ایک اردو معاصر کے ایڈیٹر نے نواز شریف کی جے آئی ٹی کے حضور پیشی پر دلچسپ سُرخی لگائی۔ فرمایا ''وزیرِ اعظم نے سازش کی بُو سُو نگھ لی‘‘۔اچھی اردو کے زمانے میں یا اردو کے اچھے وقت میں بُو پا لینا اردو محاورہ تھا۔ جس میں تحریف سرکار نے کروائی یا ایڈیٹر صاحب کی مردم شناسی سے ہوئی۔ بہرطور، نیا محاورہ تو وجود میں آ ہی گیا۔ پوٹھوہار کے وسیب میں چوروں کا پیچھاکرنے والے سُراغ رساں کو ''کھوجی‘‘ کہتے ہیں۔کھوجی ایک سے زیادہ اکٹھے ہوں تواسے جے آئی ٹی کہہ لیں۔ چورایک سے زیادہ جمع ہو جائیں تو ان کا سربراہ علی بابا کہلاتا ہے اور اگر چورسات،تیرہ یاپھر اکیس ہوجائیں تب بھی وہ 40 چور ہی کہلائیں گے۔جس میں چوروںکا قصور کم جبکہ علی بابا کی پرفارمنس زیادہ کام دکھاتی ہے۔ بُو پا لینے والے شخص کو ہمارے ہاں '' سونگھا‘‘ کہتے ہیں۔لیکن ہر لمبی یا چوڑی ناک والا سونگھا نہیں ہو سکتا۔ پانامہ کیس میں کئی سونگھے اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پانامہ کا پہلا سونگھا بین الاقوامی رپورٹروں کی تنظیم (آئی سی آئی جے ) ثابت ہوئی۔جو بین ا لاقوامی منی لانڈرنگ کے سینڈیکیٹ سازش کی بُو سُو نگھتے سُو نگھتے پاناما جا پہنچی۔ وہ بھی سیدھی موزیک فونسیکا نامی لاء فرم کے دفتر میں۔ مقامی سونگھا ہونے کا اعزاز اس پاکستانی نیوز مین کو جاتا ہے ، جس نے پانامہ کرپشن لیک ہونے سے پہلے شریف فیملی ''انٹرویو لیکس‘‘ کا اہتمام کیا۔ اس کے بعد تو سونگھوں کی جیسے لائین لگ گئی۔کسی نے اپنی ناک کا انٹینا آبپارہ کی طرف کر دیا۔ کئی عدد ناکیں راولپنڈی سدھار گئیں۔ کسی نے شاہراہِ دستور پر انصاف کے سب سے بڑے مندر سے ناک لگائی تا کہ نون یا قانون میں سے کسی ایک کو ناک آئوٹ کرے۔
ایک (غالباً فارسی) حکایت سونگھے کا کردار واضح کرتی ہے ۔حکایت دو سونگھوں کے گرد گھومتی ہے۔ ان میں سے ایک تھا بڑا سونگھا اور دوسرا چھوٹا سونگھا۔ بڑا سونگھا بھنورا اور چھوٹا بھونڈ جسے انگریزی میں ) (dung beetle کہتے ہیں۔ان دونوں کی اپنی اپنی علیحدہ سپیڈ تھی۔ بھنورا صبح صادق مہکتے پھولوں کی پتیوں کے بستر سے اُٹھتا۔ روز گارڈن کا چکر لگاتا، یاسمن ، گیندا ، موتیا، گلاب، چمبیلی، گُلِ دائود، سورج مُکھی، نرگس، گلِ قاصدی، سوسن، سنبل اور کنول۔ ہر پھول کی تازہ خوشبو سونگھتے سونگھتے شام کر دیتا۔ جب بھنورا بستر پر واپس آتا اس کا ذہن ،جسم اور روح قدرتی خوشبوؤں کا ڈیپازٹ بینک بن چکا ہوتا۔ ڈنگ بیٹل تازہ '' بول براز‘‘ ڈھونڈتا۔ جان لیوا تعفن ، نا قابلِ برداشت بد بو، سڑاند ، اد ھ موئے کیڑے ہر طرح کی غلاظت اس کا مقدر تھی۔ کئی دفعہ وہ بے قابو بیل ، سرپٹ دوڑتے گھوڑے اور بد مست ہاتھی کے پائوں تلے آیا۔ ڈھیٹ ایسا پھر گندگی میں سے سر نکال کر اپنی واپسی کا اعلان کر دیتا۔ایک دن بھونڈ اور بھنورے میں بحث چِھڑ گئی۔ بڑا بولا یہ زمین خوشبوئوں سے معطر ہے ۔ ہر طرف خوشبو ہی خوشبو ۔ بھونڈ نے جواب دیا زمین پر گندگی اور بدبو کے علاوہ ہے ہی کیا۔ دونوں سیانے کے پاس جا پہنچے ، سیانے نے بھنورے سے کہا اسے روز اینڈ یاسمین گارڈن لے جائو، مارگلہ نیشنل پارک کی سیر کر ائو، اسے پتہ لگے خوشبو کہاں کہاں ہے۔ شام ڈھلے دونوں سیانے کے پاس واپس آئے۔ بھنورے نے بتایا میں بھونڈ کو پیٹھ پر لاد کر سارا دن باغوں میں گُھماتا رہا۔ پھر بھی کہتا ہے گلاب بدبودار ، چمبیلی بدبو دار، موتیا کی بو نا قابلِ برداشت ہے ۔ سیانے نے بھنورے سے کہااس کا قصور نہیں اس کی تلاشی لو۔ تلاشی شروع ہوئی تو ڈنگ بیٹل کے پروں کے نیچے سے گندگی کی گولی برآمد ہو گئی۔ یاد رہے حکایت میں بھنورا اور بھونڈ دونوں جانور ہیں۔بدبو بغل میںداب کر جینے والے ساری دنیا کو بد بُو کا گھر نہیںتو اور کیا کہیں گے۔
بات شروع ہوئی تھی پانامہ مقدمے میں سازش کی بو سونگھنے سے ۔ بے مثل شاعر جو مزاح میں سنجیدہ گفتگو کرنے کے بادشاہ ہیں۔ جنابِ انور مسعود نے پانامہ کے ذکر پر ادبی سٹے آرڈر جاری کر دیا ہے۔محترم انور مسعود کی تازہ رُباعی میں بھی 2سونگھے پائے جاتے ہیں۔ انور صاحب نے جن کے ادبی نام 2 بھائیوں کی طرح جوڑ کر رکھے ہیں۔ بڑے کا نام ہے تشویش اور چھوٹے کا نام تفتیش۔رُباعی ملاحظہ کیجیئے۔
نہ چھیڑو، ذکرِ پاناما نہ چھیڑو
مری تشویش بڑھتی جا رہی ہے
نہیں ہے گر کوئی سنگین گھپلا
تو کیوں تفتیش بڑھتی جا رہی ہے؟
تفتیش پر تشویش کی وجوہات ایٹمی راز نہیں اس کی تاریخ کو میڈیا کیمروں نے محفوظ کر لیا ہے ۔ آغاز ثنا ء بُچہ کے شو سے ہوتا ہے جس میں وزیرِ اعظم کے بیٹوں کا دفاع نواز شریف کی صا حبز ادی نے کامیابی سے کیا۔شو والے کہتے ہیں دورانِ شو محترمہ نے ٹیلی فون گھمایا اور اپنا موقف بیان کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور وہ ان لفظوں میں آ ن رکارڈ آ گئی۔ ''پتہ نہیں ان لوگوں نے میری اور میرے بھایئوں کی پراپرٹی کہاں سے ڈھونڈ نکالی ۔ میری بیرونِ ملک تو کیا پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں۔ میں تو اپنے والد کے ساتھ رہتی ہوں‘‘۔اس کے بعد انٹر ویو لیکس کی پنجاب سپیڈ ایسی لگی کہ رُکنے کا نام ہی نہ لیا ۔ ایک بھائی بزبانِ شاعر یوںگویاہوئے۔
جو آج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہوں گے
کرایہ دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
