فوکس ہمیشہ اس بات پر ہونا چاہیے کہ ہمارا بڑا تضاد یا بڑا پرابلم کس سے ہے۔ اُس مسئلے سے نمٹنے کے لیے تمام توانائیاں مرکوز ہونی چاہئیں۔ فوکس ذرا دھندلا ہو جائے‘ نظر کبھی دائیں کو جائے کبھی دوسری طرف‘ تو دھیان بٹ جاتا ہے اور توانائیاں بکھر جاتی ہیں۔ اِس وقت قوم کو درپیش سب سے بڑا چیلنج خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی شورشوں سے ہے۔ افواج پر حملے ان شورشوں کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ ابھی تو تقریباً ہرروز کا معاملہ ہو گیا ہے کہ کوئی حملہ خیبر پختونخوا کے کسی علاقے میں ہو رہا ہے یا بلوچستان کے کسی دور دراز کونے میں۔ ہم بے شک کہتے رہیں کہ اتنے فتنہ الخوارج کے عناصر جہنم واصل ہو چکے ہیں لیکن اس سے کوئی انکار تو نہیں کہ ہمارا بھی بھاری جانی نقصان ہو رہا ہے۔ افسروں اور جوانوں کی شہادتیں آئے روز کی خبریں بنی ہوئی ہیں۔ لہٰذا اس امر میں کوئی کنفیوژن نہیں ہونی چاہیے کہ بڑا پرابلم ہماری مغربی سرحد پر ہے اور یہ پیچیدہ اس لیے بھی ہے کہ بالواسطہ یا بلاواسطہ ان شورشوں کو معاونت افغانستان سے مل رہی ہے۔
ہندوستان سے ہماری ازلی دشمنی ہوگی ‘ جو مرضی ہم ہندوستان کے بارے میں کہہ لیں دلیل کے طور پر مان لیا جائے کہ وہ سب حقیقت پر مبنی ہے‘ پھر بھی دانشمندی کا تقاضا ہے کہ ہندوستان کے حوالے سے غیر ضروری بیان بازی سے اجتناب کیا جائے اور ساری توجہ اُس طرف ہو جہاں سے ہماری افواج پر حملے ہو رہے ہیں۔ ہندوستان میں اُن کا کمانڈر اِن چیف یا وزیردفاع یا کوئی اور لایعنی قسم کی پھبتی کستا ہے اتنا حوصلہ تو ہم میں ہونا چاہیے کہ ایسی بڑھکوں کو درگرز کریں اور جواب دینا بھی ہو تو نپا تلا ہواور خوامخواہ کی دھمکیوں سے مبرا ہو۔ جو زبان ہندوستان اور پاکستان کے دھمکی آمیز بیانات میں استعمال کی جاتی ہے ایسی تو انگریزوں اور جرمنوں نے ایک دوسرے کیلئے جنگِ عظیم دوم میں استعمال نہیں کی تھی۔ ہندوستانی کمانڈراِن چیف کہہ رہا ہے کہ پاکستان ریاستی دہشت گردی سے اجتناب نہیں کرے گا تو پاکستان کو دنیا کے نقشے پر اپنا وجود ڈھونڈنا پڑے گا۔ ایسی فضول کی بکواس کے مقابلے میں یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے کہ مٹے گا تو سب کچھ مٹ جائے گا۔ معنی آپ سمجھ گئے ہوں گے۔ ہر بڑھک کا جواب دینا ضروری نہیں ہونا چاہیے۔ نہ یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستانی قوم اعتماد سے اتنی عاری ہے کہ حوصلہ قائم رکھنے کے لیے اُسے بھی بڑھکوں کی ضرورت ہے۔
ہندوستان سے دشمنی کی نوعیت جیسی بھی ہو‘ پاکستان کے فائدے کی بات ہے کہ افغانستان سے جب ہم ایک نازک صورتحال سے گزر رہے ہیں تو جس حد تک ہو سکے ہندوستان کے محاذ کو ہم ذرا ٹھنڈا رکھیں۔ افغانستان اور عراق کی مثالیں اگر دیکھیں تو بیک وقت امریکہ یہ دونوں جنگیں نہیں لڑ سکا تھا۔ جرمنی کے جرنیل یعنی اُن کا جنرل سٹاف کس بات سے ڈرتا تھا؟ کہ جرمنی کو دو طرفہ جنگ نہ لڑنی پڑے‘ مغرب میں انگلستان کے ساتھ اور مشرق میں روس کے ساتھ۔ جرمنی کو کیوں شکست کا سامنا کرنا پڑا؟ کہ بہت سارے محاذ کھول لیے تھے حالانکہ اتفاقِ رائے ہے کہ جرمن فوج اُس وقت دنیا کی طاقتور ترین فوج تھی۔
اس ضمن میں مؤدبانہ گزارش ہے کہ ہمارے وزیردفاع خواجہ آصف کو ذرا روکا جائے۔ جتنے بااختیار ہیں قوم جانتی ہے لیکن یا تو کسی ٹی وی پروگرام میں پہنچے ہوتے ہیں یا قومی اسمبلی میں مورچہ سنبھال لیتے ہیں اور ایسی باتیں کر دیتے ہیں جن کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے حالیہ سیشن میں گئے اور ادھر اُدھر ٹی وی انٹرویو ایسے دے دیے جن میں اُن کی کافی جگ ہنسائی ہوئی۔ سیالکوٹ سے فارم 47 کے کن کرشمات سے منتخب ہوئے سب جانتے ہیں۔ قوم پر کچھ رحم کریں اور غیر ضروری بیانات سے پرہیز کریں۔
ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشنوں میں ہمارے افسر اور جوان خون کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم فوج کے ساتھ کھڑی ہواور قوم کی سوچ میں کوئی کنفیوژن نہ ہو۔ ایک خوا مخواہ کی بیماری جو ہم نے اپنے لیے پیدا کی ہوئی ہے وہ اندرونی سیاسی خلفشار ہے۔ کوئی نہ کوئی حل تو اس کا نکلنا چاہیے نہیں تو دھیان بٹا رہے گا جوکہ اچھی بات نہیں۔ 2014ء میں جو وزیرستان میں آپریشن شروع کیے گئے تھے اُن کے کامیاب ٹھہرنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ قوم متحد تھی اورمسلح افواج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی تھی۔ ایسی ہی کیفیت آج ہونی چاہیے۔ ساتھ ہی جیسے اوپر عرض کیا ہمارے مفاد میں یہ قطعاً نہیں کہ ایک طرف خیبر پختونخوا میں آپریشنوں میں شدت آ رہی ہے اور ساتھ ہی ہندوستان کے ساتھ تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی تھیں تو کسی انڈین ذریعے سے انٹرنیٹ پر خبر پڑھی کہ سیالکوٹ بارڈر پر دونوں اطراف سے ٹینکوں کی تیاری یا ڈپلائمنٹ ہو رہی ہے۔ ظاہر ہے اگر ایسی خبر میں کوئی حقیقت ہے تو تشویش کی نظر سے ہی دیکھی جائے گی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مئی میں پاک بھارت جھڑپوں کے بعد درجۂ حرارت کو تھوڑا نیچے لایا جاتا اور لفظی گولہ باری سے اجتناب کیا جاتا۔ جہاز توہم نے گرا لیے تھے‘ مزید ہم نے کیا ثابت کرناتھا؟ دنیا بھی جان گئی کہ ہوائی مقابلے میں برتری ہماری رہی۔ جب حقائق آپ کے حق میں بول رہے ہوں تو پھر زیادہ اونچی آواز میں بولنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ مئی کے بعد کوشش ہونی چاہیے تھی کہ کسی نہ کسی ذریعے سے پاک بھارت رابطہ قائم ہو اور خوامخواہ کی اشتعال انگیزی سے دور رہا جائے۔ آخر جھڑپ کے دنوں میں بھی رابطہ ہمارا رہا تھا۔ ڈی جی ملٹری آپریشن دونوں اطراف سے کسی نہ کسی طریقے سے رابطے میں تھے‘ اس کوشش میں کہ بڑھتے بڑھتے حالات بالکل کنٹرول سے باہر نہ ہو جائیں۔ جب دونوں ملکوں کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہوں تو بات بڑھنے کا خطرہ تو رہے گا۔ اُن دنوں اگر رابطے ہو سکتے تھے تو بعد میں کیوں نہیں؟ بے شک حملے کی پہل ہندوستان نے کی تھی لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ ہوائی معرکے میں پلڑا ہمارا بھاری رہا۔ ایسے میں اعتماد کا مظاہرہ ہماری طرف سے ہونا چاہیے تھا۔ یہ کتنی بار دہرایا جائے کہ جہاں اعتماد کی کمی ہو وہیں سے اونچی آواز میں بولا جاتا ہے۔ بہرحال تب اگر کچھ نہیں ہوا اب بھی کوشش ہونی چاہیے کہ خوامخواہ کی اشتعال انگیزی ختم ہو۔ جہاں اسرائیل اور حماس میں بالواسطہ رابطے ہو سکتے ہیں تو کس حکیم کا نسخہ ہے کہ ہمارے دو ممالک میں جنون کی کیفیت قائم رہے۔
کچھ یہ بھی احساس رہے کہ جو کچھ آج پاکستان اور افغانستان کے درمیان صورتحال پیدا ہو چکی ہے پاکستان کی 45سالہ افغان پالیسی کی مکمل ناکامی کی مظہر ہے۔ کیا کیا فلسفے گھڑے گئے تھے افغانستان کے معاملات میں دخل اندازی کرنے کیلئے۔ اسلامی اخوت کا نعرہ لگایا گیا‘ سٹریٹجک گہرائی کے سہانے خوابوں کا ذکر ہوتا رہا‘ ہندوستانی اثر کو افغانستان سے بے دخل کرنے کی بات ہوئی۔ آج وہ تمام باتیں الٹ ہو گئی ہیں۔ پاکستان کوسٹریٹجک گہرائی ملنے کے بجائے سٹریٹجک گہرائی ٹی ٹی پی کو ملی ہوئی ہے۔اور اسی وجہ سے حملے پاکستان پر ہو رہے ہیں۔ ہندوستانی اثر کی بے دخلی کے بجائے ہندوستان کے روابط افغانستان سے پھر قائم ہو رہے ہیں۔تب کوئی پاکستان کی افغان پالیسی پر سوال اٹھاتا تو غداری کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ بہرحال جو ہوا سو ہوا‘ اب نئی راہیں ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