"AYA" (space) message & send to 7575

پنجاب تاریخ کے بھنور میں

پنجاب کے ساتھ ایک حادثہ ہوا جس کے اثرات پوری ریاست پر پڑے۔ اپنی جملہ خوبیوں کے ساتھ پنجاب کے تاریخی تجربے میں ایک کمی واقع ہوئی۔ وصفِ حکمرانی پنجاب کے کھاتے میں کبھی نہ آیا کیونکہ سکھوں کے دور کے علاوہ‘ سکندرِ اعظم سے لے کر مغلوں تک‘ پنجاب کی کوئی بادشاہت قائم نہ ہوئی نہ پنجاب نے دوسرے علاقوں پر حکمرانی کی۔ یہ تو 1947ء کا حادثہ تھا کہ ریاستِ پاکستان کی تشکیل اس طرح ہوئی کہ آبادی اور وسائل کے لحاظ سے پنجاب کا حصہ باقی اکائیوں کی نسبت سب سے بھاری رہا۔ نئی ریاست میں عددی اکثریت تو بنگالیوں کی تھی لیکن ریاست کے معاملات میں اُن کا عمل دخل اتنا نہ تھا جتنا کہ ہونا چاہیے تھا۔ لہٰذا نئی ریاست کی کرتا دھرتا پنجاب والی اشرافیہ ہی رہی۔
ایک پنجاب کی اشرافیہ اور دوسری وہ اشرافیہ جو ہندوستان سے یا یوں کہئے یو پی سے ہجرت کرکے پاکستان کا حصہ بنی۔ یو پی اور دِلی ہندوستان میں مسلمان تہذیب کے گہوارے تھے۔ تعلیم وتہذیب کے حوالے سے وہ باقی قوموں سے آگے تھے۔ جو خیالات وہ اشرافیہ لے کر آئی اور جو اُس اشرافیہ کی خاص نفسیات تھی وہی خیالات اور نفسیات ریاستِ پاکستان کے بن گئے۔ نظریات پر زور‘ جس نے بعد میں نظریۂ پاکستان کی صورت اختیار کی‘ اور ہندوستان دشمنی یہ تصورات یہاں کی دھرتی کے نہیں تھے بلکہ یہ اُس ہجرت کا نظریاتی سامان تھا۔ انہی خیالات کی روشنی میں نئی ریاست کا ذہنی ارتقا ہوتا گیا۔ پاکستان کا امریکی کیمپ میں جانا‘ امریکی فوجی معاہدوں کا حصہ بن جانا اور اندرونِ ریاست بنیادی معاشرتی اصلاحا ت سے گریز کرنا‘ یہ نئی ریاست کے نظریاتی اساس کا حصہ تھے۔
نئی ریاست کی ڈرائیور سیٹ پر پنجاب اور یو پی کی اشرافیہ تھی۔ نوکرشاہی اور عسکری ادارو ں کی سوچ بھی انہی خطوط پر استوار ہوتی گئی۔ شروع کے سالوں میں سیاستدانوں کی خاصی اہمیت تھی گو ساتھ ساتھ بھاری بھرکم بیورو کریٹ بھی تھے جن کا کردار ریاست کی سمت متعین کرنے میں نمایاں رہا۔ عسکری اداروں نے طاقت بعد میں پکڑی۔ اور جب براہ راست مارشل لاؤں کا رواج شروع ہوا تو مخصوص اداروں کی چھاپ سیاست اور معاشرتی زندگی پر بڑھتی گئی۔
اگر یو پی اور پنجاب کے حکمران طبقات میں حکمرانی کا وصف ہوتا‘ اگر اُن میں دُور کی سوچ اور ریاست کے نظم ونسق کو سنبھالنے کی صلاحیت ہوتی‘ پھر تو کوئی پرابلم نہیں تھا‘ لیکن یہاں مسئلہ یہ بنا کہ یو پی سے آئے حضرات تقسیمِ ہند کی نفسیات سے کبھی باہر نہ نکل سکے اور اُن کا جو اثر نوکر شاہی کے اداروں خاص طور پر دفترخارجہ اور اخبارات ورسائل پر رہا اُس کی وجہ سے ہندوستان سے دائمی دشمنی نئی ریاست کی سوچ کا حصہ بن گئی۔ دوسرا مسئلہ پنجاب کے حکمران طبقات کا تھا کہ وہ اپنے طبقاتی مفادات سے کبھی باہر نہ نکل سکے۔ اور اپنے مفادات کے تحفظ میں ریاست کی دوسری اکائیوں کو خاطر خواہ اہمیت کبھی نہ دے سکے ۔ 14 اگست 1947ء کے کچھ ہی دنوں بعد ڈاکٹر خان صاحب کی منسٹری صوبہ سرحد میں برطرف کر دی گئی اور کچھ عرصہ بعد ایوب کھوڑو کو سندھ کی چیف منسٹری سے ہٹا دیا گیا۔ بلوچستان میں ریاستِ قلات کچھ زور آزمائی کے بعد پاکستان کاحصہ بنی اور جہاں تک مشرقی پاکستان کا تعلق ہے وہاں کے باسیوں کو شروع دن سے سیکنڈ کلاس شہری سمجھا گیا۔ جہاں یہ بنیاد تھی تو آگے جا کے وفاق اور جمہوریت نے کہاں سے مضبوط ہونا تھا۔
یعنی جمہوری اصولوں کے بجائے آمرانہ اصولوں کی بساط شروع سے بچھائی جاتی رہی۔ اس سلسلے میں عسکری اداروں پر تہمت ناحق لگتی ہے۔ پاکستان میں آمرانہ اصولوں کی دریافت ان اداروں نے نہیں کی بلکہ جو اصول وضع ہو چکے تھے اُنہی اصولوں کو ان اداروں نے پروان چڑھایا۔ لہٰذا آج اگر قوم حاکمانہ انداز کی ایک نئی شکل دیکھ رہی ہے تو اس میں کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ایک ارتقا ہے جو پرانی بنیادوں پر جاری ہے۔ اگر آج عدلیہ کی بے توقیری اور سیاست کی تابعداری کا رونا رویا جا رہا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔ انصاف اور جمہوریت کے تناظر میں عدلیہ کا کردار کب مثالی رہا؟ چیف جسٹس منیر سے لے کر انصاف کے کتنے ہی علمبردار آئے جنہوں نے عدلیہ کی بے توقیری میں اپنا حصہ ڈالا۔ لہٰذا چھبیسویں آئینی ترمیم پر اتنا کیا رونا۔ طالع آزماؤں کے پہلے زمانوں میں اعلیٰ عدلیہ کو اپنی جگہ میں رکھنے کیلئے پی سی او نافذ ہوا کرتے تھے۔ اور بیشتر جج صاحبان اُن پی سی اوز کے تحت عائد تابعداری کو بخوشی قبول کرتے تھے۔ اور جہاں تک سیاست کا تعلق ہے کون سی بڑی سیاسی جماعت ہے جو دعویٰ کر سکتی ہے کہ اپنے زمانے میں اُس نے امراؤ جان ادا کا کردار ادا نہیں کیا؟ شروع دن سے پاکستان میں حاکمیت کا ماڈل تھانیداری طرز کا رہا ہے۔ تھانیدار بدلتے رہے ہیں‘ تصورِ حاکمیت وہی رہا۔
محسوس یوں ہوتا ہے کہ ہمارے بلوچ بھائی اور بہنیں ریاست کی طرزِ حاکمیت کو سمجھ نہیں سکے۔ ماہ رنگ بلوچ نے ایک دفعہ اسلام آباد کی یاترا کی تھی۔ اب جو وہ سلاخوں کے پیچھے ہے اُس کی بہن ہمراہ ایک چھوٹے سے کارواں کے اسلام آباد آئی۔ اُن سے کوئی پوچھے کہ آپ اسلام آباد لینے کیا آتے ہیں؟ کیا واقعی آپ کے دلوں میں یہ خیال ہوتا ہے کہ نیشنل پریس کلب کے سامنے یا وہاں بھی اگر اجازت نہ ہو تو کسی فٹ پاتھ پر آپ بیٹھ جائیں تو اقتدار کے ایوانوں کا ضمیر جاگ اُٹھے گا اور بڑے افسر آپ کی خدمت میں حاضر ہو جائیں گے؟ یہ لوگ سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں کہ یہاں کی نظروں میں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس دارالحکومت کا تاریخی پس منظرتو کچھ ہے نہیں۔ شاہراہوں اور اونچی عمارات کا ایک مجموعہ ہے۔ ساٹھ پینسٹھ سال پرانا شہر ہے‘ ڈھونڈنے بھی نکلیں تو دل کی دھڑکن آپ کو کہیں محسوس نہ ہو۔ کیا ارمان لے کر ہمارے بلوچ بھائی اور بہنیں کوئٹہ سے چلتے ہوں گے کہ اسلام آباد پہنچیں گے تو دلوں کے دروازے کھل جائیں گے۔ سادہ لوگ ہیں اور تاریخ سے بظاہر ناآشنا۔
پھر بھی غمگین شاموں میں دل کانپ اٹھتا ہے یہ محسوس کرکے کہ جہاں پنجاب پر ایک قسم کا سکتہ طاری ہے ہماری دونوں مغربی اکائیوں میں صورتحال اچھی نہیں۔ خیبر پختونخوا سے آئے روز شورش یا کسی جھڑپ کی خبر آتی ہے۔ ریاستی کارنامے بھی دیکھیں‘ آرزوئے جہاد لے کر افغانستان کی آگ میں کودے اور وہی جہاد ہمارے گلے پڑ گیا۔ اندرونِ بلوچستان صحافی کوئی جاتا نہیں کچھ کاہلی کی وجہ سے کچھ یہ ڈر کہ ملک دشمنی کا لیبل نہ لگ جائے۔ لہٰذا وہاں کی سنی سنائی پر ہی تکیہ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اتنا تو محسوس ہوتا ہے کہ حالات ٹھیک نہیں۔
زندگی میں کم ہی کوئٹہ جانا ہوا لیکن جب بھی گئے بلوچوں اور وہاں کے پختونوں کی مہمان نوازی کی یادیں دل میں ہمیشہ رہیں۔ یہ جو بلوچ کبھی بھولے سے اسلام آباد آتے ہیں کتنا ہی اچھا ہوتا کہ بجائے انہیں دھتکارنے کے ان کی بات سنی جاتی۔ ریاست وہ ہوتی جس کا تصور بھیگی شاموں میں دل میں کبھی اٹھتا ہے تو بلوچستان ہاؤس کے دروازے ان ستائے اور تھکے ہوئے بلوچوں کیلئے کھول دیے جاتے۔ ان کی میزبانی ہوتی۔ سمجھانے کی نوبت آتی تو پیار سے انہیں سمجھایا جاتا۔ لیکن یہ تب ہوتا اگر دل ہوتا نہ سنگ وخشت۔ یہاں البتہ پتھر ایسے کہ پوری شاعری زور لگا لے اور کچھ نہ بنے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں