جتنا کچھ پاکستانی عوام کے ساتھ ہوا ہے کسی اور ملک کے لوگ ہوتے تو جمہوریت کا درس کب کے بھول چکے ہوتے۔ ایک فہرست ہے ہمارے طالع آزماؤں کی جن کے راج مدتوں رہے۔ لیکن پاکستانی قوم کی ڈھٹائی سمجھیے یا کچھ اور کیفیت کہ طالع آزما رہے بھی تو مصیبتوں کے مارے عوام کے دلوں سے جمہوری نظام کی آرزو نہ گئی۔ یہاں کے لوگ اپنے عرب کے بھائیوں کو دیکھ لیتے۔ وہاں بغیر کسی جمہوری تصور کے اچھا بھلا کام چل رہا ہے۔ عرب بھائیوں کی ایک داد تو بنتی ہے کہ انہوں نے انتخابات جیسے مرض سے مکمل چھٹکارا حاصل کیا ہوا ہے۔ پاکستانی قوم انہی سے رنگ پکڑ سکتی تھی لیکن جمہوریت کا تصور انگریز کچھ اس طرح سے برصغیر میں چھوڑ گئے کہ لاکھ کوششوں کے باوجود یہاں سے اس مرض کے جراثیم ختم نہ ہو سکے۔
بات عجیب اس طرح سے بھی لگتی ہے کہ بھوک و ننگ ہے‘ افلاس و غر بت ہے‘ لیکن پھر بھی تصورِ حکمرانی یہاں یہی ہے کہ حکومتیں بننے کا صحیح طریقہ عوام کی پرچیوں سے ہے۔ کیسے کیسے یہاں شہسوار آئے لیکن لوگوں کے دماغوں سے یہ کیڑا نکال نہ سکے۔ قوم کو چھوڑیے‘ جسے معتوب جماعت کہا جاتا ہے اس کا ڈھیٹ پن کچھ ملاحظہ ہو۔ کس امید پر یہ لوگ اپنی ڈھٹائی پر قائم ہیں؟ جماعت کو اقتدار سے فارغ کیے اب تین سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ جماعت اس کے لیڈر کے گرد ہی گھومتی ہے۔ لیڈر اندر ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کب اس کی رہائی ممکن ہو سکے۔ یعنی تالہ اس کی گرفتاری پر ایسے لگا ہوا ہے جس کی چابی کہیں نظر نہیں آتی۔ لیکن نہ ختم ہونے والی حیرانی اس بات پر ہے کہ جو اس جماعت کے ساتھ ہیں اور جو نوجوان قسم کے لوگ جماعت کے لیڈر کے طلسم میں اب تک گرفتار ہیں ان کی کیفیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ نامساعد حالات میں لوگ اِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں‘ سیاست میں دلچسپی رکھنے والے لوگ کوئی اور ٹھکانہ ڈھونڈتے ہیں۔ جماعت کے جو لیڈر قسم کے لوگ تھے انہوں نے ایسا کیا بھی‘ عقلمندی کے راستے تلاش کیے‘ ٹی وی بیانات ریکارڈ کرنے کا کہا گیا تو ایسا کرنے میں دیر نہ لگائی۔ لیکن جنہیں آپ عام حمایتی یا ورکر کہہ سکتے ہیں وہ وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ انہوں نے اب اس جماعت سے لینا کیا ہے انہیں بھی نہیں معلوم لیکن جو وابستگی بنا لی تھی اس کو نہیں چھوڑ رہے۔
لیڈر قسم کے لوگوں کی بات ذرا ادھوری تھی کیونکہ جہاں سیانے اور سمجھداروں نے مناسب ٹی وی بیانات دے دیے ایسے لیڈر بھی ہیں جو سڑ رہے ہیں سلاخوں کے پیچھے لیکن اپنی ضد پر قائم ہیں۔ یہ جو کوٹ لکھپت کی زینت یا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ کوٹ لکھپت کی مصیبت بنے ہوئے ہیں ان کو دیکھ لیجیے۔ عمرسرفراز چیمہ‘ محمود الرشید‘ اعجاز چوہدری اور اس قسم کے کئی اور‘ یہ کس امید پر اپنی بات پر قائم ہیں؟ یاسمین راشد کا تو ذکر ہی نہ کیجیے‘ عجیب مٹی کی بنی ہوئی لگتی ہیں۔ ان لوگوں نے کرنا کیا تھا‘ چار سطور کے نیچے انگوٹھے لگانے یا دستخط کرنے تھے۔ مختصر سا ٹی وی بیان دے دیتے اور آرام سے گھروں کو جاتے۔ لیکن نہیں‘ مقدمات جھیل رہے ہیں‘ پیشیاں بھگت رہے ہیں‘ جیٹھ اور ہاڑھ کی گرمی‘ ساون اور بھادوں کی حبس‘ ہٹ دھرمی میں سب جھیل رہے ہیں۔
یہ جو اصطلاح زمانۂ موجود میں خاصی مقبول ہو چکی ہے کہ فلاں کا سافٹ ویئر اَپڈیٹ کر دیا گیا ہے‘ کتنے لوگ ہیں جن پر سافٹ ویئر کی یہ کارروائی ہو چکی ہے۔ لیکن کتنے ایسے بھی ہیں کہ تمام حربوں کے باوجود سافٹ ویئر اَپڈیٹ نہیں ہو سکے۔ جہاں معاشرے میں اتنی ہیرا پھیری ہے‘ جہاں دیکھیں ایمان نام کی چیز کم ہی نظر آتی ہے‘ لیکن دھندا سیاست کا ہو جس میں ویسے ہی بہت ہیرا پھیری دیکھی جا سکتی ہے اور اس میں ایک طبقہ ایسا ہو جو اپنے پیروں پر کھڑا رہے حیرانی تو پھر ہونی ہے۔
