اور ہماری اجتماعی کمزوری کی ایک بڑی وجہ یہ ہے۔ الجزیرہ پر ایک اسرائیلی تجزیہ کار کے خیالات سن رہا تھا۔ جس طریقے سے اپنے ہی ملک کو تنقید کا نشانہ بنا رہا تھا بیشتر اسلامی ممالک میں ایسا ممکن نہیں ہو گا۔ آزادیٔ فکر اور آزادیٔ سوچ جہاں نہ ہو وہاں کیا رہ جاتا ہے؟
خاص طور پر پاکستان میں ہمیں اس پہلو پر غور کرنا چاہیے۔ دیگر ممالک کی تاریخ جیسی بھی ہو ہماری تاریخ ایک جمہوری ارتقا سے منسلک ہے۔ جمہوریت کے اصول ہم نے خود نہیں سیکھے لیکن ہمارا تاریخی تجربہ ایسا تھا کہ یہ چیزیں ہمارے نوآبادیاتی ورثے کا حصہ بن گئیں۔ ہم دیگر تجربوں کے لائق بھی نہیں۔ یہاں کسی بادشاہت نے قائم نہیں ہونا۔ طالبان طرز کی حکومت ہمارے مزاج کے مطابق نہیں۔ ہمیں تو ایک ماڈرن پروگریسو مسلم ملک کی طرح آگے بڑھنا چاہیے تھا۔ ایسا ہم کر نہ سکے اور یہ ہمارا تاریخی المیہ ہے۔ پر چلیں مستقبل آگے پڑا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں