"AYA" (space) message & send to 7575

عیاشی کے لمحات

پنجابی مہینے کَتک کے بارہ دن گزر گئے اور گرمی کا زور ٹوٹ گیا۔ دھوپ میں بیٹھا نہیں جاتا لیکن جو ہمارے صحن میں بیری کا درخت ہے اس کے نیچے سونے کا اپنا مزہ ہے۔ شامیں بہت ہی خوشگوار ہو گئی ہیں کیونکہ یہی دو تین ماہ ہوتے ہیں جن میں شمالی پنجاب کا موسم قاتل ہو جاتا ہے۔ اب موسم کا سماں ایسا ہے کہ شہر جانے کو بالکل جی نہیں کرتا۔ بال تھوڑے بڑھ جائیں تو اسلام آباد کا سفر مجبوری بن جاتا ہے نہیں تو یوں سمجھیے دیہات کے ہی ہو کے رہ گئے ہیں۔
صبح چکوال سے اخباریں آ جاتی ہیں۔ کافی اور اخباروں میں صبح کٹ جاتی ہے‘ دیسی گھی کے پراٹھے کے بعد بیری کے نیچے لیٹنا اور پھر ریڈیو سیلون سے پرانے گانوں کے سنگیت کی لوری میں نیند کا جھٹکا آنا۔ اُٹھ کے تھوڑا سا چل دیے اور پھر شام کے سائے گہرے ہوئے تو شام کا کچھ اہتمام کر لیا۔ ہمارے چینی بھائیوں نے بہت سے اچھے کاموں میں ایک یہ کیا ہے کہ جنوب میں کہیں اپنی ضرورت کیلئے ایک پلانٹ لگا لیا ہے جس کا سامان اب پرمٹ شدہ گزرگاہوں میں پہنچ چکا ہے۔ ہمارے ایک مہربان کی بدولت پاک چین دوستی کی یہ انمول نشانی گھر پہنچ جایا کرتی ہے۔ نہ تردد نہ کسی قسم کا دردِ سر‘ شاموں کا بندوبست ہو گیا ہے۔ یہ موسم اور یہ باقی چیزیں‘ تو تنہائی کا احساس جا چکا ہے۔ موسم بدلے گا تو پھر دیکھیں گے۔ بالن ویسے ہی کافی پڑا ہوا ہے‘ جاڑے کے دن آئیں گے تو آگ کا اہتمام ہو جائے گا۔ اندازہ کیجیے کیکر کی آگ ہو اور شام کا اہتمام۔ ساتھ تندور بھی دہک رہا ہو‘ بتائیے اور کیا چاہیے۔
ہمارے گاؤں اور ملحقہ علاقہ کے ساتھ عجیب ہوا ہے۔ وہ وقت بھی تھا کہ بھگوال پہنچتے لگتا کہ درۂ خیبر کے اس پار جا رہے ہیں۔ اب سڑکوں کا سلسلہ ایسا بنا ہے کہ اسلام آباد بالکل ہی قریب پڑتا ہے اور لاہور بھی جانا ہو تو موٹروے کی وجہ سے سفر آسان ہو گیا ہے۔ بس موٹرکار اپنی ہو اور پٹرول کیلئے جیب میں کچھ پیسے۔ یہ تبدیلیاں ہمارے سامنے ہوئی ہیں اور انٹرنیٹ نے شہر اور دیہات کا فرق مٹا دیا ہے۔ صحافت جب شروع کی تھی تو صحافت صرف بڑے شہروں میں رہ کر ہو سکتی تھی کیونکہ ترسیل اور کمیونیکیشن کا کوئی نظام ہی نہ تھا۔ چکوال میں ایکسچینج کے ذریعے ٹرنک کال کرنا محال ہوتا اور مجھے یاد ہے کہ ایکسچینج میں بیٹھے ہوئے آپریٹروں کا نخرا کسی راجے مہاراجے سے کم نہ ہوتا۔ اب بیری کے نیچے کالم ڈکٹیٹ ہو جاتا ہے اور اسی اثنا ایک ٹَچ سے اپنی منزل کو پہنچ جاتا ہے۔ کتنے دیہاتی نوجوان ملتے ہیں جن سے پوچھو کیا کرتے ہو تو کہتے ہیں آن لائن کام کرتے ہیں۔ یعنی یہیں بیٹھ کر اپنے حصے یا قسمت کے ڈالر کما رہے ہوتے ہیں۔
والد صاحب نے 1930ء کی دہائی میں گاؤں کا موجودہ گھر اور بنگلہ بنایا تھا لیکن بعد میں چکوال منتقل ہو گئے‘ وہیں سیاست اور کاروبار کیا اور بنگلہ بے رخی کی وجہ سے کھنڈر بنتا گیا۔ یہ تو زمانہ بدلا اور ہم نے صحافت میں جو تیر چلانے تھے وہ چلا دیے اور عمر کے اس حصے کو پہنچے کہ ہم دیہات کی طرف لوٹ آئے اور اب ہر گزرتا دن اتنا بھلا لگتا ہے کہ یہیں ٹھہراؤ کرنے کا خیال پختہ ہوتا جاتا ہے۔ خیالی پلاؤ بہت بنتے ہیں کہ کچھ بھیڑ بکریاں ہوں‘ ایک دو گائے بھینس‘ ایک آدھ گھوڑا اور ایک عدد اونٹ بھی ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اب تک یہ خیالی گھڑ سواری ہے‘ ہمت بندھتی جا رہی ہے دیکھیں آنے والے دن کیا رنگ لاتے ہیں۔
بیری کے نیچے لیٹے خیال بلوچستان کے حالات اور خیبرپختونخوا کی طرف بھی جاتا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ وہاں کی خونریزیاں یہاں سے بہت دور لگتی ہیں۔ کیا گزرتی ہو گی اُن پر جو وہاں کے خونی حالات میں پھنسے ہوئے ہیں؟ خیال آتا ہے پر چلا جاتا ہے۔ ریڈیو سیلون کی دھنیں سُن لی جاتی ہیں‘ کبھی کبھار استاد بڑے غلام علی خان کا کوئی راگ لگ جاتا ہے۔ شام کو ویسے بھی چینی بھائیوں کی نشانی کی وجہ سے ایک مختلف سماں بندھ جاتا ہے۔ انسانی فطرت ہے‘ اپنے حال میں انسان محو ہو جاتا ہے اور دوسروں کا درد یا تکلیف ایک واجبی سے انداز سے ہی محسوس ہوتی ہے۔ مخصوص علاقوں کی خونریزی کے علاوہ بھوک اور ننگ کی یہاں کوئی کمی نہیں۔ یہ خبریں بھی تو ہم سب پڑھ لیتے ہیں کہ فاقہ کشی یا حالات سے تنگ فلاں باپ یا ماں نے بچوں سمیت گہرے پانیوں میں چھلانگ لگا دی۔ انسان پڑھتا ہے اور صحن میں لگے درختوں پر چڑیوں کے چہچہانے کی آوازیں آتی ہیں۔ قاتل موسم اپنا رنگ دکھاتا ہے اور فاقہ کشی اور مصیبتوں کی داستانیں ذہن سے پیچھے چلی جاتی ہیں۔
پژمردگی میں رہنے کی بات نہیں لیکن اپنی تاریخ کے نشیب و فراز دیکھ کے وہ جوانی کی تڑپ کہ یہاں یہ کچھ ہونا چاہیے اور جب کچھ ہوگا ہم اُس کے ہراول دستے میں ہوں گے ایسے خوابوں اور تمناؤں کی یادیں اب دھندلکی پڑ چکی ہیں۔ ہمارے حالات ہی کچھ ایسے ہیں کہ ہونے ہوانے کی گنجائش بہت کم ہو گئی ہے۔ جیسے ہم وقت ٹَپا رہے ہیں لگتا تو یہی ہے کہ ملک بھی وقت ٹَپا رہا ہے۔ فرق البتہ اتنا ہے کہ ذاتی حیثیت سے مانگے تانگے پر گزارا نہیں کرتے۔ چاہے حُبِ چین کی نشانیاں ہوں یا راہِ الفت کے سنگ میل اس تمام آوارگی پن کا مظاہرہ اپنی جیب سے کرتے ہیں۔ یعنی جو کمائی ہے وہی کھاتے ہیں‘ اس سے زیادہ نہیں۔ ملک و قوم کی حالت البتہ مختلف ہے۔ سارا کچھ ہی مانگے تانگے پر چل رہا ہے۔ اور اس پر افسوس ہوتا ہے کہ ایسا ہونا نہیں چاہیے۔ کہاں خودی کی وہ باتیں جو حکیم الامت کی شاعری میں پنہاں ہیں اور کہاں یہ حقیقت۔
بطورِ ریاست خوامخواہ کی نمائش یہاں کچھ زیادہ ہی ہو گئی ہے۔ جن عادات یا رویوں سے اجتناب کیا جا سکتا ہے انہیں گلے لگا لیا ہے۔ ہاتھ پھیلانے میں ماہر ہو گئے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ اب تو شرم بھی نہیں آتی۔ ذاتی طور پر بیری کے نیچے لیٹے آسودگی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چادر سے زیادہ پاؤں نہیں پھیلائے۔ نسبتاً پرانی گاڑی میں سفر ہوتا ہے اور کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ ٹکڑا زمین بیچ کر کسی بڑی گاڑی کا بندوبست کیا جائے۔ ایک دفعہ پرائیویٹ سکولوں کے ایک سلسلے کے مالک سرگودھا سے ملنے آئے۔ ان کی خاطر تواضع کی لیکن بخدا کم از کم چھ بار انہوں نے کہا ہو گا کہ آپ بڑے سادے انداز میں رہتے ہیں۔ اتنی بار انہوں نے یہ کہا کہ میں تھوڑا سا چڑھ بھی گیا۔ بنگلے میں کچھ پرانی چیزیں اور قالین وغیرہ پڑے ہوئے ہیں لیکن ہماری سادگی کی تعریف ہوتی رہی۔ بعد میں پتا چلا کہ ان کا ڈرائیور ہمارے ڈرائیور سے پوچھتا رہا کہ آپ کی گاڑیاں کتنی ہیں۔ ان کی شاید توقع یہ تھی کہ ماڈرن قسم کا فارم ہاؤس ہو گا‘ بڑا سا گیٹ ہو گا جس پر کلاشنکوف بردار گارڈ ہوں گے اور اندر گاڑیوں کی ایک لائن ہو گی۔ سوچا جائے تو یہی یہاں کا کلچر بن چکا ہے‘ امیر لوگوں کا اور غریب ریاست کا بھی۔ دکھاوے کی باتیں کم ہو جائیں تو ہمارے اجتماعی ماحول کیلئے بہتر ہو گا۔ لیکن پھر یہ بھی سوچ آتی ہے کہ جہاں فیکٹریاں بند ہو رہی ہوں اور ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنتی جا رہی ہوں وہاں کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟
یہی وجہ ہے کہ فکرِ ملت کے بجائے زیادہ تر فکرِ شب ہی رہتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں