مقابلہ لانگری بٹالین اور جی جی بریگیڈ کے درمیان ہے، حُسن کا رکردگی کا مقابلہ۔
جب تک وزیرِ اعظم کے صوابدیدی فنڈز موجود ہیں یہ مقابلہ جاری رہے گا۔
اگر صرف اچھے اور برے کی تمیز کرنا ہی ''وجہ عناد‘‘ ہے تو پھر یہ نوحہ گری ہے کیا؟ ذرا دلائل دیکھ لیجیے۔
1۔ وزیر اعظم کے بیٹے کی تصویر لیک کرنے والے کو پکڑا جائے لیکن وزیر ِاعظم ہائوس سے سکیورٹی اداروں کی گفتگو لیک کرنے والے یا والی کو چھوڑ دیا جائے۔ پی ایم ہائوس لیکس پر تو آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی کی دفعہ لگتی ہے‘ لیکن سوال یہ ہے کہ تصویر لیک کرنے پر تعزیراتِ پاکستان کی کون سی دفعہ لگتی ہے؟؟؟ میں نے بہت ڈھونڈا مجھے ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔
2۔ جے آئی ٹی کے شوقین تاج داروںکے حق میں فیصلہ دینے والی ماڈل ٹائون جے آئی ٹی المعروف پنجاب پولیس ''ماسی گروپ‘‘ کی رپورٹ لیک کرنا ٹھیک ہے۔ لیکن ماڈل ٹائون قتلِ عام پر جسٹس باقر نجفی کمشن رپورٹ کو دبا کر رکھنا عین انصاف ہے۔
3۔ ڈاکٹر عاصم کی جے آئی ٹی ریکارڈ نگ کو لیک کر کے ٹی وی چینل پر چلانا ٹھیک ہے لیکن پی ایم نواز شریف کی جے آئی ٹی کی ریکارڈنگ جمہوریت، شریعت، طریقت، سیاست، نفاست بلکہ ریاست کے لیے سب سے بڑا سکیورٹی رِسک۔
4۔ سپریم کورٹ میں کالا کوٹ پہن کر صدرِ پاکستان کے خلاف پٹیشنر بن کر جانا اور مطالبہ کرنا کہ میمو گیٹ والے نواز شریف کے دریافت کردہ ملزموں کو آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت دی جائے اور پھر اس پر عدالتی کمیشن کی تفتیش درست ہے‘ لیکن بین الاقوامی صحا فیوں کی لیک کردہ پانامہ منی لانڈرنگ سکینڈل پر سپریم کورٹ کی کارروائی کو انصاف کی بجائے بندوق تان لینے سے تشبیہ دینا عدلیہ کی آزادی کی ضمانت ہے۔
5۔ ڈان لیک میں فرینڈلی ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے ارکان کو شامل کرنا بالکل درست ہے، جائز، مباح اور نظریہ ضرورت کے عین مطابق بھی‘ لیکن آئی ایس آئی کا وہی آفیسر اور ایم آئی کا وہی نمائندہ پانامہ جے آئی ٹی میں شامل کرنا قصائی کی دکان کھولنے کے مترادف ہے۔
6۔وزیرِ اعظم شہید بھٹو کی بیٹی وزیرِ اعظم شہید بی بی اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے ڈھائی سال کا بچہ گود میں اُٹھا کر اور ساڑھے 4 سال کی بیٹی انگلی سے لگا کر تھانہ، کچہری، جیل کے چکر لگائے تو یہ قانون کی بالا دستی کا ثبوت ہے۔ لیکن 3 عدد شادیاں کرکے متعدد بچوں کا باپ بن جانے کے بعد 40‘45 سالہ ''معصوم بچہ‘‘ شاملِ تفتیش ہو جائے تو تاریخ میں ظلم کی داستان لکھی جائے گی۔ منی لانڈرنگ سوئٹزرلینڈ میں ہو جائے تو حرام‘ قطر، ترکی، دبئی، جدہ، پانامہ ، لندن منی لانڈرنگ سے فیض یاب ہوں تو سمجھیے پاکستان کی عزت دوچند ہو گئی۔ فارن پالیسی کامیاب ٹھہری‘ مسلم دنیا سرخرو ہوگئی اور مغرب ہمارے مال و زر، دَبدبے کے سامنے سجدہ ریز ہو گیا۔
7۔ اپوزیشن کی تفتیش کرنی ہو تو پرچہ درج کیے بغیر علامہ اقبال کے پوتے کو سڑک پر گھسیٹا جا سکتا ہے، تھانے میں بند کیا جا سکتا ہے۔ اس کی فوٹیج ٹی وی چینلز پر چلائی جا سکتی ہے‘ مگر شریف صاحب کا پوتا ملک کی آخری عدالت میں تفتیش کے لیے بلایا جائے تو وفاقی حکومت کی ایمبولینس اس کی تفریحِ طبع کے لیے از خود پہنچ جاتی ہے۔ علامہ اقبال اور شریف صاحب کے پوتے میں فرق صاف ظاہر ہے۔ لیکن علامہ اقبال صاحب نے خواب دیکھنے کے علاوہ اور کِیا بھی کیا۔ کبھی اُندلس کی بحالی کے خواب دیکھے کبھی ہندی مسلمانوں کی آزادی کا خواب دیکھا، کبھی نوجوانوں کو شاہین بنانے کا خواب۔ کبھی خودی کو بلند کرنے کا خواب۔ بیچارے علامہ اقبال صاحب انگلستان سے نورستان تک جا پہنچے لیکن نہ کوئی آف شور کمپنی بنائی نہ بیرونِ ملک سرمایہ کاری کی۔ نہ جاوید اقبال کے لیے مے فئیر میں دو چار فلیٹ خرید سکے۔ بے چین مسلمانوں کی خواب سر ا کا یہ باسی ایک ایسا ہیرو ہے جس کے چاہنے والے ولید اقبال ایڈووکیٹ کے کیمپ میں نہیں لانگری بٹالین اور جی جی بریگیڈ میں پائے جاتے ہیں۔ اس لیے اقبال کا شاہین آج کل ان لوگوں کے لیے ''بٹیرا‘‘ ہے جو ان کے پائوں کے نیچے آ گیا۔ جواباً نواز شریف کے مفادات کا ''بٹیرا‘‘ ان بندگانِ شکم کے ہاتھی والے پائوں کے نیچے آیا ہوا ہے۔ اگلے روز آزادیِ اظہار سے متعلق ملک کے اہم ترین مقدمے میں جسٹس عظمت سعید اور جسٹس سجاد علی شاہ کے روبرو پیش ہونے کا موقع ملا۔ دونوں نابغہء روزگار جج صاحبان نے وفاقی حکومت کی ہٹ دھرمی پر ریمارکس دیے کہ آزادیِ اظہار اور Freedom of Press شہریوں کا بہت ہی قیمتی بنیادی حق ہے۔ اس حق کے حوالے سے عدالت وفاقی حکومت کو "license to kill" نہیں دے سکتی۔ ساتھ یہ بھی کہہ دیا‘ جو ضابطہ یا فیصلہ ایک فریق کے لیے ہو گا حکومت یاد رکھے باقی بھی اسی کے نیچے رکھے جائیں گے۔ یہی عدالت پانامہ کا مقدمہ سن رہی ہے۔ جس میں حاکمِ وقت کا موقف پٹواریوں اور کلرکوں کے احتساب پر داد و تحسین برساتا ہے لیکن اپنی باری آ جائے تو شاہی خاندان اور ان کے درباریوں کی چیخیں ہمالیہ کا کلیجہ پھاڑ دیتی ہیں۔
