موت کا منظر، مرنے کے بعد کیا ہو گا، قیامت کی نشانیاں...؟؟ جیسے محاورے اُردو لٹریچر کا مستقل حصہ ہیں۔ بندگان شکم کے لئے پوٹھوہاری زبان کا آکھان یوں ہے "اِیہہ جہان مِٹھا... اَگلا کِس ڈٹھا"۔ آلِِ شریف جس قیامت سے دوچار ہے‘ اس کی نشانیاں 2013 سے منہ کھولے کھڑی تھیں‘ لیکن نااہل وزیر اعظم نے اپنی لانگری بٹالین کے منہ اس قدر بھر رکھے تھے کہ وہ قیامت کی کھلی نشانیاں نہ دیکھ سکے۔ اِسی دوران پچھلے انتخاب کی چوری میں پاناما کا ٹوئسٹ آ گیا۔ چور چور کا ایسا شور مچا، جو چوروں کی تلاشی تک جا پہنچا۔ مقدمہ مقدمہ ہوتا ہے چھوٹا ہو یا بڑا۔ ملزم ملزم ہوتا ہے امیر ہو یا غریب۔ جس طرح دانت میں کیڑا لگ جائے تو وہ نہیں دیکھتا یہ دال کھانے والا دانت ہے یا مال کھانے والا۔ احتساب کے عمل کو‘ جو فطر ی ہے، آئینی و قانونی بھی‘ کیڑا سمجھ کر مسل دینے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس مقصد کے لئے 5 مسخرے ریلوکٹے‘ 18 پھٹیچر خوشامدی، گالی گلوچ بریگیڈ‘ باقاعدہ تنخواہ دار ملازموں کو قومی بیانیہ متاثر کرنے کا ٹھیکہ ملا۔ پاناما کیس کے 126 دن تھے۔ ہر دن اقتدار کے مالکان کو لانگریوں نے یہی بتایا آپ کے خلاف پہلے کبھی کچھ ہوا ہے؟ نہیں تو اب کیا ہو سکتا ہے۔
بعض وکیل دوست‘ جو پاناما ٹیم کا حصہ تھے‘ حکمرانوں کی غیر سنجیدگی پر سر پکڑ کر بیٹھے رہے۔ ان وکلا کے علاوہ وکیلوں کی ایک ٹیم ٹریک 2 تھی۔ اس ٹیم کی جھولی میں گاڈ فادر 2 کے عطا کردہ لیپ ٹاپ تھے‘ جن پر رنگین سلائیڈز کے ذریعے ہر وقت بریفنگ تیار رہتی۔ عدالتی کارروائی شروع ہونے سے پہلے پروجیکٹر لگتے جن پہ گاڈ فادر بریفنگ دیکھتا۔ نئے نویلے لڑکے لڑکیاں، خوش لباس، مغربی خوشبوئوں میں َرچے بسے، اچھی انگریزی، مگر نان پریکٹسنگ، نوآموز بیرسٹر اور سلیسٹرز بریفنگ پیش کرتے۔ اکثر ایم این ایز، سینیٹروں، پارٹی عہدے داروں کے بچے اور سالیاں، سالے تھے۔ خاصے میرے جاننے والے بھی۔ ان میں سے ایک جم میں مل گیا۔ کہنے لگا: آپ کے پاس 2 منٹ ہیں؟ میں نے کہا: بتائو۔ اُس نے وزیر اعظم ہائوس کے اندرکھینچی گئی اپنی تصویریں فخریہ انداز میں دکھائیں۔ کہنے لگا: سر آپ اس عمارت کو پہچانتے ہیں۔ عرض کیا: کیوں نہیں‘ یہاں سے ایک انڈر 19 ٹیم نے ایگزیکٹو رخصتی کی پہلی چیف قسط چلائی تھی‘ آپ اس کا دوسرا سکرپٹ تیار کر چکے ہیں۔ جوان نے چہک کر کہا: اس پر شرط ہو جائے۔ تجویز دی: شرط نہیں انعام رکھ لیتے ہیں۔ وہ فوراً راضی ہو گیا۔ کہنے لگا: چلیں رکھیں انعام۔ میں نے کہا: اگر آپ جیت گئے تو چکری فارم پر دیسی لنچ کرائوں گا۔ کہنے لگا: نہیں سر، برج العرب دبئی میں کینڈل ڈنر۔ میرے جواب کے بعد ہنستے ہنستے یہ مناظرہ اختتام کو پہنچ گیا۔ میں نے کہا: نہ میرے پاس دبئی کا اقامہ ہے‘ نہ کسی عربی شیخ کا نوکر ہوں‘ نہ ہی نااہل وزیر اعظم کے سمدھی کی طرح2 عربی ٹاورز کا اُونر۔
بات شروع ہوئی تھی قیامت کی نشانیوں کی۔ پہلی نشانی پاکستان کی سب سے بڑی عمارت ہے۔ سپریم کورٹ، صدر ہائوس، ایمبیسیوں اور پورے سیکرٹریٹ سے اونچی۔ پہاڑی پر واقع عمارت پاکستان کی فلیگ کیریئر بلڈنگ ہے۔ یہاں روزانہ پرچم بلند کرنے اور شام کو اُسے تہہ لگانے کی تقریب برپا ہوتی ہے اور بگل بجتا ہے۔ یہ عمارت عمر رسیدہ قطری شہزادے‘ جو کئی قسم کے شکار کا شوقین اور ایل این جی کے بادشاہ حمد بن جاسم کو کرائے پر دے دی گئی۔ ابتدائی طور پر شکاری شہزادے کی ایل این جی کارندے کو لیز کا فرنٹ مین مقرر کیا گیا۔ قطری اثر و رسوخ، مال اور ریال بڑھتے رہے تو اس لیز کو 3-4 دفعہ مزید توسیع مل جائے گی۔ ایل این جی وزیر اعظم کے انتخاب کی واحد وجہ دنیا کا مہنگا ترین ٹھیکہ ہے‘ جس کی کاپی ابھی تک نہ پارلیمنٹ میں رکھی گئی نہ کسی عدالت میں پیش ہوئی، نہ میڈیا کو دکھائی گئی اور نہ ہی اسے پبلک کیا گیا۔ حالانکہ عوامی خریداری کرنے کا جو بھی ٹھیکہ یا ٹینڈر ہو وہ پبلک پروکیورمنٹ رولز (PEPRA) کے قانون کے مطابق کھلتا ہے۔ حساس دفاعی معاہدوں کے علاوہ پاکستان کا ہر ٹھیکہ پبلک ڈاکومنٹ ہے۔ گاڈ فادرز کی جوڑی نے نہ صرف ایل این جی ٹھیکہ چھپا رکھا ہے بلکہ پنجاب میں میٹرو بس، اورنج ٹرین سمیت ہر میگا پروجیکٹ کے ٹھیکوں کو ایٹمی راز بنا لیا گیا ہے۔ عوام کی جیب کاٹ کر عربی شیخوں اور چینی فرموں کی جیبیں بھرنے والے قوم کو حقیر کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں‘ جنہیں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ پوچھ سکیں۔ ان کے ٹیکسوں کے پیسے کہاں خرچ ہوئے۔ ٹھیکہ شفاف تھا یا ڈرٹی۔ دنیا میں خریداری کا ریٹ کیا ہے‘ اور پاکستان میں سینہ زوری سے کیا ریٹ طے ہوا؟ پی ٹی وی کی طرح ایل این جی کے خرچے کا بل بھی عوام دیتے ہیں۔ لیکن وہ ایل این جی وزیر اعظم سے ایل این جی ٹھیکے کا ریٹ پوچھ لیں تو یقینا جمہوریت خطرے میں پڑجائے گی۔
قیامت کی ایک اور نشانی یہ ہے کہ سرکاری سرپرستی میں 2 عدد پریس کانفرنسیں کروائی گئیں۔ دوسری پریس کانفرنس غیرت کے موضوع پر تھی۔ اس میں غیرت مند بھائی بھی شامل ہوئے۔ ان دونوں میڈیا ٹاک کے''ان دیکھے ثبوتوں‘‘ پر گاڈ فادر کی مافیا بارات فوراً غائبانہ ایمان لے آئی۔ دوسری جانب سپریم کورٹ کے 2 فاضل جج صاحبان جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب اور جسٹس گلزار احمد خان صاحب نے نواز شریف کو صداقت اور امانت کی اہلیت سے محروم قرار دیا۔ قوم، پارلیمنٹ اور عدالت سے جھوٹ بولنے کا سرٹیفکیٹ جاری کیا‘ جس کے تقریباً 90 دن بعد پاناما کیس کے باقی 3 جج حضرات نے پاکستان کے خادمِ اعظم کو دبئی کے شیخ کی 10 ہزار والی ملازمت پر عوامی نمائندگی ایکٹ مجریہ 1976 کے تحت نااہل قرار دیا۔ پھر پانچوں فاضل جج صاحبان نے بہ یک قلم آئین کے آرٹیکل 62 کی کلاز نمبر1 ذیلی آرٹیکل (F) کے تحت مشترکہ طور پر اسے گھر بھجوا دیا۔
پریس کانفرنس کے غائبانہ ثبوتوں پر ایمان لانے والے کہتے ہیں: سپریم کورٹ کا فیصلہ عوام نہیں مانیں گے۔ عوام کو تو لگتا ہے‘ جیسے گاڈ فادر 1 اور گاڈ فادر 2 کے نزدیک عوام سے مراد گھریلو ملازم اور لانگری ہیں۔ ملک کے ایوانِ عدل و انصاف کے خلاف جمہوری قیامت کی تازہ ترین نشانی یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس اعجازالاحسن کو احتساب کے عمل کی نگرانی کیوں سونپی گئی۔ سیاسی موت کا منظر دیکھنے والے سسلی مافیا، کرپشن کی آخرت پر یقین کر لیں۔ قوم جانتی ہے کہ جب ان کا پسندیدہ سیاسی کزن عدل کے نظام پر قابض تھا بطور چیف پاکستان گاڈ فادرز کے سیاسی مخالفوں کے خلاف ایف آئی آر، تفتیش، احتساب ریفرنس، انتخابی اہلیت یا نااہلی سمیت درخواست ضمانتوں تک کی نگرانی وہ خود کرتا۔ تب وہ عدل کا امین تھا اور گاڈ فادر جمہوریت کے صادق۔ ویسے بطور جیورسٹ عرض کر دیتا ہوں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ، پشاور ہائی کورٹ، بلوچستان ہائی کورٹ، سندھ ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ بشمول سپریم کورٹ‘ سب جگہ ہمیشہ دہشت گردی سمیت ہائی پروفائل مقدمات کی نگرانی کے لئے نگران جج کو ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔
ابھی تو قیامت کی چھوٹی چھوٹی نشانیاں ظاہر ہوئی ہیں۔ 6 ہفتوں میں پاناما کرپشن کے خلاف احتساب کا سونامی آئے گا‘ جس کے ساڑھے 4 ماہ بعد مودی کے یاروں کو آخری دھکا لگے گا۔
جزا سزا سب یہیں پہ ہو گی
یہیں عذاب و ثواب ہو گا
یہیں سے اُٹھے گا شورِ محشر
یہیں پہ یومِ حساب ہو گا