عدالتِ عظمیٰ کے کورٹ نمبر ایک سے نکل کر‘ باقی کام چھوڑ دئیے اور سیدھا تربیلا جا پہنچا۔ صاحبِ حال کا پہلا جملہ ہی حسبِ حال تھا۔ صبر کرنا چاہیے۔ کون سا مسئلہ ایسا ہے جو حل نہ ہو۔ ساتھ ہی کہا: قدرت شاباش اُنہیں دیتی ہے جو صبر کرتے ہیں۔
اگلے دن صبح اخبار میں چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کے ریماکس دیکھے۔ جو آپ لوگ بھی پڑھ چکے ہیں ''جو کچھ عدالت سے باہر کہا جا رہا ہے اُس پر ہمارے صبر کو داد ملنی چاہیے۔ دنیا میں کسی کو خوش کرنے کی غلط کاری کیوں کریں۔ انصاف کریں گے جس کا صلہ اگلے جہان ضرور ملے گا‘‘۔ (قندِ مکرر)
اقتدار کے سب سے بڑے منیجر ہمیشہ انصاف کے کاروبار پر بھروسہ کرتے آئے ہیں۔ جس کے لیے جنرل ضیاء کے مارشل لاء سے شروع ہونے والا‘ اللہ کا ''فضل و کرم‘‘ جنرل جیلانی اور جونیجو سے ہوتا ہوا گاڈ فادر ون اور گارڈ فادر ٹو کو ملا کر پانچ دفعہ وزارتِ اعلیٰ پنجاب اور 4 مرتبہ ہوم میڈ وزاتِ عظمیٰ فضل و کرم کی سونامی لے کر آ گیا۔ آگے بڑھنے سے پہلے ذرا اِس شریفانہ دور کی درست تاریخ اور عرصۂ اقتدار ملاحظہ فرما لیں۔ یہاں تذکرہ صرف گاڈ فادر کا ہے۔
Minister for Finance, Excise and Taxation, Government of the Punjab (from April 25, 1981 to February 28, 1985)
Chief Minister, Government of the Punjab (from April 09 1985 to 1988
Caretaker Chief Minister, Government of the Punjab (from May 1, 1988 to December 02, 1988)
Chief Minister, Government of the Punjab (from December 02, 1988 to August 06, 1990)
Prime Minister of Pakistan (from November 06, 1990 to July 18, 1993)
Leader of the Opposition in the National Assembly (from October 19, 1993 to November 05, 1996)
Prime Minister of Pakistan (from February 17, 1997 to October 12, 1999)
Prime Minister of Pakistan (from June 05, 2013 to Till Date)
( نوٹ: یہ تفصیلات عمران خان بنام نواز شریف المشہور پانامہ کیس کے فیصلے میں PLDسپریم کورٹ سال2017 ء کے صفحہ 265 سے لی گئی ہیں‘ اور تب تک وہ وزیر اعظم تھے)
اِن سارے ادوار میں کروڑوں، اربوں ڈالر کے بلکہ منوں اور ٹنوں کے حساب سے قرضے لے کر لوٹ لیے گئے اور ساتھ ساتھ کرپشن کی شکایتیں بھی سامنے آتی رہیں۔ کرپشن کے اِن الزامات میں سے ہر ایک الزام کسی نہ کسی سرکاری محکمے یا ادارے کی طرف سے ہی لگایا گیا۔ سِتم ظریفی یہ ہے کہ قومی ادارے باری باری کرپشن کے تاج محل کے سامنے سجدہ ریز ہوتے رہے۔ باقی تفصیل چھوڑ دیں۔ تب بھی ایک کیس سٹڈی ہی کرپشن کے تاج محل کے حُسن کی قیامت خیزی ثابت کرنے کی لیے کافی تھا۔
اور وہ یہ کہ وہ کمانڈو‘ جو کسی سے ڈرتا ورتا نہیں تھا، اُس نے بھی آلِ شریف کو ریلیف دینے کے لیے ریالوں میں نقد فیس وصول کی۔ انگریزی میں کہتے ہیں (Give the Devil his Due) پاکستان کی تاریخ میںصرف ایک سابق وفاقی وزیر امور دفاعی پیداوار اور دوسرے چیف ایگزیکٹو برائے امورِ مارشل لاء کی پیداوار نے ''عطیات‘‘ وصول کرنے کا دلیرانہ اعتراف کیا۔ اور وہ بھی ٹی وی کے اینکرز حضرات کے ساتھ ٹاک شوز میں۔ پوری قوم کے سامنے اور پوری دنیا کو سنا کر‘ ڈنکے کی چوٹ پر۔
