1990ء میں بے نظیر بھٹو کی حکومت برخاست ہوئی تو صدر غلام اسحق خان اور جنرل اسلم بیگ کا سارا زور پیپلز پارٹی کے خلاف تھا۔ محترمہ پر مقدمات بنے اورہراساں کرنے کے تمام ہتھکنڈے آزمائے گئے۔ ایک پیشی راولپنڈی ہوتی تو دوسری اگلے روز لاہور یا کراچی میں۔ ایک موقع ایسا بھی تھا کہ محترمہ کے آنسو چھلک پڑے۔ لیکن معجزہ رونماہوناتھا کہ ایک آڈیو لیک ہو گئی جس میں شہباز شریف احتساب جج ملک قیوم کو کہتے ہیں کہ بڑے میاں صاحب چاہتے ہیں کہ محترمہ کے خلاف فیصلے جلد سنائے جائیں۔ جوا ب آیا کہ میاں صاحب نے کہہ دیا تو بات ہو گئی۔ ملک میں ایک طوفان برپا ہوا اور پھر وہ مقدمات چلائے نہ جاسکے۔
صدر اسحق (ن) لیگ اور نواز شریف کے محسن تھے۔ جب محترمہ کے خلاف مقدمات کا ڈرامہ چل رہا تھا تو نواز شریف جو نئے نئے وزیراعظم بنے تھے اور ان کے قریبی ساتھی صدر اسحق کو آنکھیں دکھانے لگے۔ پارلیمنٹ سے صدر اسحق کا سالانہ خطاب ہوا تو پیپلز پارٹی کے ارکان نے احتجاج کرنا شروع کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لیگی ارکان صدر کے دفاع میں کچھ کرتے لیکن گیلریوں میں بیٹھے سامعین نے یہ ماجرا دیکھا کہ صدر غلام اسحق پر پیپلز پارٹی کی طرف سے حملہ ہو رہا ہے اور (ن) لیگی ارکان آرام سے بیٹھے ایک دوسرے سے آنکھیں ملا رہے ہیں۔ کچھ کے چہروں سے ایسا نظر آ رہا تھا کہ ساری ہڑبونگ کا مزہ لے رہے ہیں۔ تقریر ہو گئی‘ معمول کے کام چلتے رہے اور صدر صاحب کی طرف سے بدستور پریشر پیپلز پارٹی پر رہا۔
صدر اسحق کے قریبی ساتھی اور مشیرِ خاص اجلال حیدر زیدی ہوا کرتے تھے۔ سینئر بیوروکریٹ تھے‘ بڑے عہدوں پر رہے اور ہمارے مہربان تھے۔ ایک شام زیدی صاحب سے کہا کہ آپ لوگوں پر حیرانی ہوتی ہے کہ آپ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ کا مسئلہ (ن) لیگ اور میاں نواز شریف سے بن رہا ہے اور آپ ہیں کہ اپنا سارا زور پیپلز پارٹی کے خلاف لگا رہے ہیں۔ اتنی بات تو آپ لوگوں کو سمجھ آنی چاہیے کہ آپ کا اور پی پی پی کا اس وقت کوئی تضاد نہیں۔ تضاد تو آپ کا (ن) لیگ سے بن رہا ہے اور یہ دیکھتے ہوئے آپ اور پی پی پی قدرتی حمایتی بنتے ہیں۔ زیدی صاحب نے میری بات آئیں بائیں کر دی لیکن کچھ ہی عرصے بعد صدر صاحب اور( ن) لیگ آمنے سامنے تھے اور ہر گزرتے دن ان کے معاملات بگڑتے گئے۔ لڑائی اپنے عروج پر پہنچی تو صدر صاحب کے بہی خواہوں نے مشورہ دیا کہ آپ کو میڈیا کے لوگوں سے بھی ملنا چاہیے۔
اسی سلسلے میں ایک روز ہمیں بھی ایوانِ صدر آنے کی دعوت ملی۔ صدر اسحق منجھے ہوئے اقتدار کے کھلاڑی تھے۔ کتنی حکومتیں انہوں نے دیکھیں۔ بھٹو صاحب کی حکومت میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے اور بھٹو صاحب جنرل ضیا کے ہاتھوں برخاست ہوئے تو غلام اسحق خان جنرل ضیا کے سپوتِ خاص بن گئے۔ رعب دار شخصیت کے مالک تھے اور ان کا چہرا دیکھ کے کوئی یہ شک نہیں کر سکتا تھا کہ یہ کبھی پریشان بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جب ان کے دفتر میں داخل ہوا تو اپنی پوزیشن بیان کرنے لگے جیسا کہ ان پر کوئی جرح ہونے والی ہے۔ میں کون ہوتا ہوں کہ میرے سامنے صفائیاں پیش کرتے لیکن ان کا انداز ایسا تھا کہ جیسے اپنا دفاع بیان کررہے ہوں۔ اور آخر میں جب میرے جانے کا وقت آیا تو مزید حیران کر دیا یہ کہہ کر کہ یقین رکھیے جو کچھ کررہا ہوں اعلیٰ قومی مفاد کو سامنے رکھ کر رہا ہوں۔ باہر نکلا تو سوچنے پر مجبور ہوا کہ جب انسان پر برے دن آتے ہیں تو ایسی حالت ہو جاتی ہے۔
معافی چاہتا ہوں دوسرے قصے پر کیونکہ ایک سے زیادہ بار بیان کر چکا ہوں۔ جب نواز شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے معاملات بگڑ رہے تھے‘ ڈان لیکس والا معاملہ ہو چکا تھا اور پانامہ پیپرز کا معاملہ ابھی اٹھا ہی تھا۔ سپریم کورٹ کا حکم آ گیا تھا کہ پانامہ پیپرز کی چھان بین کیلئے ایک مشترکہ تفتیشی ٹیم قائم کی جائے۔ یہ اس وقت کی بات ہے۔ باجوہ تو باجوہ تھے ہی لیکن ایک خاص مقام ان کے سسر محترم کا تھا۔ ایک دو شب کی ان سے شناسائی تھی‘ میزبانی ان کی بہت اعلیٰ قسم کی ہوتی یعنی اہتمامِ میں کسی شکایت کی گنجائش پیدا نہ ہوتی۔ چکوال بیٹھے تھے کہ فون آیا‘ کل شام ساڑھے نو بجے آ جانا لیکن کوشش کرنا کہ اس سے تھوڑا پہلے آ جاؤ۔ مزید انہوں نے کچھ نہ کہا لیکن بات فوراً سمجھ میں آ گئی کہ ساڑھے نو کا ٹائم ان کا نہیں بلکہ ان کے داماد محترم کا ہے۔ یہ سمجھنے میں بھی کوئی مشکل پیش نہ آئی کہ پہلے آنے کا کیوں کہہ رہے ہیں۔ ساڑھے سات بجے ان کے دولت کدے پر پہنچے اور ظاہر ہے اطمینان ہوا کہ سامانِ میزبانی اسلوب سے سجا ہوا ہے۔ بات شروع ہی کر رہے تھے کہ کہا‘ جو نہیں کہنا چاہیے تھا‘ کہ آپ لوگ یہ کیا ڈان لیکس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ان میں سے آپ نے کیا نکالنا ہے۔ موقع تو وہ ہو گا جب پانامہ پیپرز پر جے آئی ٹی بیٹھے گی اور جے آئی ٹی کے چھ ممبران میں سے دو ممبران مخصوص محکموں کے ہوں گے اور وہ موقع ہو گا پانامہ پیپرز کے کرداروں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا۔ منظر کشی کریں کہ معاملاتِ شب جاری ہیں‘ ہم نے وہ کہا جو کہا اور سسر صاحب فوراً بول اٹھے کہ یار مجھے چیزیں یاد نہیں رہتیں‘ یہ تم سب اس کو بتانا۔
تسلیم کر رہے ہیں کہ ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ ہم کون مشورے دینے والے اور مشورے ایسے جو سازش کے زمرے میں آئیں۔ لیکن یہاں معاملات ایسے ہی چلتے ہیں۔ جن کو سیاست نہیں کرنی چاہیے وہ سیاست کرتے ہیں اور جن کو صحافت کے دائرے میں رہنا چاہیے وہ درباری یا سازشی بن جاتے ہیں اور اس پر اِتراتے بھی ہیں۔ ساڑھے نو بجے طمطراق والی گاڑی آئی۔ قریب ہی بڑا گھر تھا‘ وہاں پہنچے‘ کھانا بھی ہوا اور دورانِ کھانا وہ مشورہ بھی جو نہیں دینا چاہیے تھا‘ دیا اور میزبان نے بھی نہیں ٹوکا کہ ایسی باتیں کرنا مناسب نہیں۔ بلکہ انہوں نے تو یہ فرمایا جو ایک دو بار میں بیان کر چکا ہوں کہ مجھ پرکسی نے احسان تو نہیں کیا‘ کرتے نا فیصلہ میرٹ پر اور لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم (آف موضع نیلہ تحصیل چکوال) کو آرمی چیف بناتے۔ جب اسے نہیں بنایا تو میرے سوا چوائس کیا تھی؟
کبھی سوچ آتی ہے کہ سمجھدار ہوتے تو سسر اور داماد کے تعلقات کا فائدہ اٹھاتے۔ الٹا باجوہ کے آخری دنوں میں ایک تقریر اُن کی طبیعت پر گراں گزری اور لاہور میں ہماری ایک اچھی بھلی شلوار قمیض کا ستیاناس ہو گیا۔
آخری بات فیض حمید کی۔ چکوال میں ان کے خاندان کی ایک شادی کی تقریب تھی۔ میرے پاس بیٹھے اور کہا کہ عمران خان سے ملاقات ہو تو کہنا کہ پہلے باجوہ پر تنقید اب نئے آرمی چیف پر۔ ایسے میں ادارے کی مخالفت بن جاتی ہے جو کہ اچھی بات نہیں۔ یعنی تحمل اور احتیاط کا کہہ رہے تھے۔ جنرل فیض حمید کی فیملی سے ہمارے پرانے تعلقات ہیں۔ اب بھی ملتے ہیں۔ انتخابات میں انہوں نے میری بھرپور حمایت کی۔ آج کل ان پر مقدمہ چل رہا ہے اور طرح طرح کے الزامات ہیں۔ اصل میں بات کچھ اور ہوتی ہے لیکن جو بات مجھ سے کہی اس سے ان کی حقیقت پسندانہ سوچ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