میں نے اپنی طرف سے جان چھڑانے اور ٹالنے کی بھرپور کوشش کی۔
لیکن دوست کا اصرار تھا کہ قومی مفاد اور جمہوریت کے تحفظ کے لئے اس کی بات ضرور سنی جائے۔ کہنے لگا: فرض کریں‘ آئینی ترمیم پاس کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا اجلاس ہو رہا ہے۔ ایوان میں پیش کردہ آئینی ترمیم صرف قومی اسمبلی کی سیٹوں کے رد و بدل کے لیے ہے۔ فرض کریں‘ وزیرِ قانون نے سپیکر سے اجازت لی۔ سپیکر نے حاضر ممبران سے بِل فلور پر ٹیبل کرنے کے حق میں ہاں کروائی۔ فرض کریں‘ آئین کے آرٹیکل 51 میں ترمیم کا بِل پاس ہو گیا‘ اور ساتھ ہی ایک رکنِ اسمبلی یا وفاقی وزیر اُٹھ کھڑا ہوا اور کہا: جنابِِ سپیکر! میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اسمبلی کے رولز معطل کرکے ایک مختصر آئینی ترمیم پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ فرض کریں‘ سپیکر نے اجازت دے دی اور وہ آئینی ترمیم بھی منظور ہو گئی۔ مجھے حیران دیکھ کر دوست بولتا چلا گیا۔ کہنے لگا: فرض کریں‘ ایک اور وفاقی وزیر کھڑا ہوا۔ کہا: جنابِ سپیکر درخواست ہے کہ آئین میں تیسری ترمیم کے لیے رولز معطل کرکے مجھے ترمیم ایوان میں پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ فرض کریں‘ نون لیگ کے آئندہ ٹکٹ کے اُمیدوار سپیکر نے بڑی فراخدلی سے یہ اجازت بھی دے ڈالی۔ آئینی ترمیم کا یہ بِل بھی ایوان میں پیش ہوا‘ اور منظور بھی ہو گیا۔ میرا تجسُس اور حیرانی دیکھ کر دوست نے اپنی بات جاری رکھی۔ کہا: ابھی بتاتا ہوں کہ اچانک پیش ہونے والے دونوں بلوں میں کون سی ترمیم کی گئی۔ پھر کہا: فرض کریں‘ پہلی ترمیم کے ذریعے عسکری سربراہ کی تعیناتی کا عرصہ3 سے کم کرکے2 سال کر دیا گیا‘ اور فرض کریں دوسری ترمیم کے ذریعے عدالتِ عظمیٰ کے جج صاحبان کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سے کم کرکے 62 سال کر دی جائے۔ اور میرا جواب سُنے بغیر بات جاری رکھتے ہوئے کہا: یہ دونوں ترامیم پاس ہو جا ئیں تو کوئی کیا کر لے گا۔ پارلیمنٹ سپریم ہے‘ اس لیے آئین میں جتنی ترامیم کرنا چاہے یہ اس کا استحقاق ہے اور فرض منصبی بھی۔
پھر بولا: فرض کریں...۔ میں نے اُسے ٹوکنے کی اپنی سی دوسری ناکام کوشش کی مگر وہ رُکنے پہ تیار نہ تھا۔ بولتا چلا گیا‘ بھائی صاحب! لندن کی منصوبہ بندی اور تھی کیا؟ اسی خاطر تو کابینہ کے منتخب لوگوں کو اس راز میں شریک کرنے کے لیے منتخب کیا گیا۔ آدھی میٹنگ بیٹے کے کاروباری دفتر میں ہوئی اور چھوٹی اور اصلی میٹنگ چرچل ہوٹل میں۔ ان اہم لوگوں کی لندن یاترا کا مقصد بیگم صاحبہ کی خیریت پوچھنا یا نااہل وزیرِ اعظم کے پاکستان آنے کی تاریخ معلوم کرنا تو ہو نہیں سکتا‘ پھر یہ بھی اہم سوال ہے کہ وہ کون سی کلاسیفائیڈ ''ٹاک‘‘ تھی جسے گفتگو کے پکڑے جانے کے ڈر سے مئے فیئر فلیٹ اور جاتی عمرا کے راج بھوّن سے دور بیٹھ کر کرنا لازم تھی۔
فرض کریں‘ لندن کے چرچل ہوٹل میں منعقد ہونے والی چھوٹی میٹنگ میں ایک اہم بھارتی بھی شامل تھا تو...؟۔ یہ بھارتی اس سے پچھلے ہفتے قطری شہزادوں کے ساتھ لاہور آیا تھا‘ اور اُنہیں کے ہوائی جہاز میں واپس چلا گیا‘ بلکہ ویسے ہی جیسے شریفوں کا فیملی فرینڈ سریا ساجن ویزے کے بغیر بھوربن جا پہنچا تھا اور وہ بھی سرکاری پروٹوکول کی چھتر چھائوں میں۔ یا پھر جس طر ح جنگلہ جندال سے بھی پہلے بدنامِ زمانہ
بھارتی خفیہ ایجنسی را کا چیف اور پاکستان کو توڑنے کا اعلان کرنے والا اجیت دوول مودی کے جہاز میں لاہور آیا تھا۔ کسی تلاشی، ویزے اور امیگریشن کے بغیر سب سے بڑے کرپشن محل میں جا پہنچا تھا۔ پھر اپنے یار کے پروٹوکول کے سائے میں‘ واپس بھی چلا گیا۔ میرا دوست پھر کہنے لگا: فرض کریں‘ پاکستان کے خزانے کا منشی اپنی تازہ دریافت شدہ بیماری کا علاج کروانے کے لیے بھارت چلا جائے۔ فرض کریں‘ مودی کے ڈاکٹر اسے ایک سال کے بیڈ ریسٹ کی ہدایت کر دیں۔ ساتھ روزانہ وزارتِ خزانہ کے امور نمٹانے کے لیے دو گھنٹے کا وقفہ لکھ دیں‘ تو کوئی کیا کر لے گا؟ بالکل ویسے ہی جیسے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے لاکھوں اہلکاروں کو ٹھینگا دکھا کر سارے فنڈز اور خزانہ‘ دوستوں عزیزوں کی پرائیویٹ کمپنیوں کے حوالے کر دیے گئے تو کسی نے کیا کر لیا؟ فرض کریں‘ حسن شریف اور حسین شریف کی طرح سمدھی شریف بھی پاکستان کے قانون کو ماننے سے انکار کر دیں؟۔ اپنی پچھلی جیب میں سے گورے ملکوں کا سرخ پاسپورٹ نکال کر پاکستان کے عدالتی نظام کی بالا دستی کو ٹھکرا دے تو کوئی کیا کر لے گا؟
میں نے اپنا سر پکڑ لیا۔ بھرپور بیزاری کا اظہارکیا تو اس نے پینترا بدل لیا۔ بولا: فرض کریں‘ وزیر اعظم ملک میں معاشی ایمرجنسی نافذ کر دیتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک سال کے عرصے کے لیے الیکشن ملتوی کر دیں اور اپنی ہی حکو مت کو ایمرجنسی کابینہ ڈیکلیئر کر دیں تو کوئی کیا کر لے گا؟ فرض کریں کہ کوئی متوالا وزیر کسی ٹرک کو ٹکر مار دے اور پھر اعلان کرے کہ یہ ٹرک پی ٹی وی ہیڈ کواٹرز کی طر ف دوڑا جا رہا تھا‘ تو کوئی کیا کر لے گا؟۔
فرض کریں پنجاب کے شہروں اور دیہات میں بھاری سموگ اور گہری ہو جائے۔ خادمِ اعلیٰ بیماری سے بچنے کے لیے ہارلے سٹریٹ لندن کے مشہور زمانہ کاسمیٹکس ہسپتال میں داخل ہو جائیں۔ اقتدار کسی پپو، مُنو اور چُنو کے حوالے کر دے تو کوئی کیا کر لے گا کیونکہ پچھلے نو برسوں میں اقتدار‘ بجٹ اور فیصلے یہی پپو، منو اور چنو ''اکڑ بکڑ‘‘ کرکے باری لیتے رہے تو کسی نے کیا کر لیا۔ جیسے ایک ترقیاتی ادارے نے یہ کہہ دیا ہے کہ لاہور میں نااہل وزیر اعظم کے دونوں بیٹوں کی کوئی جائیداد نہیں‘ تو کسی نے کیا کر لیا۔ فرض کریں کسی اور کو خوش کرنے کے لیے ایک دوسرے کو گالیا ں دینے والے جمعہ کی رات کو آپس میں ملا قا ت کر چکے ہوں‘ اور یہ ملاقات اسلام آباد سیکٹر ایف میں ہوئی ہو‘ اور اس ون آن ون ملاقات کی تفصیلات کو رات کے راہی 'چل جھوٹے‘ کہہ دیں تو کوئی کیا کر لے گا؟۔
یہاں تک آ گئے ہیں میگُسار آہستہ آہستہ
اُٹھا ہے میکدے کا اعتبار آہستہ آہستہ
چمن کا رنگ‘ غُنچوںکی چٹک‘ شاخوں کی برنائی
لُٹاتی ہے نسیمِ زلفِ یار آہستہ آہستہ
فقیروں کی سنانیں جھومتی ہیںکجکلاہوں پر‘
گِرے جاتے ہیں سب گردوں وقار آہستہ آہستہ
ہمیں ان آئے دن کی سازشوں میں سوچنا ہوگا
کہاں لے جائیں گے یہ شہریار آہستہ آہستہ
فرض کریں‘ وزیر اعظم ملک میں معاشی ایمرجنسی نافذ کر دیتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک سال کے عرصے کے لیے الیکشن ملتوی کر دیں اور اپنی ہی حکو مت کو ایمرجنسی کابینہ ڈیکلیئر کر دیں تو کوئی کیا کر لے گا؟ فرض کریں کہ کوئی متوالا وزیر کسی ٹرک کو ٹکر مار دے اور پھر اعلان کرے کہ یہ ٹرک پی ٹی وی ہیڈ کواٹرز کی طر ف دوڑا جا رہا تھا‘ تو کوئی کیا کر لے گا؟۔