ساتھ بتایا کرایہ ہر 3 ماہ بعد پاکستان سے آتا ہے۔ بڑے بھائی صاحب کب پیچھے رہنے والے تھے فوراََ آن ریکارڈ آئے اور ناقدین کی تسلی کرا دی۔سازشی تھیوریوں کا جنازہ نکالا اور ٹِکا کر سچ بولا۔ کہا ''اللہ کے فضل و کرم سے مئے فیئر کے فلیٹ اس خادم کے ہیں ‘‘۔ ایک اور اینکر کا یہ کہہ کر دل موہ لیا ۔ '' لندن میں ایک اور پراپرٹی بھی ہے جو اپنی والدہ محترمہ کے نام پر میں ہولڈ کرتا ہوں۔ یہ کوئی فلیٹ نہیں، گھر ہے‘‘۔
ان تینوں معصوم بچوں کے ابا جی اصل حقائق بتانے کے لیے قومی اسمبلی جا پہنچے۔ قائدِ ایوان کے سامنے لکڑی کا ڈبہ رکھا گیا۔ ڈبے پر فائل اور فائل کے سامنے مائیک ۔ ملک کی بالادست پارلیمنٹ کے انتہائی زبردست بلکہ شیر دل لیڈر آف دی ہائوس نے فرمایا '' میرے خاندان کے کاروباری دفتروں سے ادارے زبر دستی سارا ریکارڈ اُٹھا لے گئے۔ بار بارتحریری اصر ار کے با وجود یہ ریکارڈ کبھی واپس نہ کیا گیا‘‘۔ یہ 2016مئی کی غالباََ 16 تاریخ تھی۔ پھر وقت کے پہیے کو پاناما سپیڈ لگ گئی۔ 15 جون2017 کا دن پلک جھپکنے میں آ ن پہنچا۔ اس روزپاناما کیس کے مرکزی ملزم کی طلبی ہوئی۔ سپریم کورٹ کی مقر ر کردہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سر پر، چیف ایگزیکٹوکا بھاری پائوں رکھ کر تاج دارِ اقتدار نے انہیں سوال کرنے کی بجائے جواب دینے کا فراخ دلانہ موقع فراہم کیا۔
ایک اور معصومِ اقتدار نمبر 2 کے صاحبزادہ نمبر1کا حساب بھی طلب ہوا۔آج کل شریف سیاست جس قدر چیخ پُکار کر رہی ہے اس سے بڑا مزاحیہ پرو گرام ملکی تاریخ میں اورکوئی نہیں ملتا۔سوال ہے 10مرلے کی اتفاق فائونڈری اینڈ ورکشاپ سے 10 ملکوں تک ڈالر کیسے پہنچے ؟ جواب جمہوریت خطرے میں ہے۔ سوال ہوا اربوںروپے معصوم بچوں کے ہاتھ میں کس طرح آئے؟جواب، ہماری تیسری نسل جواب دے رہی ہے ۔سوال آیا آپ کا کارو بار صرف سیاست ہے ۔پھر محمد شاہ رنگیلا والا طرزِ زندگی کیسے افورڈ ہوا ؟ جواب اللہ کے فضل و کر م سے بزرگوں نے بڑی محنت کی ۔ پانامامہ پر شریفوں کے پُرسہ دار بار بار کہتے ہیں لوگ بہت جلد پانامہ بھول جائیں گے۔ مقدمہ قانونی نہیں انتقامی ہے۔اگر ایسا ہی ہے تو جے آئی ٹی ، سپریم کورٹ ،فوج اور مُلکی اداروں پر حملہ آور ہونے کی بجائے ملکِ پا ناما کے خلاف اعلانِ جنگ کردو ۔وہیں سے چوری برآمد ہوئی ۔ پاکستان میں نہ تفتیش رُکے گی نہ جے آئی ٹی نہ عدالتی عمل ۔ تشویش اُن کو ہے جنہیں روزگار چھن جانے کا غم کھائے جا رہا ہے۔سازش،اس کی بُو،سونگھااور کھو جی کا کھیل ،دھیلے اور ٹیڈی پیسے کے ساتھ ہی کھوٹے سِکّے ہو چکے۔