اسے دنیا کی قدیم ترین لڑائی کہا جاتا ہے ۔ یہ لیجنڈجنگ ایک ہزار سال سے زیادہ لڑ ی گئی اسی تناظر میں یہ محاورہ ایجاد ہوا ۔"ہم ہزار سال تک جنگ لڑیں گے "۔ ٹروجن اور ٹرائے کی ریاستوں کے درمیان اس جنگ پر ہالی ووڈنے بلاک بسٹر فلمیں بنائیں ۔ ایک ساٹھ کے عشرے میں‘ دوسری چند سال پہلے۔ "ہیلن آف ٹرائے "نامی ناول نے محبت کے نام پر لڑی گئی جنگ پر تہلکہ مچا یا۔ اسی عنوان سے بننے والی فلم میں بادشاہ، شہزادی ہیلن کو دیکھ کر یہ ڈائیلاگ بولتا ہے:
Oh Godess of Love,)
Come down from heaven,
kiss me and make me immortal)
ترجمہ: ''اے محبت کی دیوی آسمانوں سے نیچے اتر۔ ایسا بوسہ دے جو مجھے ہمیشہ کے لیے امر کر دے‘‘ ترکی کے سمندر کے دو مخالف ساحلوں پر لڑی گئی اس لڑائی کا خاتمہ کاٹھ کے گھوڑے نے کیا ۔ جسے ٹروجن ہارس کہتے ہیں۔ لکڑی کے پھٹوں کا تحفہ دوستوں نے پیش کیا۔ دوستی کے لبادے میں کاٹھ کے گھوڑے کے اندر دشمن چھاتہ بردار چُھپے تھے۔ 28جولائی بروز جمعہ سپریم کورٹ عدالت نمبر1میں کاٹھ کا گھوڑا اور موت کا بوسہ مجھے یاد آئے۔
میری وکالت نے اس کمرہ نمبر1 میں حکومت پلٹتے، تقدیر بنتے اور سکندر کا مقدر گٹر کی نالی میں گرتے دیکھا۔ کمرہ نمبر1 کا پہلا منظر 24سال پہلے 1993ء 15جون کا تھا ۔ نواز شریف مدعی ، چیف جسٹس نسیم حسن شاہ منصفِ اعلیٰ اور غلا م اسحاق خان ملزم ٹھہرے۔ صدر کے خلاف دعویٰ تھا، آئین ِ کے آرٹیکل اٹھاون 2 ۔بی کے تحت نواز حکومت کو گھر بھیجا۔ نواز شریف کے خلاف شدیدمالی بدعنوانی کا الزام۔ سپریم کورٹ نے بدعنوان حکومت کو بحالی کا عنوان دیا۔ سپریم کورٹ کا پروانہ ٹائپ ہونے سے پہلے ہی نواز شریف دوڑ کر قصرِ اقتدار کی سیڑھیاں دوبارہ چڑھ گئے۔
انہوں نے لوہے کی کلہاڑی اپنے پائوں پر مار نے کا جو فن مبارک مزاج میں پایا چند ماہ بعد اسے پھر آزما لیا ۔ نتیجہ نواز شریف کی مردانہ وار رخصتی کی صورت میں نکلا۔ اسی حوالے سے کسی نے سوشل میڈیا پر پیغام چھوڑا''نواز شریف وہ واحد میاں ہیں جن کی رخصتی ہوئی‘ ایک مرتبہ نہیں ‘ چار مرتبہ‘‘
نواز شریف کی تیسری رخصتی 1997ء میں ہوئی۔ جس کا آخری منظر نامہ لکھے جانے کے دن میں اسی کمرے میںتھا ۔ مجھے دوعدد اصلی بادشاہوں کے درباروں میں باریابی کا شرف ملا۔ لیکن کسی خود ساختہ بادشاہ کا جلال میں نے پہلی بار اسی دن دیکھا ۔ ایک مرتبہ نہیں دو دفعہ۔پہلے انٹری گیٹ پر '' کچھ شرم، کچھ حیاء ، والا وزیر‘‘ پانامہ کیس میں نواز شریف کے اولین وکیل پر حملہ آور ہوا۔ دوسرے دن کورٹ روم نمبر1 پر حملہ ہوگیا ۔ اس انتہائی مہذب جمہوری حملہ میں پارلیمانی بالادستی کے سارے بڑے بڑے ستون شریک تھے ۔ کوئی دامے، کچھ درمے اور کئی سخنے۔ پنجاب ہائوس میں کلچہ چھولا کھا کر آنے والے قدمے۔ 1999ء 12اکتوبر کے دن میں تمباکو کمپنی کا طویل مقدمہ لڑنے ہائی کورٹ ایبٹ آباد بینچ میں تھا۔ پہلے مجھے حاجی نواز کھوکھر کی کال آئی۔ پھر مخدوم امین فہیم نے فون کیا۔ تب میرا لاء آفس پارلیمنٹ کے عین سامنے جناح ایونیو کے پہلے بلاک مین روڈ پر تھا ۔چند فرلانگ کے فاصلے پرپی ایم ہائوس میں کچھ اصلی شیر آخری تقریر کے کاغذ منہ میں ڈال کر چبانے کی کوشش میں پنجرے کے اندر ڈالے گئے۔ ایک چیتا تقریر کو ٹائلٹ کے فلش میں بہانے کی کوشش کے دوران گیلے ہاتھوں پکڑا گیا ۔
28 جولائی کی رخصتی روم نمبر1 سے میرے سامنے ہوئی ۔جہاں جمہوریت کے شرم و حیاء والے سارے شیر غائب تھے۔ سرکاری مال ، ناجائز ریال کی تال پر بڑھک مارنا اور بات ہے۔ میدان میں کھڑے ہو کر للکارنا بالکل مختلف چیز۔ 28جولائی سپریم کورٹ میں صحافیوں کا غیر معمولی رش دیکھ کر ساتھی وکیلوں نے فیصلہ کیا میڈیا ٹاک کی بجائے باہر نکل جائیں ۔پی ایم سیکرٹریٹ چوک میں بہت چارج ہجوم نے راستہ روکا ۔ منع کرنے کے باوجود میں گاڑی سے باہر نکل آیا۔ شدید نعرے ، تحسین اور جذبات کا ابلتا چشمہ تھا۔
یہی راستہ بائیں مڑ کر بارہ کہو 111 برگیڈ کی طرف جاتا ہے۔ نوجوانوں کی فرمائش پر میں موٹر سائیکل پر سوار ہوا ۔ شہر میں داخل ہوئے۔ موٹر سائیکل چلانے والا جوان تیز رفتاری سے بائیک دائیں بائیں گھما کر دوڑاتا رہا۔اس تھرِلر رائیڈ کے دوران میں بڑے اشتیاق سے دیکھتا رہا فوجی ٹینک کہاں ہیں ؟ لیکن شدید مایوسی ہوئی۔عدالت سے 6 منٹ کی ڈرائیو پر 111 کے ہیڈ کوارٹر تک نہ کوئی ٹینک نظر آیا نہ نا اہل وزیر اعظم کا کوئی جا نثار ٹینک کے نیچے لیٹا ۔
البتہ مجھے نواز شریف سے ملاقاتیں یاد آنے لگیں۔ ایک میں ‘راجہ ریاض، عزیز الرحمان چن ‘جاتی امرا ء میں میرے ساتھ تھے ۔ دو ملاقاتوں میں آصف زرداری اور میں 3اے پی سی اجلاسوں میں مائیک میرے پاس تھا۔ سب جگہ نا اہل وزیر اعظم نے اہتمام سے 3 باتوں کا تذکرہ کیا ۔ جرنیل ہمیں چلنے نہیں دیتے ۔ جب تک دو ، چار کو لٹکایا نہیں جاتا مسلۂ حل نہیں ہو گا ۔ دوسری، احتساب کے سخت قانون بنانے ہوں گے ۔ میں نے ہر ملاقات میں ایک ہی بات کی۔میاں صاحب غلط فیصلہ ہو یا قانون '' تسی پھس جائو گے تہاڈے جانثار نس جان گے‘‘۔ہر دفعہ نواز شریف نے فراخدلانہ قہقہے کے ساتھ کہا۔ قدم بڑھائو نواز شریف سن کر آگے ہوتا ہوں '' پچھوں نعرے لان والے نس جاندے نے‘‘۔ اس دفعہ تو انعامی بانڈ والوں سے مشرف کابینہ کے چھاتہ برداروں تک نے کہا '' میاں تیرا اِک اشارہ حاضر‘ حاضر لہو ہمارا۔ میاں صاحب پچھوں نس جان والی بات بھول کر آگے بڑھتے گئے ۔ اشارے کرتے گئے ۔ ساون کی برسات میں لہو گرانے والے پھر غائب۔ پسینہ نکالنے کے لیے بھی کوئی باہر نہ نکلا۔ لاہور کے مخصوص علاقوں میں چند کونسلر دو چھوٹی گاڑی کے پرانے ٹائر ایک موٹر سائیکل کا پھٹا ہوا پھٹیچر ، ٹیوب جل اُٹھے۔ یہ تاریخی اور جغرافیائی احتجاج دیکھ کر شعر یاد آیا ؎
گور کِس دل جلے کی ہے یہ فلک
شعلہ ہر صبح یاں سے اُٹھتا ہے
یہ وھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے ...
سرخروئی سے لے کر نا اہل وزیرِ اعظم کی واپسی تک ‘لنگر لاہور شفٹ ہو گا ۔ سلفیاں بنیں گی، کانوں میں کھسر پھسر ہو گی ، پٹواری راج کے من پسند تھانے دار جی ٹی روڈ پر استقبالی ہجوم اکٹھا کریں گے ۔ نا اہل وزیرِ اعظم کا اُکھڑا لہجہ ، اترا چہرا ، ویران آنکھیں پی ایم ہائوس کے اندر ، ٹروجن ہارس تلاش کرتی رہیں۔ تلاش کا سفر 45 روز جاری رہے گا ۔گلو بٹوں نے وفا کی، آر ،اوز کا الیکشن ہوا ۔ پولنگ بند ہونے کے بعد والی تقریر دہرائی گئی تو گاڈ فادر 2 اقتدار کے گھوڑے پر چڑھ کر وہاں پہنچے گا جہاں ٹروجن ہارس سے چھاتہ بردار نکلے ۔ نا اہل وزیر اعظم کو مرکزی کردار ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ قطری خط نمبر1 ، خط نمبر2 کی با عزت کامیابی کے بعد قطری 3 سے نکلنے والے ایل این جی وزیر اعظم کا مستقبل ایل این جی ٹھیکے سے مختلف نہیں ہوگا۔
قدم بڑھائو سے رقم بڑھائو تک ۔