"AYA" (space) message & send to 7575

گستاخی اور وہ بھی کس کی شان میں

زیرِ عتاب جماعت ہو کے رہ گئی ہے۔ عتاب بھی ایسا کہ ختم ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اور تو اور ہمارے دوست ملک احمد خان سپیکر پنجاب اسمبلی کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہو رہا۔ اسی جماعت کے 26 ارکان کے خلاف کارروائی کی ٹھانی ہوئی ہے اور ان کی نااہلی کی درخواست الیکشن کمیشن کو ارسال کی ہے۔ جرم ان ممبران کا یہ کہ چیف منسٹر پنجاب ہر دلعزیز مریم نواز اسمبلی میں تقریر کرنے اُٹھیں تو ان ممبران نے مبینہ طور پر شور شرابا کرنا شروع کر دیا۔ یہ کارروائی اس ناقابلِ معافی جرم کی پاداش میں ہو رہی ہے۔ یہ جاننا ذرا مشکل ہے کہ ملک صاحب اپنی تسکین کیلئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں یا کسی کو خوش کرنے کیلئے۔ ایسے مسائلِ تصوف کے بارے میں حتمی رائے دینا مشکل ہو جاتا ہے۔
ہماری اسمبلیوں میں شور شرا با کوئی نئی بات نہیں۔ ایسا ہوتا رہا ہے لیکن کسی سپیکر نے ایسی کارروائی نہ کی۔ لیکن ملک صاحب ہیں کہ غصہ ٹھنڈا ہی نہیں ہو رہا اور موقع ملنے پر اس کارروائی کا جواز پیش کر رہے ہیں۔ اُن کے انداز سے تو یوں لگتا ہے کہ برصغیر کی پارلیمانی تاریخ میں کبھی ایسا جرم سرزد ہوا نہیں اور یہی 26 سرکش اور قابلِ سزا ممبران ہیں جنہوں نے ایسی غلطی کی۔ مانا کہ ہر دلعزیز چیف منسٹر ہوں اور اُن کی شان میں ایسی گستاخی‘ جرم تو واقعی سنگین بنتا ہے۔ لیکن نااہلی کیلئے الیکشن کمیشن پہنچ جانا کچھ زیادہ نہیں لگتا؟ الیکشن کمیشن سے البتہ انصاف کی توقع ہی کی جا سکتی ہے بالکل اُنہی پیمانوں کا انصاف‘ جو پچھلے عام انتخابات میں دیکھا گیا۔ انصاف کا وہی اعلیٰ معیار رکھا گیا تو ان 26 ارکان کی خیر نہیں۔ بہرحال توقع کرنی چاہیے کہ جس سنہری دور سے ملک گزر رہا ہے انصاف اور قانون کی حکمرانی کی اتنی عمدہ مثالیں قائم ہو چکی ہیں کہ شاید ایک اور ایسی مثال سے اجتناب کیا جائے۔
چیف منسٹرصاحبہ کی شان میں گستاخی اپنی جگہ لیکن اس موقع پر پوچھا جا سکتا ہے کہ پارلیمانی کارروائیوں میں بدتمیزی کا رجحان اور تقریروں میں خلل ڈالنے کی روایت کہاں سے پیدا ہوئی؟ اگر ناقص حافظے پر تکیہ کیا جائے تو پارلیمانی غل غپاڑے کی اصل موجد ہم سب کی پیاری (ن) لیگ کے علاوہ کوئی اور جماعت نہیں۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے 1988ء میں وزیراعظم کیا بننا تھا کہ اُن کی سیاسی حیثیت نہ اُس وقت کے صدر یعنی غلام اسحاق خان ہضم کر سکے نہ اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ جس کے سربراہ جنرل اسلم بیگ تھے۔ مجبوری تو اس لحاظ سے بنی کہ جنرل ضیاالحق کا اچانک بہاولپور میں ہوائی حادثہ ہوا اور یوں قومی انتخابات کرانے ناگزیر ہو گئے۔ مرحوم جنرل صاحب نے جونیجو اسمبلی کی برخاستگی کے بعد قومی انتخابات کو التوا میں رکھا ہوا تھا لیکن جب جنرل صاحب گئے تو اُن کی جگہ پر آنے والے صدر کیلئے انتخابات کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا۔ لاکھ جتن کیے گئے لیکن آنے والی قومی اسمبلی میں بے نظیر بھٹو کو اکثریت حاصل ہو گئی اور وہ وزیراعظم بن گئیں۔ پنجاب میں بھی زیادہ سیٹیں پیپلز پارٹی کی تھیں لیکن اُسے اکثریت حاصل نہیں تھی۔ آزاد ارکان کی تعداد تیس‘ بتیس تھی اور اُن کو اپنی طرف کرنے میں میاں نواز شریف کامیاب ہو ئے۔ پیچھے ظاہر ہے اسٹیبلشمنٹ کا بھی زور تھا اور یوں وہ وزیراعلیٰ پنجاب پھر سے منتخب ہو گئے۔
