فریدہ خانم کا کبھی پرستار نہ تھا۔ مقبولِ عام گانے اُن کے تو سب جانتے ہیں لیکن اس عمر میں آ کے اُن کی گائیکی کا صحیح اندازہ ہوا اور پھر اپنے پہ رونا آیا کہ ساری عمر اگر ایسے فنکار کو نہیں سمجھ سکے تو اپنا وقت پھر برباد ہی کیا۔ جب سے اُن کی کچھ غزلیں ڈاؤن لوڈ کی ہیں‘ مقبولِ عام والی نہیں بلکہ اُن کی اصل غزلیں‘ تو سچ پوچھیے نیند میں جانے کیلئے اُن کی کسی غزل کو سننا لازمی ہو گیا ہے۔ بتاتا ہوں کون سی یہ غزلیں ہیں: طوفان بہ دل ہے ہر کوئی دلدار دیکھنا‘ کچھ اور گم رہیے‘ لطف وہ عشق میں پائے ہیں‘ مٹ گیا ذوقِ یقین‘ نہ روا کہیے‘ ہجر کی رات‘ یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو وقفِ اضطراب۔
احساس ہے کہ یہ اعتراف کرکے اپنی لاعلمی کا اظہار ہو رہا ہے۔ میں نے ان غزلوں کا ذکر ایسے کیا ہے کہ کہیں آسمانوں میں چھپی ہوئی تھیں حالانکہ اہلِ ذوق یا جاننے والے فریدہ خانم کی اس گائیکی سے بخوبی واقف ہوں گے۔ لیکن یہاں تو بیان اپنا ہے کہ وقت کا ضیاع کیسے ہوا کہ جن چیزوں کے بارے میں جانکاری بہت پہلے ہونی چاہیے تھی وہ اب ہو ر ہی ہے جب شام کا وقت اتنا دور نہیں رہا۔ اور یہ احساس صرف اس حوالے سے نہیں ہے جس کا ذکر کیا ہے بلکہ ذہن میں کتابوں کے نام آتے ہیں تو کتنی کتابیں ہیں جو تمنا رکھتے ہوئے بھی گرفت میں نہ آ سکیں۔ ایسی فہرست بنانے کا کیا فائدہ حالانکہ اگر حساب کے قابل سمجھے گئے تو ہم سے یہ پوچھا جائے گا کہ وقت اتنا میسر ہوا اور اتنا کچھ بھی نہ پڑھ سکے۔ گاؤں میں جو الماری کتابوں کی ہے اُس کے سامنے بیٹھا تھا تو اچانک نظر پڑی ممتاز ہندوستانی شاعر گلزار کی کتاب پر جو اُنہوں نے غالب پر لکھی ہے۔ انگریزی ترجمے میں ہے اور یہ دِلی سے خریدی گئی تھی۔ اتنی عمدہ اشاعت ہے اور کچھ ہفتے پہلے میں رو رہا تھا کہ دیوانِ غالب کی کوئی اچھی جِلد ہاتھ نہیں آ رہی۔ گلزار صاحب کی کتاب اور نوعیت کی ہے لیکن غالب پر تو ہے۔ یعنی اپنی ڈیوڑھی میں چراغ اور اُس کے نیچے اتنا اندھیرا۔
آئے روز یوٹیوب پر اچانک سے کوئی موسیقی مل جاتی ہے اور سننے میں مزہ تو آتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ احساس جنم لیتا ہے کہ آرٹ‘ موسیقی اور لٹریچر کا نہ ختم ہونے والا سمندر اور ہم اُس میں ہاتھ بھی نہ ڈال سکے۔ اب دل چاہتا ہے کہ دنیا کے جھمیلوں کو ایک طرف رکھ کرجو دل کے ارمان ساری عمر پالے ہیں اُنہی کو پورا کیا جائے۔ کتب بینی ہو‘ موسیقی ہو اور کسی اور چیز کی طرف دھیان نہ ہو۔
ویسے بھی ایسے مشاغل کیلئے حالات سازگار ہیں۔ قلم کے ذریعے جو مزدوری ہوا کرتی تھی عموماً سیاسی موضوعات پر ہوتی تھی۔ اب اللہ کا کرم سمجھیے کہ اس مملکتِ خداداد میں سیاست ایسی پھیکی پڑ چکی ہے یا اُسے اتنا پھیکا کر دیا گیا ہے کہ کوئی لکھے بھی تو کیا لکھے۔ ساتھ ہی یہ اقرار بھی ضروری ہے کہ کوتوالِ شہر یا کوتوالِ زمانہ کے قدموں کی آہٹ بھی ایسی ہے کہ احتیاط لازم ہو جاتی ہے۔ گزرے زمانے کچھ اتنے شاداب نہ تھے لیکن پھر بھی اُن میں کسی حد تک قلم کی زور آزمائی ہو جایا کرتی تھی۔ اب احساسِ کوتوال کچھ ایسا ہے کہ چلتے ہاتھ رک جاتے ہیں‘ زبان خود ہی زبان بندی کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ پوری ایک ڈکشنری ہے لفظوں کی جو استعمال میں نہیں لائی جا سکتی۔ ایسے میں پھر یہی کام بنتا ہے کہ گائیکی کے جو نکھار ہم جان نہ سکے اُن کی جستجو میں انسان مگن ہو جائے۔ کسی اور یاترا کی ہمت کبھی تھی نہ اب ہے۔ پاکپتن نہیں گئے‘ وہاں جانا چاہیے۔ بابا فریدالدین گنج شکر کی شاعری کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ گاؤں کے ایک میز پر برسوں سے وارث شاہ کی ہیر کا ایک نہایت خوبصورت ایڈیشن پڑا ہوا ہے۔ کبھی کوئی شعر پڑھ لیا لیکن جسے صحیح پڑھنا کہتے ہیں وہ اب تک نصیب نہیں ہوا۔ یہ سوال نہیں ہوگا کہ ہیر تمہارے سامنے پڑی رہی اور اُس کے رموز میں تم جا نہ سکے؟
اپنی کمزوری اپنی جگہ لیکن یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ علم و ادب کے حوالے سے جو ماحول اس دھرتی پر ہونا چاہیے تھا وہ ہم پیدا نہیں کر سکے۔ یا شاید حقیقت یہ ہے کہ ہم پیدا ہی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ علم و ادب کی جستجو کے بجائے ہم اور چیزوں میں پڑ گئے۔ علم کی تلاش کے بجائے پہلے سے تراشے ہوئے نظریے ناپختہ ذہنوں پر سوار کیے گئے۔ علم و ادب کا جو ہوا سو ہوا‘ نظریات کی جھنکار آج تک اس دیس سے ختم نہ ہو سکی۔ جب پوری دھرتی کا یہ عالم تھا تو ہماری کم علمی‘ لاعلمی کے اس بھرے بازار میں کیا معنی رکھتی ہے؟ جہاں اتنا کچھ برباد ہوا وہاں فریدہ خانم کی غزلوں کو نہ سمجھے تو کیا ہوا۔
اتنی سوچ البتہ ذہن میں اٹھتی ہے کہ تاریخ کے اعتبار سے ہندوستان پرانا ملک تھا‘ ہمارا تو ایک نیا نویلا ملک تھا۔ کتنا کچھ اس میں ہو سکتا تھا۔ نیا ملک تھا تو نیا جذبہ اور جنون بھی ہوتا۔ علم اور نئی سوچ کا گہوارہ ہوتا۔ لیکن پہلے سے تراشے ہوئے خیالات کی زنجیریں کچھ ایسی طاقت رکھتی تھیں کہ نئے دیس کے ذہن جہاں آزادی کی ہوا میں اڑان لیتے وہ اُن زنجیروں میں ہی جکڑے رہے۔
اس دیس کی تاریخ میں لمبے ادوار گزرے ہیں جن میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وقت کے پہیے رک گئے ہیں۔ سوچ کی رفتار منجمد ہو گئی ہے۔ ایوب خان کا دور ایسا تھا‘ اظہار کے ہر ذریعے پر تالا لگا ہوا تھا۔ ضیا الحق کا دور بھی ایسا تھا‘ سیاست اس طرح سے رکی ہوئی جیسے کسی سرد خانے میں ڈال دی گئی ہو۔ سوچ کے ہر دریچے پر پہرے لگائے گئے ہوں۔ جیسے عرض کیا وہ لمبے ادوار تھے۔ موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ کوتوالی کی چھاپ اتنی جامع اور گہری ہوتی جا رہی ہے کہ نارمل حالات میں جو امید کی کرنیں زندہ دکھائی دیتی ہیں وہ کہیں نظر نہیں آتیں۔ ایسا لگتا ہے کہ خاص و عام نے مستقبل کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ لہٰذا رائج الوقت فلسفۂ حیات یہی لگتا ہے کہ جیسا بھی ہو وقت گزارا جائے۔ حالات سے سمجھوتا کرنا پڑے تو اُسے عقل مندی کا تقاضا سمجھا جائے۔ بظاہر سیاست کا بازار چل رہا ہے لیکن ذرا جھانک کے دیکھیں تو کسی قبرستان کا سماں نظر آتا ہے۔ وہ جوش‘ وہ ولولہ جو ہماری سیاست کا حصہ ہوا کرتا تھا وہ کوتوال کی تھاپ تلے کہیں گم ہو گیا ہے۔ سیاست میں جو شاعری ہوا کرتی تھی وہ تو کب کی مر گئی۔ سیاست کی پھیریاں بڑی جماعتوں نے ایسی لگائیں کہ پھر سے نہ کوئی فیض سامنے آ سکا نہ کوئی جالب۔ لیکن شاعری کے نہ ہوتے ہوئے بھی کچھ رونق تو رہتی۔ لیکن ہوائیں کچھ ایسی چلیں اور ہم میں سے کچھ کو مرنے کا شوق بھی کچھ ایسا تھا کہ امید کے ساتھ رونق بھی گئی۔
ایسے میں پھر یہی بہتر نہیں کہ خلوت کو خانقاہ بنایا جائے اور اسی کا طواف کیا جائے؟ پاکپتن کا ذکر آیا‘ سیہون کا ارادہ باندھا جائے۔ بھٹائی کی حاضری دی جائے۔ کیا ہندوستان کی تاریخ ہے‘ حالات کا مقابلہ نہ کیا جا سکا تو تصوف اور خانقاہوں میں پناہ ڈھونڈی گئی۔ مثال تو پھر ہمارے سامنے ہے۔ جو ہمارے بڑوں نے کیا اُس راستے پر ہم کیوں نہ چلیں؟ تصوف البتہ ہندوستان کو فرنگیوں کے حملوں سے نہ بچا سکی۔ ہم چپ ہیں لیکن مغربی سرحدوں پر آگ لگی ہوئی ہے۔