ہمارے حالات میں البتہ خوش فہمی کی گنجائش کچھ زیادہ نہیں رکھی جا سکتی۔ حالات ایک قسم کے بن جائیں تو ان میں تبدیلی کے آثار کچھ عرصے بعد ہی پیدا ہوتے ہیں۔ ایوب خان آیا تو ان کا دورِ اقتدار دس سال تک رہا۔ ضیا الحق نے اس قوم کا صبر ساڑھے گیارہ سال تک آزمایا۔ مشرف کی اننگز بھی خاصی لمبی تھی۔ بہرحال سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان طویل ادوار میں بھی پاکستان کے عوام یا یہاں کے سیاسی لوگوں نے جمہور کی حکمرانی کا تصور اپنے ذہنوں سے نہ جانے دیا۔ اس دھرتی کے مزاج کا یہ عجیب پہلو ہے۔ پڑوس میں افغانستان دیکھ لیجیے۔ وہاں ایسا تصور ناممکن ہے۔ ایران میں ایک قسم کی مذہبی آمریت قائم ہے۔ ووٹ ڈالے جاتے ہیں لیکن آخری فیصلہ مذہبی رہنماؤں کا ہوتا ہے۔ یہاں کا تاریخی تجربہ کچھ اور تھا۔ انگریزوں نے سیاسی جماعتوں کا تصور دیا‘ قانون کی حکمرانی کی بات کی۔ انتخابات کا رواج آہستہ آہستہ پنپنے لگا۔ آزادی بھی آئی تو بزورِ شمشیر نہیں بلکہ برطانوی پارلیمان کی قانون سازی کے ذریعے۔ بڑے لیڈر جوہندوستان کے تھے بیشتر کی تعلیم قانون کی تھی اور ان میں سے ایسے کتنے تھے جنہوں نے باقاعدہ تعلیم برطانیہ میں حاصل کی۔
انگریز سامراج کو ہم جو مرضی برا بھلا کہیں۔ یہاں کی دولت انہوں نے لوٹی‘ تجارت ان خطوط پر کی کہ یہاں کی دولت اور وسائل وہاں منتقل ہوتے گئے۔ لیکن جدید افکار اور جمہوری اصولوں سے آشنائی یہاں کے لوگوں کو انگریزوں سے ملی۔ اس بات سے انکار ممکن نہیں۔ وہاں کی سوچ یہاں کی سوچ کا ایسا حصہ بنی کہ تصورِ ریاست ان اصولوں کے بغیر ممکن نہ رہا۔ ہندوستان میں تو جمہوری تسلسل قائم ہے اور سوائے مسز اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے یہ تسلسل کبھی ٹوٹا نہیں۔ لیکن پاکستان اور بنگلہ دیش میں جب کبھی جمہوری ارتقا میں خلل آیا تو یہ خیال مٹ نہ سکا کہ ریاست کی بقا جمہوریت میں ہی ہے۔
جمہوریت کو تصورِ پاکستان سے نکالیں تو پیچھے رہ کیا جاتا ہے؟ مسلمانانِ ہند کی یہ رائے تھی کہ ان کے لیے ایک علیحدہ ملک معرضِ وجود میں آنا چاہیے۔ اس رائے کا اظہار باقاعدہ ووٹوں کے ڈالنے سے ہوا۔ بیٹھے بٹھائے کسی نے فیصلہ نہیں کیا تھا کہ ہندوستان کو یوں تقسیم کیا جائے۔ 1946ء کے انتخابات میں عوام کی رائے پوچھی گئی تھی اور مسلمانوں کی بھاری اکثریت نے مسلم لیگ اور قائداعظم کی قیادت میں پاکستان کے حق میں رائے دی تھی۔ اس ملک کی اصل بنیاد یہ ہے اور اس حقیقت کو کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے؟ ایوب خان اور ضیا الحق وغیرہ نے اس حقیقت کو مٹانے کی کوشش کی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ کوئی طالع آزما آتا ہے تو اس کے گرد دانشوروں کا ایک مخصوص ٹولہ اکٹھا ہو جاتا ہے جو اسی کی مالا جپنے لگتا ہے۔ ایسا بار بار ہوا ہے۔ لیکن سرکار مائل دانشوروں کا سرکاری ڈگڈگی پر لاکھ کرتب دکھانے کے باوجود عوام کی بنیادی سوچ کبھی نہ بدلی۔
اپنے سیاسی مسائل کا دیرپا حل تو ہم نے ڈھونڈنا ہے۔ ایسے کام چل نہیں سکتا‘ پہلے کبھی نہیں چلا۔ قاضی فائز عیسیٰ والے انتخابات تو چلیں ہو گئے‘ پر ہر بار تو ایسا ہو نہیں سکتا۔ وقت جیسا بھی ہو گزر جاتا ہے۔ جن ادوار کا ذکر ہوا ہے وہ بھی تو گزر گئے۔ بلھے شاہ کا عرس قصور میں ہو رہا ہے خلقت وہاں اُمڈ کر آتی ہے۔ یہاں کے حاکم جو رہے ان کی قبروں پر کون جاتا ہے؟ یورپ میں صدیاں گزریں اور پھر جا کر جمہوریت کا تصور مضبوطی سے قائم ہوا۔ ہمارا سفر جاری ہے۔ مصیبتیں ہیں لیکن بڑی بات یہ ہے کہ نامساعد حالات میں بھی ہمارے لوگ کبھی ہمت نہیں ہارے۔