8۔ سٹیٹ بینک اسحاق ڈار کی منی لانڈرنگ کے اعترافی بیان میں موجود ہمراہی ملزم کی حد تک قابلِ قبولِ ہے لیکن تفتیش کرنے والا آفیسر بالکل نامنظور۔ ایس ای سی پی کا ادارہ ریکارڈ میں خُرد بُرد کرنے والوں کی حد تک بہترین ٹھہرا، تفتیش کرنے والا جے آئی ٹی کا رکن نامنظور نامنظور۔ اگلے دن سپریم کورٹ پریس رپوٹرز کی میرے ساتھ افطاری میں 5 ستارہ ہوٹل کا ایک ملازم آ کر کان میں پڑا۔ جے آئی ٹی کی ایک اہم ملاقات کا اِنکشاف کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اسے پہچان لیا‘ وہ سول سپائی ماسٹر کا اہلکار تھا۔ بے چارہ بے وقت ڈیوٹی پر۔
جب سے حسین نواز شریف کی تصویر کُرسی سمیت لیک ہوئی میں نے تعزیراتِ پاکستان، آفیشل سیکرٹس ایکٹ، کارِ سرکار کے سارے قانون پھر سے کھنگالے، کوئی ایسی دفعہ یا ضابطہ نظر نہیں آیا جِس کے تحت زیرِ تفتیش ملزم کی ویڈیو یا تصویر بنانا جُرم ہو یا ممنوع۔ عالمی قوانین کا بھی یہی حال ہے گرل فرینڈ کو ہلاک کرنے کے مبینہ ملزم او جے سِمپ سَن کا مقدمہ ساری دنیا نے ٹی وی پر دیکھا۔ اُس کا دفاع کرنے والے وکیل صاحبان کو میڈیا سے وکلاء کی ''ڈریم ٹیم‘‘ کا خطاب مِلا تھا۔ سابق امریکی صدر بِل کلنٹن کی تفتیش کے دوران آزاد وکیل کینتھ سٹار کی جرح کی ویڈیو ساری دنیا نے دیکھی۔ امریکی صدر نے اپنی غلط بیانی پر قوم سے علیحدہ معافی مانگی اور بیٹی سے علیحدہ۔ مُرتضیٰ بھٹو جوڈیشل کمشن‘ جِس کے سر براہ سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج جَسٹس ناصر اسلم زاہد تھے‘ نے شہید بی بی کو کٹہرے میں کھڑا کرکے نہ صرف اُن کا بیان قلم بند کیا بلکہ ان کی ویڈیو اور تصویریں بھی بنائیں۔ تب بھی نواز شریف صاحب ہی وزیرِ اعظم تھے۔ اس کمشن کے روبرو بی بی کی وکالت میں نے کی۔ ایسوسی ایٹیڈ پریس آف امریکہ کے آرکائیو میں زیرِ تفتیش سابق وزیر ِاعظم بی بی کی ویڈیو کلپ آج بھی موجود ہے۔ رمضان سے کچھ دن پہلے شہید بھٹو کے ٹرائل کی آڈیو ریکارڈنگ‘ جو تین بکسوں میں بند آڈیو ٹیپس پر مُشتمل تھی‘ کی کاپیاں میں نے عدالت کی اجازت سے لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے کروائیں۔ یہ آڈیو ریکارڈنگ تقریباً 200 گھنٹے بنتی ہے‘ جس کا اصل ریکارڈ میں نے آصف زرداری کے اصرار پر پی پی پی کے حوالے کر دیا ہے۔ بقول محترم ہارون الرشید صاحب‘ اگّے تیرے بھاگ لچھیئے۔
جنابِ والا! یہ ہیں وہ سارے ثبوت اور ذرائع جن سے لندن کی جائداد بنائی‘ ہم سُرخرو ہو گئے‘ بھاء جی مٹھائی کھلائو۔ عدلیہ پر اعتماد ہے، کہنے کے بعد فساد کی وجہ قومی ادارے مٹانا ہے، اختلافی آوازیں دبانے کی پیدائشی خواہش کے ساتھ ساتھ۔
شہنشاہی تکبر کی، ہمالہ پر گرجتی ہے
بلندی بخت، شاہیں کی اُڑانیں کاٹ دی جائیں
کہیں حق بات کہنے کی، انہیں جرأت نہ ہو جائے
یہ حاکم کی تمنا ہے، زبانیں کاٹ دی جائیں