امریکہ اور ہندوستان کے تعلقات میں کچھ دراڑ پڑی تو چین نے دیر نہ لگائی ہندوستان کی طرف قدم بڑھانے کی۔ چینی وزیر خارجہ وانگ یی دہلی آئے اور گو اُس کے بعد اسلام آباد بھی آئے لیکن اُن کے ہندوستان جانے سے یہاں کچھ بخار سا چڑھ گیا کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔حلقۂ محبان جو مملکتِ خداداد کے نصیبوں پر سوار ہے ‘سمجھنے سے کیوں قاصر ہے کہ چین کے پاکستان سے تعلقات کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہندوستان کو نظر انداز کر دے۔ پاکستان کے چین سے تعلقات اپنی نوعیت کے ہیں اور ہند‘ چین تعلقات میں تناؤ کی وجہ پاکستان نہیں ہے۔ اُس کے اپنے عوامل ہیں۔
ہمارے نظامِ حیات کا مسئلہ یہ رہا ہے کہ دشمنی ہم نے اپنے اوپر سوار کی ہوئی ہے۔ ملکوں میں مسائل ہوتے ہیں‘ تناؤ ہوتا ہے‘ جنگیں بھی چھڑ جاتی ہیں پر یہ کیفیت نہیں ہوتی جو پاکستان نے ہندوستان دشمنی کے نام پر یا ہندوستان نے پاکستان دشمنی کے نام پر اپنے لیے پیدا کی ہوئی ہے۔ ہر چیز کو دشمنی کے تناظر میں دیکھنا‘ ایک دوسرے کو دشمن کا لقب دینا‘ یہاں تک کہ تاثر یہ پیدا ہو کہ ہماری پہچان دشمنی میں ہے۔ مسائل ہمارے درمیان میں ہیں اور کیا پتا کب تک رہیں لیکن مسائل کے ہوتے ہوئے بھی ملک آپس میں تعلقات نہیں توڑتے اور جہاں ممکن ہو بات چیت کا رواج زندہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں البتہ ہر رابطہ ہر رشتہ توڑے جانے میں تسکین کا پہلو نکالا جاتا ہے۔ تجارت بند‘ ہوائی راستے منقطع‘ دونوں اطراف سے سفارتی عملے میں کمی اور یہ آج سے نہیں‘ جب بھی تھوڑا پرابلم پیدا ہو فوراً ردِعمل رابطوں کو محدود یا ختم کرنے کا ہوتا ہے۔
مانا کہ چار روزہ ہوائی اور زمینی معرکہ دونوں ممالک کے درمیان حال ہی میں ہوا لیکن کہاں کی عقلمندی ہے کہ اس معرکے سے جنم لینے والی نفسیاتی اور جذباتی حالت میں دونوں ممالک ہمیشہ کیلئے پھنسے رہیں۔ یہ معرکہ اتنا سخت تو نہ تھا جتنا کہ تین سال سے زیادہ عرصے پر محیط روس اور یوکرین کی جنگ۔ وہاں جو نقصان ہوا ہے اُس کا یہاں سوچنا مشکل ہے لیکن وہاں بھی بات چیت کی کوشش ہو رہی ہے۔ اپنے مفادات سامنے رکھ کر دونوں حریف جنگ ختم کرنے کی طرف جانا چاہتے ہیں۔ یہاں کیا چار روزہ معرکہ ہوا کہ دائمی دشمنی کا کمبل لپیٹ لیا اور عقل کی ہر بات کا دیس نکالا دے دیا۔ دشمنی ہندوستان کے مفاد میں ہے نہ ہمارے۔ راکٹ ایک دوسرے پر برسائے گئے ‘ پہلی بار دونوں طرف سے ڈرون‘ میزائلوں کا استعمال ہوا‘ آسمانوں میں خاصا بڑا ہوائی معرکہ ہوا جس میں ہمارے ہوابازوں نے اپنا لوہا منوایا۔ لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہونا چاہیے کہ نہ ختم ہونے والی ہتھیاروں کی دوڑ میں دونوں ملک پڑ جائیں؟ کیفیتِ جنون میں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وسائل کا مقابلہ ہمارے حق میں نہیں‘ معاشی طور پر ہندوستان ہم سے کہیں آگے ہے۔ ہتھیاروں کی دوڑ پر وہ زیادہ خرچ کر سکتا ہے۔ اس دوڑ میں بڑے بڑے ملک پیچھے رہ گئے‘ اس لیے دائمی دشمنی کے تمام پہلوؤں پر غور کرنا چاہیے۔ کون کمبخت کہتا ہے کہ پاکستان اپنے دفاع سے غافل ہو۔ بات صرف اتنی ہے کہ غافل نہ رہنا اور سوچ سمجھ سے عاری ہو جانا دو الگ باتیں ہیں۔
مبصرین نے نوٹ کیا ہوگا کہ چینی وزیر خارجہ وانگ یی جب اسلام آباد آئے تو دونوں طرف کے بیانات میں پاک چین دوستی پر کچھ زیادہ ہی یا یوں کہئے غیر معمولی زور تھا۔ جیسا کہ کہیں غیر ضروری تسلی کی ضرورت پڑ گئی ہو۔ ہمیں اپنے پہ کچھ اعتماد ہونا چاہیے‘ اپنے چینی دوستوں پر بھروسہ ہونا چاہے۔ ہم اتنے کمزور دل ہیں کہ چین اور ہندوستان میں کچھ گرم جوشی پیدا ہو اور یہاں بخار چڑھ جائے؟ جیسے عرض کیا چین اور ہندوستان کے تعلقات اپنی نوعیت کے ہیں اور چین پاکستان دوستی کی بنیاد کچھ اور ہے۔ بنیادی بیماری تو وہی ہے کہ ہمارے ہاں ہندوستان دشمنی اور ہندوستان میں پاکستان دشمنی میں ہم اتنے آگے جا چکے ہیں کہ عقلمندی کے تمام تقاضے بالائے طاق رکھ دیے جاتے ہیں۔ دنیا کہاں جا رہی ہے اور ہم کہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس کیفیت سے دونوں قوموں کو نکلنا چاہیے‘ اسی میں ان کی بہتری ہے۔
