"AYA" (space) message & send to 7575

اس لڑائی سے کوئی چھٹکارا نہیں

لڑائی اتنی طالبان سے نہیں جتنی کہ چالیس سالہ حماقتوں سے۔ اس لمبے عرصے کی حماقتوں کا ایک بوجھ پاکستان نے اٹھائے رکھا اور مزے کی بات یہ کہ اس رویے کے پیچھے ضیاالحق سے لے کے حالیہ سالوں تک مکمل اتفاقِ رائے رہاکہ یہی ٹھیک پالیسی ہے اور اسی میں پاکستان کا مفاد ہے۔ اس مؤقف سے ہٹ کر کوئی آواز اٹھائی نہ جاسکتی تھی۔ ہمارے کرتے دھرتے ہوں یا وزارتِ خارجہ کے پردھان‘ اس پورے عرصے میں اس رٹ پر لگے رہے کہ افغانستان کے تندور میں کودنا اور افغانستان کا بوجھ اُٹھانا ہمارا دینی اور قومی فریضہ ہے۔
آج سب کچھ اُلٹ ہو گیا ہے کیونکہ طالبان نے سابقہ ادوار کے افغانوں کی طرح یہ ثابت کیا ہے کہ وہ پہلے افغان ہیں اور پھر کوئی اور چیز۔ یہ کبھی نہ بھولا جائے کہ طالب یا غیر طالب کوئی ایک افغان نہیں جو پاک افغان سرحد یا ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرتا ہو۔ اس کی قانونی حیثیت سے ہر مکتبہ فکر کا افغان انکاری ہے۔ جب تک پاکستان افغان مفادات کا ٹھیکیدار بنا رہا تب تک طالبان اور دیگر افغان پاکستان کو سلام کرتے رہے۔ جونہی ہماری ضرورت ختم ہوئی طالبان نے ہمیں آئینہ دکھا دیا اور ہمارے پردھان یہ کہتے رہ گئے کہ افغان بڑے بے وفا لوگ ہیں اور جو کچھ چالیس سال اُن کیلئے کرتے رہے وہ سب کچھ بھول گئے۔ بین الاقوامی تعلقات میں وفا نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ کل تک ہم طالبان کے سگے بنے رہے اور آج حیرت سے تک رہے ہیں جب افغان اور ہندوستانی وزرائے خارجہ ایک ہی زبان بول رہے ہیں۔
بہرحال ماضی کا کب تک رونا روتے رہیں گے‘ جو بیوقوفیاں ہونی تھیں ہو گئیں۔ اب تو آج کی حقیقتوں کا سامنا کرنا ہے اور اس ضمن میں یہ کہنا درست لگتا ہے کہ طالبان کے ساتھ ڈائیلاگ نام کی چیز کی کوئی افادیت یا اہمیت نہیں۔ بندوق کے سہارے طالبان تحریک پروان چڑھی‘ بندوق اور بموں کے ذریعے طالبان کو امریکیوں نے کابل سے نکالا اور اٹھارہ انیس سالہ عسکری جدوجہد کے بعد طالبان افغانستان کے دوبارہ حاکم بنے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ بندوق کی زبان وہ سمجھتے ہیں کیونکہ اس زبان کے علاوہ اُن کی کسی اور فلسفے سے شناسائی نہیں۔ تحریک طالبان پاکستان طالبان کی نظریاتی حمایتی اور ہمنوا ہے۔ جیسے طالبان نے طویل جدوجہد کے بعد امریکہ کو افغانستان سے رخصت ہونے پر مجبور کیا اسی طرح سے ٹی ٹی پی والوں کی نظریں خیبرپختونخوا کے سابقہ علاقوں پر جڑی ہوئی ہیں۔ ٹی ٹی پی جدوجہد اور بندوق کی زبان کی قائل ہے۔ ہمارے لوگ جو ڈائیلاگ کی بات کرتے ہیں خام خیالی کے مرتکب ہیں۔ ٹی ٹی پی اور طالبان ڈائیلاگ سے یہ مطلب لیتے ہیں کہ اُن کے مطالبات من و عن تسلیم کیے جائیں۔ یہ ریاست پاکستان کی بھول تھی کہ بندوق کی منطق سمجھنے والوں سے بات چیت ہو سکتی ہے۔ لہٰذا جو اپروچ ریاستِ پاکستان اب اپنا رہی ہے حالات کے مطابق وہی درست اپروچ ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بڑی دیر کر دی مہرباں آتے آتے۔
کچھ تاریخ بھی پڑھ لی جائے۔ افغانوں نے ہندوستان کے باسیوں پر حکومت کی ہے یا ان سے برسرپیکار رہے ہیں۔ احمدشاہ ابدالی کے ہندوستان اور ہندوستان کی ریاستوں سے کبھی اچھے تعلقات نہیں رہے۔ یہ نہ بھولا جائے کہ علاقے کے اعتبار سے ریاستِ پاکستان پرانے ہندوستان کا ایک حصہ ہے۔ یعنی افغانوں اور یہاں کے باسیوں کے تعلقات کا مفہوم ہم پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ موجودہ افغانستان کے بانی احمدشاہ ابدالی نے پانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کو شکست دی ہو گی لیکن اس خطے کے مسلمانوں کے کوئی خیرخواہ نہ تھے۔ پنجاب پر اپنے پے در پے حملوں میں ابدالی فوج کا رویہ ایسا ہوتا تھا کہ تب کی عورتیں افغان فوج کے ہتھے چڑھنے کے بجائے کنوؤں میں چھلانگ لگانے کو ترجیح دیتی تھیں۔ ہم ہیں کہ میزائلوں کا نام کبھی غوری رکھ رہے ہیں کبھی ابدالی۔
افغان حملوں کا راستہ روکاتو کسی پنجابی مسلمان نے نہیں بلکہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوجوں نے۔ مغل سلطنت پر نادر شاہ کے 1739 ء کے حملے کے بعدپنجاب تخت ِ کابل کے زیراثر چلا گیا تھا۔ نادرشاہ کی وفات کے بعد احمد شاہ ابدالی کابل کا بادشاہ بنا تو پنجاب کو اپنی سلطنت کا حصہ سمجھا اور اسی لیے اپنا حق ِ حکمرانی جمانے کیلئے پنجاب پر حملہ آور ہوتا رہا۔ احمدشاہ ابدالی کی وفات کے بہت بعد جب پنجاب میں سکھ سلطنت قائم ہوئی تو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوج نے مغرب یعنی پشاور کی طرف چڑھائی شروع کی۔ افغانوں اور سکھوں میں بہت معرکے ہوئے جس کے نتیجے میں قلعۂ اٹک‘ نوشہرہ اور پھر پشاور پر سکھوں کا قبضہ ہوا۔ انگریز ان علاقوں کے مالک تب بنے جب سکھ سلطنت کو دو جنگوں میں شکست ہوئی اور پنجاب پر انگریزوں کا تسلط قائم ہوا۔ یعنی انگریز سکھوں کے جانشین تھے اور ہم ڈیورنڈ لائن یا پاک افغان سرحد پر اس لیے کھڑے ہیں کہ ہم انگریزوں کے جانشین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی افغان ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتا کیونکہ افغانوں کے ذہن میں یہ خیال ہے کہ ان سارے علاقوں پر ہماری بادشاہی ہوتی تھی۔ اس پس منظر کو دیکھیں تو افغانوں اور ہمارے درمیان مہذب تعلقات قائم ہو سکتے ہیں‘ جسے دوستی کہا جاسکتا ہے وہ دُور کی بات ہے۔ نام نہاد افغان جہاد کے دوران اور اس کے بعد یہ ہمارے پردھانوں کی خام خیالی تھی کہ جو انہوں نے سمجھ لیا کہ ڈالر اور ریال جائیں گے اور امریکی سٹنگرمیزائلوں سے روسی ہیلی کاپٹر گرائے جائیں گے تو تاریخ کے تمام اوراق کو بھلا کر افغانستان اور پاکستان میں گہری دوستی کے رشتے قائم ہو جائیں گے۔ ہمارے بڑوں کی خام خیالی کا احساس طالبان ہمیں آج دلا رہے ہیں۔
لہٰذا حضور‘ ڈائیلاگ کی بات ضرور کیجئے‘ چہرے پر مسکراہٹ رکھئے اور اندازِ بیان دھیما رہے لیکن سمجھ لیجئے کہ مغربی ہمسائے کے ساتھ ڈائیلاگ وائیلاگ کوئی اہمیت نہیں رکھے گی اور زبان جو سمجھی جائے گی بندوق کی زبان ہی ہوگی۔
اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ حکمت سے ہم بالکل عاری ہو جائیں۔ اشتعال کی زبان استعمال وہ کریں توکریں ہمیں آواز نیچی رکھنی چاہیے۔ جہاں ممکن ہو تجارت اور آمدورفت کی بندش سے پرہیز برتا جائے لیکن بنیادی نکتہ یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ ایک لمبی جنگ ہے اور ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارا نہیں کہ ڈٹ کر یہ مقابلہ کیا جائے۔ دیگر کوئی آپشن نہیں۔ صوفی محمد جو مالاکنڈ میں شریعت نافذ کرنے چلے تھے اُن سے کوئی ڈائیلاگ ہوسکتی تھی؟ بیت اللہ محسود‘ نیک محمد‘ حکیم اللہ محسوداور اب نورولی محسود کی ٹی ٹی پی‘ جس کا مطالبہ ہے کہ سابقہ قبائلی علاقوں میں شریعت نافذ کی جائے اور ٹی ٹی پی کی نقل و حرکت پر کوئی قدغن نہ ہو۔ یعنی ریاستِ پاکستان اُن کے سامنے سرینڈر کر جائے۔ آزما لیجئے‘ ٹی ٹی پی والے ان مطالبات سے کبھی نہیں ہٹیں گے۔ وہ تو یہ سمجھتے ہیں کہ برطانوی ایمپائر کو افغانوں نے شکست دی ‘ روس کو افغانستان سے بھگایا اور پھر اٹھارہ انیس سالہ جدوجہد کے بعد امریکیوں کو افغانستان سے نکالا۔ تو پاکستان کے ساتھ بھی ہم ایسا کیوں نہ کر سکیں گے؟ ایسی منطق کے ساتھ کوئی ڈائیلاگ ہوسکتی ہے؟
التماس البتہ اتنی ہے کہ اتنی ٹھوکروں اور تجربات کے بعد ریاست کی سوچ میں کچھ میچورٹی آنی چاہیے۔ وقتی مصلحتوں کے تحت کتنے مسلح قسم کے گروہ پالے گئے جو بعد میں دردِ سر بنے۔ ایم کیو ایم سے لے کر افغان گروہوں تک‘ کشمیر کے نام پر جہاد کرنے والوں سے لے کر یہ جن کے خلاف مریدکے میں آپریشن ہوا ہے‘ سب کو دیکھ لیں‘ کہاں سے آئے اورکہاں تک پہنچے۔اب تو یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں