اسلام آباد سے 8,623 کلو میٹر کے فاصلے پر درخت نما سیدھی چٹان(cliff)
کی چوٹی پر بیٹھا ہوں ۔جہاں پہنچنے کے لیے میرے گھر سے 97 گھنٹے مسلسل ڈرائیو کی ضرورت ہے۔ اسے سکاٹ لینڈ کاسل کہتے ہیں۔ فرنگی نے ہندوستان کو غلام بنانے کے لیے فوج یہیں سے بھیجی ۔ یہ ایڈنبرا بندرگاہ ہے۔ آج ہی یہاں دنیا کا سب سے بڑا ایر کرافٹ کیرئیر بحری جہاز برٹش رائل نیوی نے لانچ کیا۔قلعے کی چوٹی تک پہنچنے کے لیے سینکڑوں سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں۔بالکل سیدھی جیسے کسی ہائے رائیز بلڈنگ میں فائر ڈور کے زینے۔ میری کیفیت کبھی خوشی، کبھی غم، کبھی سکون، کبھی آنسو والی ہے۔ پچھلے سال لیک ڈسٹرکٹ سے ذرا پَرے میرے دوست خورشید ہاشمی نے مجھے ٹیپو سلطان کی تلوار کی تصویر بھیجی۔ اسی سال جولائی میں میرے صاحبزادے عبداللہ نے اس کاسل کو وزٹ کیا ۔ ایک اور دوست انجینئر کمال الدین کے بڑے بھائی انجینئر جلال الدین عبداللہ کے گائیڈ بنے۔جو ایڈنبرا کے نواح مسل برا میں رہتے ہیں۔
مانچسٹر سے ایڈنبرا بذریعہ فلائیٹ، ٹرین ، موٹروے اور قدیم مضافاتی پرانی سڑک A-7 سے پہنچا جا سکتا ہے۔ زاہد بھٹی کے سٹاف آفیسر عبداللہ گاڑی چلا رہے تھے ۔ مُبین رشید ایڈوکیٹ بھی ساتھ ہو لیے ۔ میں نے سکاٹ لینڈ جانے کے لیے سب سے مشکل ،طویل اور چٹانی راستہ چُنا۔جس کی وجہ وِلیم ووڈزورتھ کی شاعری ہے۔
ووڈزورتھ نے شاعری وِنڈ مئیر لیک کے کنارے بیٹھ کر کی۔ اس جھیل پرووڈزورتھ کے چاہنے والے ہر ویکنڈ پر پروانہ وار آتے ہیں۔ اسی راستے پر لاکربی کا مشہورِ زمانہ قصبہ اور ریلوے ا سٹیشن واقع ہے۔ جہاںلیبیا کے شہید رہنما کرنل قذافی پر امریکن ایر لائین کا مسافر طیارہ گرانے کا الزام لگا۔ سکاٹ لینڈ کا یہ علاقہ میرے آبائی گائوں کہوٹہ جیسا ہے۔ بل کھاتے چٹانی راستے پر ایک قصبہ ایسا ہے جس کے نام کا اردو ترجمعہ ہے : ''موم بتی لے جائو‘‘۔ ایڈنبرا کاسل پہنچنے میں 5.30 گھنٹے لگے۔ ٹرین اور موٹر وے کے سفر سے 2.5 گھنٹے زیادہ۔
ایڈنبرا کاسل وہ واحد قلعہ ہے جسے فتح کرنے کا خواب تاجِ برطانیہ کبھی پورا نہ کر سکا۔ قلعے کے سب سے اونچے حصے پر سب سے اونچی بیرک میں رائل سکاٹش وار میوزیم واقع ہے جس کی پہلی منزل پر سو وینئیر شاپ ہے ۔ یہاں سے دنیا بھر کے سیاح اونی ٹوپیاں ، گرم مفلر ۔ سرخ اور سبز رنگ کے ایپرن ۔ شالیں اور بینڈ باجوں کے آلات خریدتے دکھائی دیئے ۔ لکڑی کی 40 سیڑیاں چڑھتے ساتھ ہی کلیجہ منہ کو آ گیا۔ دائیں طرف شیشے کے ایک بڑے کیبن میں غلام ہندوستان کے سب سے آزاد مرد حضرت ٹیپو سلطان ؒ کا پورٹریٹ نظر آیا۔ جس کے نیچے انگریزی زبان میں نوٹس بورڈ پر یہ لکھا ہے : '' یہ تصویر ٹائیگر آف میسور ٹیپو سلطان کے محل سے اُٹھائی گئی ہے‘‘۔
شہید ٹیپو سلطان کے پورٹریٹ کے عین نیچے شہید سلطان کا جنگی ہیلمٹ سلیقے سے رکھا گیا ہے۔ جو شہید ٹیپو سلطان نے 4 مئی1799ء کو شہادت کے وقت پہن رکھا تھا۔ اسکی بائیں طرف ریشم کی کشیدہ کاری والا کُرتا نما عباء محفوظ ہے۔ جس پر شہید ٹیپوسلطان کے غیرت مند لہو کے قطرے گرے۔ وہ لہو جس نے ایک سادہ جملے میں حریت کی تاریخ کو نیا عنوان دے ڈالا۔ شہید سلطان نے کہا: ''گیڈر کی 100 سالا زندگی سے شیر کی 1 دن کی زندگی بہتر ہے‘‘۔ یہاں شہید ٹیپوسلطان کی 3 تلواریں بھی محفوظ ہیں۔ ایک سونے کے جڑائو والی۔ دوسری شیرِ خدا سیدنا علیٰ کی تلوار ذولفقار سے ملتی جلتی آ ہنی تلوار ۔ جبکہ تیسری تلوار کا دستہ سونے کا اور بلیڈ سٹین لس سٹیل ۔ یہاں سے کئی نوادرات بھارتی حکومت خرید کر لے گئی ہے ۔
کاسل میں داخل ہونے کے بعد ہم نے کئی لوگوں سے راستہ پوچھا۔آخر کار ایک سکیورٹی انچارج خاتون نظر آئی۔ اسے ٹیپو سلطان کا نام بتایا توکہنے لگی ، شاید وہ ٹیپو کی یاد گاریں بِک گئیں ہیں۔ پھر واکی ٹاکی پرخاتون نے کاسل انچارج سے رابطہ کیا۔ درست معلومات لے کر انتہائی توجہ سے ٹیپو کارنر سمجھا دیا۔ جتنی دیر میں ٹیپو سلطان شہید کے لباس اور مجاہدانہ ہتھیاروں کے پاس کھڑا رہا شہید ٹیپو سلطان کی خوشبو محسوس ہوتی رہی۔ فاتحہ خوانی کی ۔ بے اختیار میری آواز اونچی ہو گئی۔ آنکھیں پہلے ہی نم تھیں۔ میں نے کہا حیدر علی کے بیٹے علی حیدر کا بیٹا تیرے ہم وطنوں کے آنسوئو ں میں ڈوبا ہوا سلام لایا ہے ۔ دنیا بھر کے آزادی پسندوں کی طرف سے شہید ٹیپو پر سلام۔ آزادی کے لیے لڑنے والوں کی طرف سے لڑ کر مرنے والے آزاد مرد کو سلام۔ ٹیپو سلطان تیری قیدی تلواروں کو سلام ۔ شہیدِ اعظم تیرے شوقِ شہادت کو سلام ۔ تیرے مقدس لہو میں ڈوبے ہوئے خون آشام پیر ھن کو سلام۔ میں بے اختیار بولتا چلا گیا ۔میری ڈب ڈبائی آنکھیں۔ عقیدت میں رندھی ہوئی آواز نے قلعے کے پاس داروں کو متوجہ کر دیا۔ایک نے محبت سے ہاتھ تھپ تھپانے کے انداز میں میرے کاندھے پر رکھ دیا۔ میں بولتا چلا گیا۔
چلے جو ہو گے، شہادت کا جام پی کر تم
رسولِ پاکؐ نے بانہوںمیںلے لیا ہو گا
علی تمہاری شجاعت پہ جھومتے ہوںگے
حسینِ پاک نے ارشاد یہ کیا ہو گا
تمہیں خدا کی رضائیں سلام کہتی ہیں
لگانے آگ جو آئے تھے آشیا نے کو
وہ شعلے اپنے لہو سے بُھجا دیے تم نے
بچا لیا ہے یتیمی سے کتنے پھولوں کو
سہاگ کتنی ہی بہاروںکے رکھ لئے تم نے
وطن کی بیٹیاں مائیں سلام کہتی ہیں
اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
میں سیاحوں کے موبائل کیمروں سے بے خبر ٹیپو سلطان سے مخاطب رہا۔ میرے مالک کا وعدہ ہے اور میرا ایمان کہ شہید مرتے نہیں زندہ ہیں ۔ انہیں رزق بھی پہنچتا ہے ۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ ہمیں اس کا شعور نہیں۔ نہ جانے کس وقت ایڈنبرا کاسل کا پاسدار بھی میری کیفیت میں اتر گیا۔ سکاٹ لینڈ کے باسی کھلے ڈلے ہیں گورے مگر گوروں سے سخت نفرت رکھنے والے۔ اس نے آگے بڑھ کر مجھے گلے لگا لیا۔ انگریزی میں کہنے لگا:(Does Tipu belong to you?)۔ میں نے تعزیت میں ڈوبے ہوئے لفظوں میں محبت کی چاشنی محسوس کی۔ اسے جواب دیا:ـ
"No."ساتھ کہا : I belong to Tipu Sultan") (اس نے چائے کی دعوت دی بلڈنگ کی دوسری طرف کافی شاپ پہنچے ۔ وہ مجھ سے پوچھنے لگا کافی لو گے یا چائے۔ چائے، میرا جواب تھا۔ پھر بولا کون سی چائے۔ میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ بول اُٹھا ۔ یہاں اِنگلش -ٹی بیچنے کی اجازت نہیں ادھر سکاٹش ٹی چلتی ہے ۔ چھوٹی سی کیتلی میں چائے کا بڑا سا پُڑا ، اُبلا ہوا پانی اور برائون شکر، میرے سامنے آ گئے ۔ اس نے چند منٹوں کی رفاقت میں میرے ساتھ دکھ کی سانجھ جوڑ لی۔ سکاٹ لینڈ میں انگلش بادشاہوں کے مظالم اور لوٹ مار کی داستانیں ایسی کہ میری روح کانپ اُٹھی۔ پھر پوچھنے لگا تمہیں سکاٹ لینڈ کس نے بلایا ۔ میرے منہ سے نکل گیا ٹیپو سلطان نے ۔ بیچارہ اور اداس ہو گیا ،میں نے شہید کے حضور دوسری حاضری دینے کی اجازت مانگی اور ساتھ فیصلہ کیا کہ اب میں کھل کر روئوں گا۔
مجھے اپنے پیارے نبیﷺ کے پیارے چچا حضرت حمزہ ؓ کی شہادت کا منظر یاد آیا جہاں صحرا کے شیر کی میت پر یہ پکار سنائی دی ۔مدینے کی رونے والیاں کہاں ہیں ۔ تب مجھے سمجھ آئی کہ ٹیپو سلطان نے مجھے کیوں بلایا تھا۔۔۔۔