کسی زمانے میں '' گُڈ کاپ اور بیڈ کاپ‘‘ ریاستی سیاست کا منشور تھا۔ زور، جبر اور آٹوکریٹ طرزِ حکمرانی میں اسے چور سپاہی کے کھیل کا نام دیا گیا۔ پھر وقت بدلا اور ایک ایسا دور آ گیا جس میں ڈالر کے خلاف جہاد شروع ہوا ۔ مگر اس جہاد کا مرکزی نقطہ ہر طرف سے ہمیشہ ڈالر ہی رہا۔ اس ڈالراز م نے اچھے باغی بُرے باغی ، اچھے لڑاکے بُرے لڑاکے، اچھے وحشت گر اور بری وحشت گری کی تقسیم متعارف کرو ا دی۔ظاہر ہے یہ ڈالرانہ کاروبار چلانے کے لیے سیاسی سرمایہ کار درکار تھے۔ جب سے سوویت یونین والے روس کے خلاف مقدس جنگ لڑنے کا فریضہ مسلم ریاستوں کو ٹھیکے پر ملاتب سے ڈالر کی صرف بازاری قیمت ہی نہیں بلکہ قدر و قیمت بھی آسمان پر چلی گئی۔
ایسے ہی ڈالروں کا ایک سوداگر حسین مبارک پٹیل کا نام رکھ کر چا ہ بہار سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے ۔ اس نے ہاتھ میں ایرانی بزنس مین کا پاس پورٹ تھام رکھا ہے۔ وہ ڈالر لے کر سندھ اور بلوچستان میں ضمیر کی کامیاب تجارت شروع کرتا ہے ۔ وطن فروشی کی تبلیغ کرنے والا پاکستان میں تب بھیجا گیا جب بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے مودی کے لیے الیکشن جیتنے کی راہ سال 2014 میں ہموار کر لی۔اسی لیے نریندر مودی اور نواز شریف کے ذاتی تعلقات پر پاکستانیوں کے کلیجے کانپ اُٹھتے ہیں۔ پاک بھارت بڑھتی ہوئی تلخی اور پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں عروج کے آغاز کا وقت تھا جب نواز شریف کے ذاتی دوست نریندر مودی کے ذاتی طور پر چُنے ہوئے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کا ویڈیو خطاب منظرِ عام پر آیا۔ جس میں اس ایڈوائزر نے کلبھوشن یادیو پلان کا پردہ چاک کر ڈالا ۔ اس خطاب کے بعد پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے ہائی الرٹ انٹی جنس کا بگل بجا دیا۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے نریندر مودی کے ایڈوائز ر اجیت دووال کا اس بارے میں اعترافِ جرم پڑھ لیجئے ۔ جو سوشل میڈیا پر وائرل انگریزی ویڈیو کلِپ کا لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے۔
''ہندوستان میں دہشت گردی۔ ایک پاکستان ہے جو سپانسر کر رہا ہے۔ اس عمل کا خاتمہ کرنے کے لیے ایک چیز ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کو کیسے قابو کیا جائے۔جو کہ نیوکلیئر رتبہ رکھتا ہے ، سٹریٹجک ویپن سسٹم، میزائلز، سٹریٹجک تعلقات چائنہ سے ہیں۔ اور بھارت کا دونوں سے لمبا بارڈر کا سلسلہ ہے اور کیسے قابو کیا جائے۔ ہم دشمن کو تین زاویوں میں مصروف کر سکتے ہیں۔ ایک بہت ہی دفاعی آپ نے دیکھا ہو گا چاروں طرف چوکیدار اور گارڈ کھڑے وہ اس لیے کہ کوئی آئے تو اسے روک سکیں۔ہم اس کا دفاع کریں گے۔ ایک دفاعی جرم ہے اور وہ یہ کہ ہم وہاں پر جائیں جہاں سے جرم آ رہا ہے۔تیسرا بہت زیادہ مجرمانہ ہے اور جس میں آپ کچھ بھی نہیں دیکھتے اور تابڑ توڑ حملہ کرتے ہیں۔ نیوکلیئر ہونا مجرمانہ عمل میںایک مشکل ہے۔ لیکن دفاعی جرم میں تو نہیں۔ جبکہ ہم آج کل صرف دفاعی جرم پر کام کر رہے ہیں، اب جب ہم دفاعی جرم کی طرف آ گئے ہیں پھر ہمیں پاکستان کی کمزور یوں پر کام کرنا چایئے۔ یہ اس کی معیشت ہو سکتی ہے، سیاست ، اندرونی سکیورٹی، بین الاقوامی طور پر تنہائی،ان کی دہشت گردانہ کاروائیوں کو اُجاگر کرنایا کچھ بھی۔ ان کی افغان پالیسیوں کو ناکام بنانا، ان کے لیے اندرونی سیاسی نظام میں توازن اور سکیورٹی کو مینج کرنا مشکل بنا دیں۔میں مزید تفصیلات میں نہیں جائوں گا۔ لیکن جب آپ دفاعی زاویہ سے مصروفیات تبدیل کرتے ہیں۔کیونکہ دفاعی انداز میں آپ سو پتھر میری طرف پھینکیں گے تو میں نوے کو روکنے میں کامیاب ہو جائوں گا لیکن پھر بھی دس تو مجھے نقصان پہنچائیں گے۔ اورمیں کبھی جیت نہیں سکتا۔ یا مجھے کچھ کھونا ہے یا پھر اس میں کچھ تعطلی آ جائے۔ تم نے اپنے وقت پر جنگ شروع کرنی ہے اور اپنی مرضی کے مطابق پتھر پھینکنا ہے ۔تم امن جب چاہو۔ تم جب بات کرنا چاہو۔گر ہم دفاعی جرم کا زاویہ اپناتے ہیں تو ہم دیکھیں گے کہ (equilibrium) کا توازن کہاں ہے۔اگر تم نے ایک اور بمبئی کیا تو بلوچستان کھو بیٹھو گے‘‘۔
پاکستان کے ریاستی اداروں کے ایک سٹنگ اپریشن میں کلبھوشن یادیو پکڑا گیا۔ جسے گرفتار کرنے والے دستے کے انچارج نے جونہی اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو کلبھوشن یادیو جھٹ پٹ زمین پر بیٹھ گیا۔ یادیو نے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کر دیے ۔ اور کہنے لگا میں کمانڈر کلبھوشن سدھیر یادیو ہوں، میرا ہندوستانی نیوی کا نمبر 41558زولو ہے۔ میں بھارتی بحریہ کا کمیشنڈ افسر ہوں جبکہ میرا کوڈ نیم حسین مبارک پٹیل ہے۔
اب آئیے ایک تازہ واردات کی جانب۔ جس کو سمجھنے کے لیے آنکھوں سے ہر قسم کے تعصب اور پارٹی بازی کی عینک اُتارنا ہو گی۔ کلبھوشن بچائو مہم جس کی نشان دہی میں نے تین ہفتے پہلے میڈیا کے رو برو کر دی تھی۔ اب اس کے ثبوت کُھل کر سامنے آگئے۔ پاکستان میں امن کی آشا سپانسر کرنے والے کوئٹہ ، کراچی اور پاراچنار واقعات پر بھارت کی سازش کو خود ہی بے نقاب کر بیٹھے ہیں۔ بھارت کے اس دیش بھگت جتھے کا کہنا ہے پاکستان میں جب بھی بھارتی دہشت گرد ی کی ویڈیو لیک ہوتی ہے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی وارداتیں شر وع ہو جاتی ہیں۔ ساتھ ہی عقلِ کُل کے یہ'' جنرل آرڈر سپلائر‘‘ کہتے ہیں ''چونکہ کلبھوشن یادیو کو فوجی عدالت نے سزادی ، وہ فوج کی نگرانی میں تصور کیا جاتا ہے لہذا وحشت گری کی وارداتوں کے ذمہ دار عسکری ادارے ہیں‘‘۔
اس میں کُھلا اعترافِ جرم یہ ہے کہ بھارت کلبھوشن کی رہائی کے لیے پاکستان پر ہر میدان میں مسلسل حملہ آور چلا جا رہا ہے۔ اس کے مقامی سہولت کار کلبھوشن بچائو مہم کے لیے دو بٹالین میں بھرتی ہیں۔ ایک بٹالین کے ذمے سزائے موت کے مجرم کو بچانے کے لیے پبلک ڈپلومیسی کا شعبہ ہے جبکہ دوسرا مودی اور جندال کے'' مقتدر خاندانی دوست‘‘ جو کلبھوشن کا نام لینا بھی ٹریک2 ڈپلومیسی کی شان میں گستاخی سمجھتے ہیں۔
اس منظر نامے میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ فوج کیا کرے؟ حکمرانوں نے بے دلی سے کمزور ترین انداز میں آئی سی جے میں کلبھوشن کے خلاف مقدمے کا دفاع کیا۔ نتیجہ قوم کے سامنے ہے نہ ختم ہونے والا سٹے آرڈر۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے دو دن پہلے کُھل کر کہا جب تک سٹے آرڈر قائم ہے کلبھوشن کو پھانسی نہیں ہو گی۔ ایک جانب پاکستانی قوم بھارتی دہشت گرد کی سزا پر فوراََ عمل درآمد چاہتی ہے۔ اس کے مقابلے میں مودی فیکٹر اس کی رہائی کا طلب گار ۔بھارت کے سامنے خوف زدہ ہو کر سرینڈر پاکستان کا آپشن نہیں ہو سکتا۔ ایٹمی ریاست کو لولی پاپ میں تبدیل کرنے والے مت بھولیں کہ ملک ایٹم کا چنا ہے لوہے کا نہیں۔ لوہا پگھل جاتا ہے جس بھٹی میں ڈالیں اس کا رنگ اختیار کر لیتا ہے۔ایٹم ایٹم ہوتا ہے نہ پگھلتا ہے نہ کسی کی مرضی کا روپ دھار سکتا ہے۔فوج ایٹم کی کسٹوڈین ہے اور قوم ایٹم کی محافظ۔ کلبھوشن کے حوالے سے فوج وہی کرے جو قوم چاہتی ہے۔
دیش بھگتوں سے کہو اپنے کمنڈل بھر لیں
احمد آباد میں ار زا ں ہے مسلمان کا خون
گائو سے! پھر کسی باپُو کی چتا روشن کر
اژدہے چاٹنے نکلے ہیں مسلمان کا خون
چار کوڑی کے چٹوروں کو لگی چاٹ اس کی
اتنا سستا تو نہ تھا صاحبِ ایمان کا خون
ٰٰٓٓاِک جہاں خنجرِ قاتل کا تماشائی ہے
ہو گیا خاک کی خوراک مسلمان کا خون
اب یہ اسلام کا عالم ہے مسلمانوں میں
جس طرح دشت میں اِک ،بے سروسامان کا خون