ہم بارشوں اور چینی سکینڈل میں پھنسے ہیں۔ کیا موسم یہاں کا بنتا جا رہا ہے‘ گرمی شدت کی اور اب بارشیں اتنی کہ زندگی میں پہلی بار ساون سے ڈر آنے لگا ہے۔ چینی سکینڈل کے کردار اتنے طاقتور نہیں جتنی ہماری حکومتیں نالائق۔ مرضی کی برآمد‘ مرضی کی درآمد اور مرضی کی قیمتیں۔ ضیاالحق کا زمانہ تھا جب بڑے سیٹھوں اور سیاستدانوں نے چینی کارخانوں کو بہترین ذریعۂ معاش سمجھا۔ صورتحال اب یہ کہ ہر رنگ کا سیاستدان چینی مینوفیکچرر بنا ہوا ہے۔ اور قوم ہے کہ اس کا چینی کے بغیر گزارا نہیں۔ گُڑ کو عام کیا جائے اور چینی سے جان چھڑائی جائے۔ سکینڈل سے زیادہ یہ تماشا ہے جس کے سامنے قوم بے بس لگتی ہے۔
یہ تو یہاں کے دردِ سر‘ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کسی اور چیز میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایک ہفتے سے امریکہ میں بڑی سرخیاں ایک پرانے سکینڈل کے گرد گھوم رہی ہیں۔ جیفری ایپسٹین (Jeffrey Epstein) کیا کریکٹر تھا۔ پیسے والا‘ طاقتور لوگوں سے وسیع پیمانے پر تعلقات لیکن شوق ذرا عجیب سے۔ عاشقانہ مزاج تو تھا ہی لیکن نظریں کم عمری کی طرف مائل ہوتیں۔ امریکہ میں بالغ عمری اٹھارہ سال سمجھی جاتی ہے اور اس سے جہاں کم عمر ہو اور پیسے کا لین دین ثابت ہو تو وہ جرم گِنا جاتا ہے۔ ایپسٹین کے بارے میں کم عمری کا رجحان کافی عرصہ پہلے پتا چل چکا تھا۔ 2005-06ء میں فلوریڈا میں اُس پر کیس بھی چلا لیکن اپنے تعلقات کی بنا پر اسے بہت نرم سزا ملی اور جیل نہ جانا پڑا۔
خیال رہے کہ ایپسٹین کے جاننے والوں میں سابق صدر بل کلنٹن‘ ڈونلڈ ٹرمپ‘ برطانیہ کے شہزادہ ایڈورڈ شامل تھے۔ نیویارک میں عالی شان مکان‘ پام بیچ فلوریڈا میں شاندار رہائش‘ پھر باہاماز (Bahamas) میں اپنا ذاتی جزیرہ۔ سفر کیلئے ذاتی جہاز‘ جو طاقتور اور امیرکبیر مہمانوں کے استعمال میں آتا۔ فلوریڈا والا کیس تو ختم ہو گیا لیکن وہیں کے ایک اخبار میامی ہیریلڈ (Miami Herald) نے ایک تفتیشی رپورٹ شائع کی جس میں ایک لمبی فہرست کم عمر لڑکیوں کی سامنے آئی جن کے بارے میں کہا گیا کہ وقتاً فوقتاً ایپسٹین کے نرغے میں پھنستی رہیں۔ ساتھ ہی ایپسٹین کی ساتھی کا ذکر آیا‘ گیسلین میکسویل (Ghislaine Maxwell)جو مشہور برطانوی پبلشر رابرٹ میکسویل کی بیٹی تھی اور جس کے بارے میں پتا چلا کہ ایپسٹین کے ساتھ تعلقات کے علاوہ کم عمر لڑکیوں کو ورغلانے میں اُس کا کلیدی کردار تھا۔
اپنے زمانے میں میکسویل لندن کی ایک مشہور شخصیت تھی۔ دیگر کاموں کے علاوہ ڈیلی مِرر کا مالک تھا۔ پارلیمنٹ کا ممبر بھی رہا اور پیسے کے خوردبرد کے لحاظ سے ایک فراڈیے کے طور پر مشہور ہوا۔ یہودی تھا اور اب یہ بات مستند ہے کہ اُس کے تعلقات اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے ساتھ ہمیشہ سے تھے۔
ایپسٹین کے پاس پیسہ بہت تھا لیکن آج تک لوگوں کو صحیح اندازہ نہیں ہو سکا کہ پیسہ آیا کہاں سے۔ اُس کی بالغ زندگی سکول ٹیچری سے شروع ہوئی اور پھر ادھر اُدھر تعلقات کی بنا پر بڑے لوگوں سے رابطے ہوئے اور کسی طریقے سے وہ بہت مالدار ہو گیا۔ بہرحال بدقسمتی اُس کی یہ کہ سب کچھ اُس کا ٹھیک چل رہا تھا لیکن 2019ء میں اُس کے خلاف ایک کیس نیویارک میں بن گیا۔ یعنی جو کھاتہ فلوریڈا میں بند ہو گیا تھا وہ نیویارک میں پھر سے کھل گیا۔ اپنے جہاز پر پیرس گیا ہوا تھا۔ وہیں ٹھہر جاتا تو اُس تک کوئی ہاتھ نہ پہنچ سکتا تھا لیکن نیویارک کے مقدمے کا اُسے کچھ علم نہ تھا۔ پیرس سے نیویارک آیا اور لینڈ ہوتے ہی وفاقی ایجنٹوں نے دبوچ لیا۔ ایک طوفان برپا ہوا‘ سرخیاں لگیں اور نیویارک کی ایک سخت گیر قسم کی حوالات میں ایپسٹین بند ہو گیا۔ قید کی ایک شرط یہ تھی کہ اُس پر کڑی نگرانی رکھی جائے گی۔ اُس کے کمرے میں ایک اور قیدی بھی تھا لیکن ایک دن قیدی وہاں سے ہٹا دیا گیا اور دوسری رات خبر آئی کہ اپنے حوالاتی کمرے میں بستر کی چادر کی مدد سے ایپسٹین نے خودکشی کر لی ہے۔ تفتیش میں پتا چلا کہ نگرانی کے بجائے راہداری میں جو دو گارڈ موجود تھے‘ سو رہے تھے۔ کمرے والا ساتھی پہلے ہی نکال دیا گیا تھا۔ ان سب شواہد کی بنا پر افواہیں گردش کرنے لگیں کہ یہ خودکشی نہیں تھی‘ ایپسٹین کا قتل ہوا ہے۔ وجہ یہ بیان کی گئی کہ ایپسٹین بہت کچھ جانتا تھا۔ طاقتور لوگوں کے بارے میں راز اُس کے سینے میں دفن تھے۔ اس لیے اُسے راستے سے ہٹانا ضروری تھا۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ دس سال سے زائد تک ڈونلڈ ٹرمپ اور جیفری ایپسٹین کی دوستی نہیں بلکہ یاری رہی۔ نیویارک میں ایک جانا مانا لکھاری مائیکل وولف (Michael Wolff) ہے۔ ایک پوڈ کاسٹ میں اُسے یہ کہتے میں نے سنا کہ دونوں کی دوستی ایسی تھی کہ مل کر نسوانی شکار کیا کرتے تھے۔ دوستی سے ٹرمپ نے کبھی انکار نہیں کیا لیکن ساتھ یہ کہا کہ دوستی پھر ختم ہو گئی تھی۔ یہ ریکارڈ پر ہے کہ پام بیچ کی ایک پراپرٹی کی خریداری پر دونوں کی اَن بن ہوئی تھی اور پھر بقول ڈونلڈ ٹرمپ کے ان کی دوستی نہ رہی۔
مسئلہ البتہ یہ بنا کہ صدارتی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک دو بار کہا کہ ایپسٹین کیس کی تمام فائلوں کو منظرعام پر لایا جائے گا۔ صدر ٹرمپ کی سیاسی تحریک کا ایک نام ہے‘ میگا(MAGA)‘ Make America Great Again۔ اس میگا تحریک نے ہی ٹرمپ کو دوبارہ وائٹ ہاؤس پہنچایا اور اس تحریک کو دورانِ مہم باور کرایا گیا تھا کہ ایپسٹین کیس میں جو گھناؤنے راز ہیں ان کو افشا کیا جائے گا۔ لیکن صدر بن کے وہ راز افشا نہ ہوئے اور پھر صدر ٹرمپ بیک فٹ پر چلے گئے اور کہنے لگے کہ اس کیس میں کوئی ایسی بات نہیں‘ ہمیں آگے کا سوچنا چاہیے۔ لیکن میگا تحریک کے جوشیلے حامیوں کو یہ وضاحت اچھی نہ لگی اور اُن میں اس خیال نے زور پکڑا کہ ضرور کچھ ہے جس کی پردہ داری کی جا رہی ہے۔ یہ پریشر ایسا تھا جسے وائٹ ہاؤس نے محسوس کیا اور پھر مجبوراً محکمہ انصاف (Department of Justice) کو نیویارک کی ایک عدالت میں درخواست دائر کرنی پڑی ہے کہ ایپسٹین کیس کی گواہیاں اور دیگر مواد جو عدالت میں پیش کیا گیا تھا‘ اُسے منظرعام پر لانے کی اجازت ملے۔
لیکن وہ کیا کہتے ہیں کہ بارش ہوتی ہے تو رکنے کا نام نہیں لیتی‘ اسی اثنا میں روپرٹ مرڈوک (Rupert Murdoch) کی وال سٹریٹ جرنل میں خبر شائع ہوئی کہ 2003ء میں ایپسٹین کے جنم دن کے موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایپسٹین کو برتھ ڈے کارڈ بھیجا تھا جس میں ہاتھ سے بنی ہوئی ایک واہیات قسم کی ڈرائنگ تھی۔ اس پر وائٹ ہاؤس آگ بگولہ ہو گیا ہے اور ٹرمپ نے وال سٹریٹ جرنل اور روپرٹ مرڈوک کے خلاف ہتکِ عزت کا دس بلین ڈالر کا سوٹ فائل کر دیا ہے۔ امریکہ کا سب سے بڑا ٹی وی چینل فاکس نیوز روپرٹ مرڈوک کا ہی ہے اور اب تک روپرٹ مرڈوک کی ساری میڈیا ایمپائر ڈونلڈٹرمپ کی پُرزور حامی رہی ہے۔ یوں سمجھیے کہ اس ایمپائر اور ٹرمپ کے درمیان نفاق کی یہ پہلی نشانی ہے۔
ہر طرف محاذ کھولنا تو ایک بات رہی لیکن کوئی بھی سربراہ یا لیڈر ان کاموں میں پڑ جائے تو اس کی سیاسی توانائیاں بکھرنے لگتی ہیں۔ ملاحظہ ہوں سیاست کے نشیب و فراز۔ ہفتہ پہلے لگ رہا تھا ٹرمپ ہرچیز پر حاوی ہیں۔ آج یہ گزرا ہوا سکینڈل ان کی جان کو پڑا ہوا ہے۔