ہندوستان میں اگر ہندو انتہا پسند سوچ رکھنے والی جماعت برسرِ اقتدار ہے یہ اُن کا دردِ سر ہے۔ کانگریس پارٹی جس کی سیاسی سوچ لبرل ہے برسرِ اقتدار رہی تب بھی ہمارے تعلقات خراب تھے۔ جب ہندوستانی فوجوں نے مشرقی پاکستان پر چڑھائی کی تھی تو سیکولر سوچ رکھنے والی مسز اندرا گاندھی ہندوستان کی وزیراعظم تھیں۔ لہٰذا انتہا پسند ہندو اور سیکولر ہندوسوچ کے ٹکراؤ کی بات ہمارے لیے اتنے معنی نہیں رکھتی۔ یہ بھی تو ہے کہ پاکستان میں اسلامی ریاست بنانے کی سعی تقریباً شرو ع سے رہی۔ پاکستان اس راستے کا مسافر پہلے تھا‘ ہندوستان ہندو سوچ کے راستے پر بعد میں آیا۔ لہٰذا اس بحث میں پڑنا کم از کم یہاں کے لوگوں کیلئے فضول ہے۔ کوشش تو اس چیز کی ہونی چاہیے کہ مسائل کے ہوتے ہوئے بھی تعلقات میں بے شعوری اور دیوانگی کی سطح ذرا نیچے آئے۔ دونوں اطراف سوچ تھوڑی نارمل ہو جائے۔ دونوں اطراف جو پارہ چڑھا رہتا ہے وہ کم ہو۔ ایک دوسرے کو دشمن کہنے کا سلسلہ بند ہو۔ اس انداز سے دنیا کے کوئی اور دو ممالک نہیں جو ایک دوسر ے کو دشمن کہتے ہوں۔
بڑا تنازع ہم میں کیا ہے؟ کشمیر کا‘ لیکن کشمیر بارے جنرل ضیا الحق نے تب کے ہندوستانی فارن سیکرٹری ایم کے راسگوترا کو جو کہا تھا وہ یاد رہے کہ راسگوترا صاحب کشمیر پر کیا بات کریں‘ کشمیر پر آپ کا قبضہ ہے اور ہم چھڑا نہیں سکتے۔ چھڑانے کی ایک دو کوششیں ہوئیں جو کامیاب نہ رہیں۔ ایسے میں جب زمین کے قبضے نہ چھڑوائے جا سکیں تو عقلمندی کا تقاضا یہی بنتا ہے کہ آپس میں بات چیت کی جائے۔ قبضے کے ہوتے ہوئے بھی آسانیاں تو پیدا کی جا سکتی ہیں۔ راستے کھل سکتے ہیں‘ آمدورفت بڑھ سکتی ہے‘ تجارت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اس میں ہمارا بھلا ہے اور ہم سے زیادہ کشمیریوں کا۔ جنون کے غازیوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جتنے تعلقات نارمل سطح پر آئیں اتنا مقبوضہ کشمیر کے حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔ لائن آف کنٹرول پر گولہ باری شروع ہوتی ہے یا مقبوضہ کشمیر میں کوئی دھماکا یا حملہ ہوتا ہے تو سختی کشمیریوں کیلئے آتی ہے۔ فی الحال کشمیر کے بارے میں یہی ہو سکتا ہے کہ کارگل اور لیہ‘ سری نگر اور مظفرآباد‘ جموں اور سیالکوٹ کے راستے کھلیں۔ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر میں رابطے بڑھیں۔ آنے جانے میں آسانیاں ہوں۔
حلقۂ محبانِ ملت میں یہ عجیب سوچ پائی جاتی ہے کہ ہندوستان ہمارے وجود کا دشمن ہے‘ ہندوستان ہمیں کھا جائے گا وغیرہ وغیرہ۔ ان عقلمندوں کو کون سمجھائے کہ مسلمانانِ ہند میں اتنی طاقت تھی کہ ہندوستان میں سے ایک نئی ریاست اُنہوں نے نکالی۔ ہندو ہمیں کھا جانے والے ہوتے تو پاکستان نہ بننے دیتے۔حلقۂ محبانِ میں اتنی سوچ تو ہونی چاہیے کہ ہندو اگر تب رکاوٹ نہ بن سکے تو آج یہاں کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ جہاں تک مشرقی پاکستان کا تعلق ہے کبھی نہ بھولا جائے کہ ہندوستان سے زیادہ پاکستانی حکمرانی کی حماقتوں کی وجہ سے مشرقی بنگال میں آزادی کی آرزو پیدا ہوئی۔
لہٰذا علمبردارِ نظریات اس دھرتی پر کچھ رحم کریں۔ بننا یا بگڑنا ہم نے خود سے ہے۔ لیکن اپنے زورِ بازو پر تو کچھ یقین پیدا کریں۔