دنیا نیوز کا رپورٹر پاناما کیس کی سماعت دیکھنے کے لیے سپریم کورٹ کے بینچ نمبر2میں موجود تھا۔جس نے رپورٹ کیا جب 3رکنی فاضل بینچ نے شریف کاغذات کے پکوڑا برانڈ والے ثبوت کھنگالے توشریفوں کا وکیل اســــــ '' دستاویزی شرافت‘‘ پرہکا بکا رہ گیا۔ اسی روز بینچ نے یہ سوال بھی اٹھایا ،نوٹری پبلک کی مہر لگانے والے دن لندن میں چھٹی تھی۔ یہ سنتے ہی مہر کا گواہ عدالت سے فوراً کھسک گیا ۔اس گواہ کے بارے میں بتایا جاتا ہے اس کا جہاز ایئر پورٹ پر اُڑنے کے لیے ہر وقت تیارکھڑا رہتاہے۔ یہاں سے آگے دوحہ، دبئی، جدہ، لندن اور امریکہ تک شاہی کرپشن کو بچانے کے لیے کرپٹ مافیا کے سہولت کاروں نے پرائیوٹ جیٹ ہی استعمال کیے۔ شرافت کا پیکر گواہ سمجھ دار نکلا‘ اسے معلوم ہو گیا کہ سسلین مافیا کی اگلی منزل اڈیالہ ہے۔اڈیالہ کی پہلی قسط جدید تاریخ کے سب سے بڑے جعل ساز کی صورت میں وی وی آئی پی ریمانڈ پر ہسپتال کے وی وی آئی پی ائر کنڈیشنڈ کمرے میں ہے ۔ جس کے ہاتھوں نسیم حجازی والی ''اور تلوار پھر ٹوٹ گئی‘‘۔ فریب کار ایسا کہ جسے کسی اور نے نہیں سپریم کورٹ نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ایس ای سی پی کی جلیبیوں کے اس نگران بنارسی ٹھگ کو گرفتار ی کے بعد بھی چیئرمینی کے عہدے سے نہیں ہٹایا گیا۔ اس لیے اگر تفتیش صحیح ہوئی تواس کو عہدے پر لانے والا سمدھی بھی پکڑا جائے گا۔ ظاہر ہے سمدھی اپنے سمدھی نواز شریف کو بچا رہا تھا یوں جرم کی یہ ٹرائیکا قانون کے کٹہرے میں پھنسی۔ ایک وارداتیا دوسرا س کا سہولت کار اور تیسرا جرم کا مرکزی بینفشری۔
پاناما کیس چلتے ،چلتے دوسرے سال میں پہنچ کر مکمل ہوا۔اس کے باوجود بھی آلِ شریف کا موقف ہے انہیں ابھی تک سمجھ نہیں آسکا ان کے خلاف مقدمہ کیا ہے ؟ چلیئے ان کی دلیل وقت گزاری کے لیے درست مان لیتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہو گا جب مئوکل کو خود یہ معلوم نہیںتھا، اس کے خلاف مقدمہ کیا ہے۔ ایسا مئوکل اپنے وکیل کو خاک سمجھائے گا کہ کیسے میرا دفاع کرو۔ وکیل بے چارہ جھوٹ در جھوٹ، در جھوٹ، جمع جھوٹ ، ضرب جھوٹ = جھوٹ ،کی بنیاد پر مضبوط اور متاثر کن دفاعی دلائل کہاں سے لائے۔مسلسل 3روز تک09:30سے دن01:30تک سپریم کورٹ نے پوری کوشش کی آلِ شریف 14ویں سوال کا جواب ہی دے ڈالے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان 14ویں سوال کے جواب کا انتظار کرتی رہ گئی ۔قوم آلِ شریف سے کم از کم ایک عددسچ سننے کی توقع رکھتی تھی ۔ میڈیا، اخبار، اینکر، رپورٹر، سارے کے سارے آج بھی 14واں سوال پوچھ رہے ہیں۔ گاڈ فادر نمبر2کا نام سپریم کورٹ کے روبروپانامہ کیس میں پھر سے گُونج اُٹھا۔ پیٹ کے بندوں کو صرف بندگانِ شکم کی بات سمجھ آرہی ہے۔ مگر دیوار پرصاف لکھا جا چکاہے۔ اُلٹی ہو گئیں سب تحریریں، کچھ نہ قطری نے کام کیا۔ دیکھا اس بے ایمانیِ دل نے، آخر کام تما م کیا ۔ حکمران اور ان کے درباری اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ14ویں سوال کے بعد کیا آنے والا ہے۔ خاص طور پر جب سے سپریم کورٹ نے واضح آبزرویشن دے دی کہ عدالت عظمیٰ نواز شریف کی نااہلی کا جائزہ ضرورلے گی۔ آلِ شریف کے وکلاء کی بحث کا سرکاری ڈھنڈورچیوں نے عجیب مطلب نکالا۔ سرکاری ٹی وی نے کہا سپریم کورٹ میں نواز شریف کی نااہلی کا سوال ختم ہو گیا۔( Paid Content)یعنی بامعاوضہ اطلاعات والوں نے خبر لگائی اور یوں مہم چلائی کہ نواز شریف مقدمے سے سرخرو ہو گئے۔ سپریم کورٹ سے اس بسیارر دروغ گوئی ( white fat lie)کا تابوت نکلنا ضروری تھا سو نکل آیا۔ جناب جسٹس اعجاز الاحسن صاحب نے کہا ہم نے وزیراعظم کی نااہلی کا جائزہ لینے کا فیصلہ نہ واپس لیا ہے نہ لیں گے۔جناب جسٹس اعجاز افضل صاحب نے ریمارکس دئیے نواز شریف کی نااہلی کا معاملہ اس بینچ کے زیر غور ہے۔جناب جسٹس عظمت سعید شیخ صاحب نے کہا نوازشریف
کی نااہلی پر فیصلہ ہو گا۔ قانون کا اطلاق ہو گا۔طغیان اور طوفان میں تیر گزرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
یہاں یہ بنیادی نقطہ مدِنظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ یہ پاناما کیس کے اصل فیصلے پر عملدرآمدکا بینچ ہے۔ اصل فیصلہ 5رکنی بینچ نے کیا تھا۔ جو عمل درآمد فیصلے کے بعد غالباََ اسی ہفتے پھر سے اکٹھاہوکر بیٹھے گا۔ یوں نواز شریف کے بقول دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گا۔ راج دربار کو "نواز نے" اور مخالف پَرجا کو" لتاڑنے" والے وزیراعظم نے سازش کی بو سونگھنے کے لیے "اپنی منجی تلے ڈانگ نہیں پھیری" کسی دوسرے کی منجی تلے ڈانگ پھیرنا درست بات نہیں۔ اس لیے ہم بھائی پھیرو ٹائپ چند سوالوں پر گزارا کر لیتے ہیں۔
پہلا سوال: وہ کون تھا جس نے کہا قیام پاکستان سے پہلے کا امیرزادہ ہوں تب ہمارے اثاثے بے حدو حساب تھے۔ لیکن پانامہ کیس میں بڑے میاں صاحب مرحوم کے جو اثاثے سال 1970 / 71 میں ڈکلیرشدہ نکلے۔ وہ محض 10 لاکھ روپے سکہ رائج الوقت پاکستانی تھے۔ لہذا ! بھٹو شہید کی نیشنلائیزیشن پالیسی کی تحت شریفانہ کمائی میں سے کیا لوٹا گیا اور کتنا باقی بچا۔ یاد رہے اتفاق فونڈری اینڈ ورک شاپ کا بشمول رہائشی بالا خانہ کا کل رقبہ محض مرلوں پر مشتمل تھا، کنالوں ، ایکڑوں اور محلات پر نہیں۔ دوسرا سوال: اس سے بھی سادہ ہے۔ آلِ شریف کے سارے کاروبار کے تمام اثاثوں کا مکمل ثبوت خود نواز شریف نے قومی اسمبلی میں بتایا ۔ جس کے الفاظ یہ ہیں۔ '' جنابِ سپیکر ایک بار پھر والدِ محترم نے کمر باندھی اور دبئی میں محنت کا آغاز کیا۔۔۔ سٹیل مل لگائی‘‘۔ یہ وہ واحد اثاثہ تھا جو بے چارا خسارے میں چلا اور مقروض ہو گیا۔ قرض کا بوجھ اس قدر بڑھا کہ کمر باندھنے والی سٹیل مل کی اپنی کمر تڑک کر کے ٹوٹ گئی۔ چنانچہ سٹیل مل فروخت ہو گئی۔ آلِ شریف کا دوسرا اثاثہ قطری شہزادے حَمد بِن جاسم کا خط ہے ۔ ان میں سے آپ پہلا پڑھیں یا دوسرا پڑھنا چاہیں دونوں کا اردو / انگریزی ترجمہ اِ نٹر نیٹ پر موجود ہے ۔ پڑھ لیجیئے۔
اس کاغذ کے چیتھڑے کو سپریم کورٹ کے 2 فاضل جج صاحبان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ صاحب اور جسٹس گلزار احمد خان صاحب نے پہلے ہی رد کر دیا۔ آخری سماعت کے دوران عمل درآمد بینچ نے پوائنٹ بلینک سوال کیا ۔ بتائیں، پاناما کیس ابھی ختم کر دیتے ہیں۔ اگر آلِ شریف کے وکیل قطری شہزادے کا صرف وہ اکائونٹ نمبر ہی ہمیں دے دیں جس میں سے رقم ادا ہوتی رہی۔ 14 ویں سوال کے بعد بلیک منی، کرپشن، کک بیک، کمیشن، لوٹ مار، منی لانڈرنگ کو اللہ کے فضل و کرم جیسے مقدس غلاف میں لپیٹنے والے دھوکہ بازوں کی کمر ٹوٹ گئی ۔ اس وقت گاڈ فادر اور درباری اصلی اپوزیشن کی بلند آہنگ آوازوں سے زیادہ اندر سے خوف زدہ ہیں۔ اندر کے خوف کے مارے ، کسی منہ مَتھے والے شخص کو چند ماہ وزیرِ اعظم بنانے کا کبھی رِسک نہیں لیں گے ۔
احباب کو معلوم ہے کہ کہوٹہ پہاڑ کی چوٹی پر واقعہ میر ے گائوں کا نام ہوتھلہ ہے ۔ اس وقت ہوتھلہ کے ڈارک ہارس کو وزیرِ اعظم بننے کی تربیت دی جا رہی ہے۔بالکل ویسے ہی جیسے 1999 میں نواز شریف اپنے جانشیں وزیرِ اعظم کی تربیت کرتے رہے۔ 12 اکتوبر 1999کے دن نواز شریف نے ملتان میں آخری افتتاح کیا تھا۔ سال 2017 میں لواری ٹاپ ٹنل کے افتتاح کے موقع پر ہوتھلہ کا ڈارک ہارس وزیرِ اعظم کے ساتھ رہا۔آپ جاننا چاہتے ہوں گے کیا کوئی دوسرا گائوں بھی ایسا ہے جس کا نام ہوتھلہ ہو ۔اس کا جواب ہاں میں ہے ۔ یہ ہوتھلہ کیپٹن صفدر اعوان کے گائوں کے بہت قریب ہے۔ ہوتھلہ ثانی میرے پیارے ہزارے کی بستی ہے۔ 14واں سوال ، سوالوں کی سونامی ساتھ لایا ہے۔ اگلا سوال جرمنی کے شہر لکسم برگ سے اٹھا ۔ جہاں 34 ملین یوایس ڈالر حال ہی میں پکڑے گئے۔ جی ہاں! چوری اور منی لانڈرنگ کے ڈالر۔(ختم)