پیر جولائی کی 10 تاریخ ہو گی۔ اس روز پاناما کیس کی جے آئی ٹی میں تیار کردہ آخری رپورٹ ملک کی آخری عدالت کے سامنے ہو گی۔ ساتھ ہی پاکستان کی تایخ میں مارشل لائوں سے اقتدار کا سفر شروع کر کے محل سرائوں میں جینے والوں کا اصلی چہرہ بھی۔ اس چہرے سے نقاب اُلٹنے والوں پر عتاب جاری ہے۔ تختِ اقتدار پریا کسی اور پر عذاب کب نازل ہو گا؟ اب یہ سربستہ راز بھی 10 جولائی تک کُھل ہی جائے گا۔
یہ وکالت نامہ تحریر کرتے وقت 2 جولائی کا دن ڈھل چکا ہے۔ ساتھ ہی پاناما ہنگامہ نامی ڈرامہ کا کائونٹ ڈائون بھی شروع ہو گیا۔ کس کا پاجامہ خطرے میں ہے اور کون بے لباس ہو چکااب بتانے کی ضرورت کہاں بچی ہے؟ یہ کائونٹ ڈائون کچھ گھنٹے پہلے میرے ذہن میں آیا میں نے پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے رکھا۔ پیراگراف نمبر 4 پر نظر گئی۔ جس میں اس تاریخ ساز فیصلے کے آتھر جج آصف سعید خان کھوسہ صاحب نے 7 عدد اِیشو فریم کیئے اور بعد ازاں یہی 7 عدد ایشو پاناما فیصلے کی بنیاد ٹھہرے۔بلکہ جے آئی ٹی بھی انہی 7ایشوز کے بطن سے پیدا ہوئی۔
جے آئی ٹی کے رو برو ایک الزام علیہ کی پیشی خاصی انٹر ٹیننگ رہی۔ جے آئی ٹی پیشی کے موقع پر اندر جاتے ہوئے ''کن ٹوپ ہَیٹ ‘ ‘ اور پیشی بھگت لینے کے بعد واپس آتے ہوئے ''پانامہ ہَیٹ‘‘ نے کیمرا سپاٹ کے مزے دوبالاکرا دیئے۔ اسی کردار کا تذکرہ پاناما فیصلے کے پیراگراف نمبر 87میں یوں آیاہے:پڑھیے اور سر پکڑئیے۔اب بھی موصوف کہہ رہے ہیں ،جے آئی ٹی تفتیش نہیں ڈرامہ کر رہی ہے۔
''درخواست گزار کے فاضل وکیل نے لندن ہائی کورٹ آف جسٹس کے کوئینز بینچ ڈویثرن کے 16 مارچ 1999ء کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے جس کے مطابق 5 نومبر 1999 ء کو سرمائے کے ایک بڑے مجموعے کے عوض التوفیق کمپنی کے حق میں اور حدیبیہ پیپرز ملز لمٹیڈ مدعا علیہ نمبر 1کے چھوٹے بھائی میاں محمد شہبازشریف، مدعا علیہ نمبر1کے والد میاں محمد شریف اور مدعا علیہ نمبر1 کے دوسرے چھوٹے بھائی میاں محمد عباس شریف کے خلاف فیصلہ دیا گیا۔ اس فیصلے اور ڈگری کے متعلق دستاویز سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈگری کے تصفیے کے لیے لندن کی انہی 4 جائیدادوں کو ،جن کا ذکر موجودہ درخواستوں میں کیا جا رہاہے ، 21 فروری 2004ء کو پا بندکیا گیا اور 34 ملین یو ایس ڈالرز کی ادائیگی کے بعد معاملہ حل کیے جانے پر عدالت نے ان چاروں جائیدادوں کو آزاد کیا۔ حدیبیہ پیپر ملز کے ڈائر یکٹرز نے حسین نواز شریف اور مریم نواز شریف جو کہ مدعا علیہ نمبر 6 اور 7 ہیں شامل کیے۔ مذکورہ مدعا علیہا ن اور دوسرے دفاع کنندگان 1999ء اور 2000ء میں ان جائیدادوں کو عدالتی تحویل سے آزاد کروانے کے لیے کبھی بھی اتنی بڑی رقم خرچ نہ کرتے اگر ان کا ان جائیدادوں کی ملکیت سے کوئی تعلق نہ ہوتا۔ مذکورہ بالا انٹرویوز میں ان افراد کا خود یہ کہنا ہے کہ مدعا علیہ نمبر 1 کے بچوں میں سے حسین نواز شریف اس وقت تک تقریباً28 برس کے تھے اور ان کا کوئی اپنا ذریعہ آمدن نہیں تھا، حسن نواز شریف زیرِ تعلیم تھے اور ان کی بھی کوئی اپنی آمدنی کا وسیلہ نہیں تھا اور مریم صفدر کے پاس کوئی جائیداد نہیں تھی۔ لندن کے مقدمے کی تفصیلات میں جائیں تو اس کے پیراگرافس نمبر 113 عدالت ہذا کی جانب سے ظفر علی شاہ وغیرہ بنام جنرل پرویز مشرف چیف ایگزیکیو آف پاکستان وغیرہ (پی ایل ڈی 2000 سپریم کورٹ صفحہ نمبر 869) کا حوالہ بطورِ خاص ملتا ہے۔ علاوہ ازیں قطر کے ان صاحب کی جانب سے جنہوں نے اپنا بیان بھیجا ،عدالت کے سامنے ایک دوسرا بیان آنے تک مدعا علیہ نمبر 1 اور ان کے بچوں نے عد ا لتِ ہذا کے سامنے 34 ملین امریکی ڈالرز جن کی ادائیگی سے 2000ء میں عدالتی تحویل سے لندن کی یہ چاروں جائیدادیں واگزار کرائی گئیں کے ذرائع کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔‘‘
جے آئی ٹی میں اہم سوال یہ تھا کہ اس سوال کا جواب دے دو۔مگر پا ناما ہیٹ پہننے سے پہلے نہ ہی پا نامہ ہیٹ اُتارنے کے بعد سوال کا جواب ملا۔ہاں خفیہ ہاتھ مل گیا، اسی ملزم کا ذکر پا نامہ فیصلے کے پیراگراف نمبر 90میں بھی آیا ہے:ذرا پڑھ لیجئے
''یہ ذکر انتہائی اہم ہے کہ مدعا علیہ نمبر 1 نے قوم سے اپنے خطابات اور قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں کبھی بھی بالکل واضح انداز میں (سیاہ و سفیدکے انداز میں) یہ نہیں کہا کہ ان کا آف شور کمپنیوں یا لندن کی جائدادوں کی ملکیت سے کوئی تعلق نہیں تا ہم ان کی جانب سے اس عدالت کے روبرو جمع کروائے گئے تحریری بیان میں ایسا کہا گیا اور ان کے فاضل وکیل نے ہمارے سامنے پورے زور سے بحث کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی مدعا علیہ نمبر 1 نہ تو ڈائریکٹر ، شراکت دار یا حقیقی مالک ہیں نا ہی ان کا ان آف شور کمپنیوں یا جائیدادوں کی ملکیت سے کوئی تعلق ہے ۔ میں نے یہ نوٹ کیا کہ مدعا علیہ نمبر 1کے بچوں کے ان کمپنیوں اور جائیدادوں کے حوالے سے مسلسل بدلتے موقف ان کمپنیوں اور جائیدادوں کے ریکارڈ سے کسی قسم کی سپورٹ سے قاصر ہیں۔ کوئی ایسی دستاویز پیش نہیں کی گئی جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ حسین نواز شریف 2006ء میں ان کمپنیوں اور جائیدادوں کے مالک بنے۔ قطر سے بیان جمع کروانے والے صاحب کی جانب سے دوسری چٹھی آنے تک ان بچوں یہاں تک کہ مدعا علیہ نمبر 1 کی جانب سے ان 34 ملین ڈالر کہ جن کی ادائیگی کے ذریعے 2000ء میں ان جائیدادوں کو عدالتوں کی تحویل سے چھڑانے کے لیے بعض مدعا علیہان اور ان کے اقربا کی جانب سے اتنی بڑی رقم کی ادائیگی کیوں کی گئی اگر ان کا ان جائیدادوں کی ملکیت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ دوسرے قطری خط کے آنے تک ہمارے سامنے کبھی وضاحت نہیں کی گئی کہ حسن نواز شریف جو 1999ء تک طالبعلم تھے انھوں نے 2001ء میں اچانک اتنا مال کیسا بنانا شروع کر دیا۔ مدعا علیہ نمبر1 اور ان کے بچوں کی جانب سے اس مقدمے کے ریکارڈ پر کوئی منی ٹریل (Banking Transaction) پیش نہیں کی گئی۔ مدعا علیہ نمبر1اور ان کے موقف میں موجود تعطل اور خلاء بد ستور قائم رہا اور واقعات کی جو کڑیاں ان کی جانب سے جوڑنے کی کوشش کی گئی وہ بد ستورٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ مدعا علیہ نمبر 1نے قطر کی جائیدادوں کے کاروبار میں سرمایہ کاری کا کبھی ذکر نہیں کیا جبکہ ان کے بچوں کا پورے کا پورا مقدمہ کُلی طور پر قطر کی سرمایہ کاری پر قائم تھا ۔ یہ سب کچھ کسی بھی ذی شعور انسان کو قائل کرنے کے لیے کافی ہے کہ مدعا علیہ نمبر 1کی جانب سے پیش کردہ وضاحتوں میں سب کچھ ٹھیک نہیں اور ان وضاحتوں کو درست یا دیانت داری قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘‘
خواتین و حضرات اپنی اپنی عینک سنبھالیے۔آئیے اس فیصلے میں تلاش کریں جمہوریت کے خلاف سازش کہاں ہے۔نظریۂِ پاکستا ن پر حملہ کدھر ہے ۔خفیہ ہاتھ کے کُھرے کو نسے ہیں ۔نظام کی بے عزتی کیسے ہے۔عوام کی توہین کون سی ہوئی۔جے آئی ٹی نے ایسا کیا پوچھ لیا؟ ہنگامہ ہے کیوں برپا، جے آئی ٹی جو بیٹھی ہے؟؟؟