بے نظیر بھٹو وزیراعظم تو بن گئیں لیکن صدر صاحب اور اسٹیبلشمنٹ اُن کے گرد جتنا گھیرا تنگ کر سکتے تھے اُنہوں نے ایسا کیا۔ پنجاب میں میاں صاحب اور اُن کی حکومت نے پی پی پی کے خلاف باقاعدہ مورچے سنبھال لیے۔ ہمارے دوست حسین حقانی جنہوں نے اب امریکہ میں عافیت ڈھونڈ لی ہے‘ میاں صاحب کے خاص مشیروں میں تھے اور اُنہوں نے اطلاعات کا پُرخار کام سنبھالا ہوا تھا۔ کون سا طوفانِ بدتمیزی تھا جو پیپلز پارٹی کے خلاف کھڑا نہ کیا گیا ۔ زہر پھیلانے کے ایسے ریکارڈ قائم کیے گئے جن کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ قومی اسمبلی میں (ن) لیگ کے ممبران وہ کچھ کرنے لگے جس کا ملک احمد خان سوچ بھی نہیں سکتے۔ کبھی کبھار اسمبلی کی کارروائی دیکھنے جاتے تو پتا چلتا کہ (ن) لیگی ارکان کیا گُل کھلا رہے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ اُنہوں نے بے نظیر بھٹو کا جینا حرام کر دیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ بے نظیر بھٹو میں بڑا حوصلہ اور ٹھہراؤ تھا اور اسمبلی میں تقریر کرنے کھڑی ہوتیں تو احساس ہوتا کہ کم عمری کے باوجود اُن کی تقریر میں کتنا اثر ہے۔
اپنی پہلی مدتِ اقتدار میں تو بے نظیر بھٹو (ن) لیگ کے حوالے سے بے بس ہی رہیں۔ لیکن جب دوبارہ 1993ء میں اقتدار میں آئیں تو پھر (ن) لیگ کا علاج ایک نئے انداز سے کیا گیا۔ پنجاب کے گورنر چوہدری الطاف حسین ہو چکے تھے۔ پہلا ہاتھ قبلہ شیخ رشید احمد پر ڈالا گیا جن کی زبان جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں‘ اسمبلی میں بہت ہی چلتی تھی۔ اُن پر ایک کلاشنکوف ڈالی گئی اور اُنہیں قید کاٹنے بہاولپور جیل منتقل کیا گیا۔ اس کارروائی کے اثر کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ جیل میں بیٹھے سوانح عمری لکھنے لگے اور جیل سے باہر آئے تو اُن کے تیور خاصے بدلے ہوئے تھے۔ دو اور (ن) لیگی ممبرانِ اسمبلی تھے‘ ایک طاہر رشید اور دوسرے کا نام میں بھول رہا ہوں‘ جو اسمبلی میں تمام حدیں پھلانگ جاتے تھے۔ ان دونوں حضرات کا علاج یوں ہوا کہ اسمبلی ہال سے باہر نکلے تو لابی میں ہی پی پی پی جیالوں کا ایک تیار جتھا اُن پر ٹوٹ پڑا اور سب کے سامنے اُن کی وہ بازپرس کی کہ الامان الحفیظ۔ لابی میں وہ آوازیں گونجیں جو پہلے کسی نے وہاں نہ سنی ہوں گی۔ یہ ہمارا اپنا مشاہدہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد ان دونوں معزز ارکان نے شکایت کا کبھی موقع نہ دیا۔ عرض کرنے کا مطلب یہ کہ ملک احمد خان کن بھول بھلیوں میں پڑ گئے ہیں۔ اس مسئلے پر جو تیور دکھا رہے ہیں لگتا ہے کہ وہ اتنے معصوم ہیں کہ اُنہیں کچھ پتا ہی نہیں‘ ہماری درخشاں پارلیمانی تاریخ کے بارے میں کچھ جانتے ہی نہیں۔
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا
یہاں تو فقط پارلیمانی کارروائی کی بات ہو رہی ہے حالانکہ غیر جانبداری کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود جس جماعت سے وہ وابستہ ہیں اور جس جماعت سے پرانے وقتوں میں ہمارا واسطہ بھی رہا اُس جماعت نے اپنی جوانی کے ایام میں سپریم کورٹ میں ایسے جھنڈے گاڑے کہ اُس کی نظیر پاکستانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ آج کل کے حکمران تو بڑے نفیس طبع کے لوگ ہیں۔ انہو ں نے تو قانونی راستہ اپنایا ہے‘ اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے چھبیسویں آئینی ترمیم پاس کروائی ہے۔ جوانی کی (ن) لیگ نے تو لاہوری ناشتہ کھلوا کر منگالی کے جتھوں کو چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت پر چڑھا دیا تھا۔ اُس پر کچھ نہ ہوا۔ حملہ آوروں میں نامی گرامی اشخاص بھی تھے۔ اُن کا نام کیا لینا شرم وحیا بھی آخر کچھ ہوتا ہے۔ سارا ملک ان نامی گرامی اشخاص کی شناخت رکھتا تھا لیکن سپریم کورٹ کے ایک معزز جج کی سربراہی میں جو ٹربیونل بنا وہ کسی کی شناخت نہ کر سکا۔ رائل پام کی دعوت سے ہم خاصے دنوں سے محروم ہیں کہاں ہیں سپوتِ ملت علی احمد ڈھلوں‘ سی پی این ای کے نامور صدر کاظم خان۔ دعوت کا اہتمام کریں ‘ روح افزا سے تواضع کریں اور ملک احمد خان بھی مدعو ہوں۔ اُن سے استدعا کی جائے کہ کارروائی ڈل چکی‘ حب الوطنی کی مہر ثبت ہو گئی‘ اب بے قابو گھوڑوں کو لگام ڈالنا ہی بہتر لگے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں