دشمن کو رہنے دیجئے جتایا تو ہمیں جاتا ہے کہ دیکھو واشنگٹن سے ہماری یاری ہو گئی۔ یاری کیا ہوئی دنیاکے تمام مسائل حل ہو گئے اور مملکت کی بخشش بھی ہو گئی۔ پہلے فیلڈ مارشل یعنی ایوب خان جب دورے پہ گئے تھے تو مسز جیکولین کینیڈی کے ساتھ گھڑ سواری کی تصویریں ہمیں یاد ہیں۔ دوسری بار امریکہ گئے تو صدر لنڈن جانسن کے گالوں کو اپنی انگلیوں میں لیا۔ یحییٰ خان نے تو امریکہ اور چین کے درمیان پُل کا کردار ادا کیا۔ ضیا الحق تھے تو افغان جہاد کے کرشمات اپنے زوروں پر آئے اور امریکہ اور پاکستان کی یاری ایسے لگی کہ کبھی ٹوٹے گی نہیں۔ مشرف آئے افغانستان کا دوسرا ایڈونچر شروع ہوا اور اس بار بھی مشرف کی پذیرائی واشنگٹن میں ایسی ہوتی کہ گمان گزرتا کہ دوستی ہمیشہ قائم رہے گی۔ یعنی یہ منظر ہم نے متعدد بار دیکھے ہیں۔
یہ اور بات ہے کہ ایوب خان کے برے دن آئے اور اقتدار سے معزول ہونے کے قریب ہوئے تو کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ یحییٰ خان نے پُل کا کردار تو ادا کیا لیکن جب ہندوستانی افواج کی چڑھائی مشرقی پاکستان پر ہوئی تو صدر نِکسن امریکی ساتویں بیڑے کو حکم ہی دیتے رہے کہ خلیج بنگال کی طرف روانگی ہو۔ بیڑہ ان پانیوں میں آ بھی گیا لیکن یحییٰ خان شکست سے بچ نہ سکے۔ پہلا نام نہاد افغان جہاد اپنے آخری دنوں کو پہنچا تو صدر ضیا الحق کا طیارہ بہاولپور کی ہواؤں میں ''پَٹ‘‘ گیا۔ مشرف کا اقتدار زوال کی طرف آیا تو انہیں پناہ دبئی میں ملی‘ پاکستان میں ان کا رہنا محال ہو گیا۔ مطلب یہ کہ بڑی طاقتوں کی مہربانی تب تک رہتی ہے جب تک ان کے مفاد اس طرف اشارہ کریں۔ پاکستان کی تو امریکہ سے آنی جانی والی دوستی رہی ہے۔ اپنے زمانے میں بڑا دوست تو شاہ ایران تھا لیکن کچھ یاد نہیں کہ جب ایرانی انقلاب کی آگ بھڑکی اور شاہ ایران کو اپنی سرزمین سے بھاگنا پڑا تو انہیں امریکہ میں پناہ نہ ملی؟ امریکہ سے پانامہ جانا پڑا اور وہاں سے بھی جلد کوچ کرنی پڑی کیونکہ روایت ہے کہ پانامہ کے حکمران اُمرٹوریجوس (Omar Torrijos) کی عاشقانہ نظر سابقہ ملکہ فرح دیبا پر پڑ رہی تھی۔ مصر کے انور سادات پھر شاہ ایران کے کام آئے اور وہاں شاہ ایران کو آخری پناہ ملی۔ خود میں کوئی چیز نہ ہو تو ایسی دوستیاں کسی کے کام نہیں آتیں۔ قطر نے تو ایک بڑا جہاز تحفے میں صدر ٹرمپ کو دے دیا لیکن اسرائیلی بمباروں نے حملہ کیا تو وہ تحفہ قطر کے کام نہ آیا۔ سعودی عرب نے صدر ٹرمپ کو خوش کرنے کیلئے کیا کچھ نہیں کیا لیکن سعودی عرب سٹریٹجک معاہدہ کر رہا ہے تو پاکستان کے ساتھ کیونکہ وہاں احساس پیدا ہوا ہے کہ اس طغیانی کے دور میں امریکی وعدوں پر اتنا بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ سکیورٹی کے فرائض یا جسے اپنی زبان میں ہم چوکیداری کہتے ہیں اُس سے اوپر ہم نہیں جا سکے۔ امریکی دفاعی معاہدوں میں فرائض نبھائے تو امریکہ سے پیسے اور ہتھیار ملے۔ افغانستان میں شورش پیدا ہوئی تو امریکی مفادات کے تابع امریکی ساز و سامان اور پیسے پھر سے ملنے لگے اور ہمارے حکمران‘ ضیا ہوں یا مشرف‘ خوش ہوتے کہ امریکہ نے ہماری اہمیت کو سمجھ لیا ہے۔ مفادات پورے ہوتے تو نظریں پھِر جاتیں تو یہاں پر رونا پڑ جاتا کہ امریکہ وفادار حمایتی نہیں۔ حالانکہ سمجھ ہمیں نہ آتی کہ سارا کھیل مفادات کا ہے۔
جاپان‘ جنوبی کوریا‘ تائیوان‘ سنگاپور یہ تمام چھوٹے بڑے ممالک امریکہ کے دوست رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ فرق البتہ یہ رہا کہ ان ملکوں نے اور ان جیسے کئی اور ملکوں نے اپنا کردار چوکیداری تک محدود نہ رکھا۔ ان ممالک نے امریکہ سے دوستی رکھی اور اپنے آپ کو ترقی کی راہ پر بھی ڈالا۔ تعلیم کی اہمیت کو ان سارے ممالک نے سمجھا اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے رازوں پر عبور حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ ممالک ایسے ترقی یافتہ ہوئے کہ بہت سی چیزوں میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ گئے۔ جاپان میں موٹر کاریں اور دیگر الیکٹرک کا سامان امریکہ سے بہتر بننے لگا۔ جنوبی کوریا نے بھی ایسا ہی کیا۔ تائیوان دنیا کا سب سے بڑا چِپ (chip) بنانے والا ملک بن گیا۔ سنگاپور چھوٹے سے ملک کو ترقی کی انتہا پر لے گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی جرمنی کو امریکی امداد ملی اور جرمنی ایک معاشی سپرپاور بن گیا۔ چین نے امریکہ سے دوستی کی اور اپنے لیے معاشی ترقی کی راہیں کھولیں۔ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں چینی طالب علم تعلیم حاصل کرنے امریکہ گئے۔ امریکہ چین کی سب سے بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ بن گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے معاشی اور دیگر شعبوں میں چین آج امریکہ کا مقابلہ کر رہا ہے۔
ہم جو امریکہ کے اتنے قریب رہے تحفظ اور سکیورٹی کے معیار سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اس میں امریکہ کی غلطی نہیں ہے۔ امریکہ نے کوئی بے وفائی نہیں دکھائی۔ ممالک وفا اور جفا کے پیمانوں سے مبرا ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مفادات کو اہمیت دیتے ہیں۔ کمزوری کیا نالائقی ہماری تھی کہ امریکی قربت اور دوستی کا صحیح فائدہ نہ اٹھا سکے۔ جہالت کے دائروں سے نہ نکل سکے۔ ملکوں کی ترقی کے کیا راز ہیں وہ نہ بھانپ سکے۔ نعروں میں پیش پیش رہے اور آج تک نعرے ہی لگا رہے ہیں۔ کیا ہے یہاں کی تعلیم کا معیار؟ قومی درسگاہوں اور سائنس اور ٹیکنالوجی کا کیا حال ہے؟ ایک سٹیل مل نہ چلا سکے۔ ریلوے ہم سے نہ چل سکی۔ قومی ایئر لائن نے دوسرے ملکوں کی ایئر لائنوں کو سہارا دیا لیکن خود نہ سنبھل سکی۔ پرانی تصاویر تو دیکھیں کہ ضیا کتنے خوش ہو رہے ہیں صدر ریگن سے ملتے ہوئے‘ مشرف کی گالیں کیسی پھیلی ہوئی ہیں صدر بش کو ملتے ہوئے۔ بس اسی پر رہے کہ دن پھر گئے ہیں اور پیسے آ رہے ہیں اور وارے نیارے ہو گئے ہیں۔
پاکستان کی معاشی صورتحال پر ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ تو کوئی پڑھ لے۔ رپورٹ اعداد و شمار کے ساتھ کہتی ہے کہ پچھلے تین چار سالوں میں غربت یہاں بڑھی ہے۔ کسی رپورٹ کی ہمیں ضرورت نہیں یہ جاننے کیلئے کہ نصف سے زیادہ آبادی کی معاشی حالت اچھی نہیں۔ غربت بڑھی ہے اور بے روزگاری بھی۔ نچلے طبقوں کو چھوڑیے جو اپنے آپ کو مڈل کلاسیے کہتے تھے‘ ان کی بھی چیخیں نکل رہی ہیں۔ قوم کی معاشی حالت نیم مردہ جسم کی سی ہے اور اس جسم سے زیادہ سے زیادہ پیسہ نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سسکتی ہوئی معیشت سے اور کتنا پیسہ نکالا جا سکتا ہے؟ اصل مسئلہ تو ہمارا یہ ہے‘ قرضوں میں دبا ہوا ملک ہے اور اس کی پیداواری صلاحیت بڑھنے کے بجائے سکڑ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی آئی تو نجی کمپنیوں سے بجلی پیدا کرنے کے ناتے ایسے معاہدے کیے کہ قوم کا گلا گھونٹ دیا۔ (ن) لیگی آئے تو انہی خطوط پر مزید ایسے معاہدے کیے۔ یہ مسائل حل کرنے کی آپ میں صلاحیت نہیں تو ہمیں کیا دکھا رہے ہیں اور کسی چیز کا رعب دے رہے ہیں؟
سعودی عرب ہمیں کیا دے گا؟ کچھ پیسہ ہی دے گا اور جیسا ہم پہلے کرتے آئے ہیں مخصوص طبقات کی بغلیں بجیں گی اور قوم کی حالت وہی رہے گی۔ ضیا اور مشرف دور میں جو امریکی امداد آئی اس کا ہم نے کیا کیا؟ سعودی عرب سے کچھ آ جائے گا تو کیا کریں گے؟ بات تو تب ہے کہ ملک اور معاشرے میں بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں۔ تعلیم پر توجہ دی جائے‘ فرسودہ خیالات اور فرسودہ نعروں سے جان چھڑائی جائے۔ آگے کی طرف ہم دیکھیں‘ خوا مخواہ کی دشمنیوں سے نکلیں۔ کیا ہم ایسا کرنے کو تیار ہیں؟ کیا ایسا کرنے کی ہم میں صلاحیت بھی ہے؟