اس یادگار جمہوری سڑک پر صرف اُن خواتین و حضرات کے ٹرائل ہوئے جو موجودہ حکمرانوں کے سیاسی مخالف تھے۔ سبزہ زا ر کسٹوڈیل قتل کیس سے لے کر ماڈل ٹاون قتلِ عام تک موجودہ حکمرانوں نے اپنے خلاف کوئی مقدمہ سرے سے چلنے ہی نہیں دیا۔ پولیس گھر کی لونڈی۔ خاص طور پر چُن چُن کر لگائے گئے وہ اہلکار جو ذاتی ملازموں کا کردار ادا کرنے کے لیے ہر وقت تیار تھے۔ اس خاص پسِ منظر کو ذہن میں رکھیں تو تین باتیں آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہیں۔
سب سے پہلے‘ گاڈ فادر نمبر ون اور گاڈ فادر نمبر ٹو کے یہ دعوے کہ کوئی اُن کی ایک دھیلے، ایک ٹیڈی پیسے یا ایک آنے کی کرپشن ثابت کر دے تو وہ پھانسی پر لٹکنے کے لیے تیار ہیں۔ سسلین مافیا جانتا تھا کہ جب مخالفوں کے دور میں اُن پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکا تو پھر اُن کی اپنی دو تہائی اکثریت اور بھاری مینڈیٹ والی حکومت سے کوئی ٹیڈی پیسہ کہاں سے ڈھونڈ لائے گا۔ جبکہ ٹیڈی پیسہ کب کا بننا بند ہو چکا ہے۔
دوسرا یہ کہ پاکستان کے عوامی بجٹ پر ڈالے گئے ڈاکوں کے ثبوت مٹانے کے لیے مکمل بندوبست کیا گیا۔ اوّل تو ہر میگا کرپشن سکینڈل کے کاغذات جلا دئیے گئے۔ پھر ماڈل ٹاون قتلِ عام کیس سمیت بڑی وارداتوں کے سرکاری مجرم بیرونِ ملک تعینات کر دیئے گئے تاکہ ان کے پکڑے جانے کا کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کھربوں روپے کے پروجیکٹس کے کِک بیکس اور کمیشن کو 11 سے زیادہ ملکوں میں منی لانڈرنگ کے ذریعے پہنچا دیا گیا۔ لیکن فوجداری قانون کا بنیادی اصول اس طریقۂ واردات کے بالکل برعکس ہے۔
تقریباً 20 سال پہلے میرے پاس خوشاب کے دیہی علاقے کا ایک کیس آیا تھا‘ جس میں بہت بڑی زمین کے مالک کا اکلوتا بیٹا گمشدہ ظاہر کیا گیا۔ گُم ہونے والے نوجوان کے کزنز بار بار کہتے: جتنی مرضی فیس لے لیں‘ ہمیں ہر حال میں نوجوان کزن کی بر آمدگی چاہیے۔ وہ گمشدگی کا کوئی اشارہ تک دینے کے لیے تیار نہ تھے۔ گمشدگی کی رِٹ پٹیشن دائر ہوئی اور کئی ماہ گزر گئے۔ تب مون سون کے بادل دل کھول کر برستے تھے۔ ہوا یوں کہ قیمتی جائیداد کے لالچی کزنز نے بے رحمی سے خود ہی کزن کو مارا۔ اُس کی باڈی کئی جگہ ٹھکانے لگائی مگر سر گائوں سے باہر‘ برساتی نالے کے کونے میں دبا دیا۔ مون سون کی بارش نے مٹی کا بند توڑ ڈالا تو زیرِ زمین واردات کو قدرت کے انتقام نے مٹی کے تودوں کے نیچے سے ڈھونڈ نکالا۔
اب آئیے فیئر ٹرائل کے حق کی طرف جو نااہل صاحب اپنے لیے مانگ رہے ہیں۔ ایک ایسے ٹرائل میں‘ جو ابھی تک شروع ہی نہیں ہو سکا‘ نااہل وزیر اعظم کے دونوں بیٹے عدالتی مفرور ہیں۔ سمدھی، وزارتِ خزانہ سمیت لندن میں زیرِ زمین جا چُکے۔ نواز شریف کو جا کر کوئی یہ بتائے لاہور کے 14 سے17 مقتولوں کی قبریں بھی فیئر ٹرائل مانگ رہی ہیں۔ فیئر ٹرائل کی سیاسی ڈیمانڈ کرنے والے محض ایک سرگوشی سے فیئر ٹرائل کا اصلی مطالبہ پورا کر سکتے ہیں۔ گاڈ فادر ٹو کے کان میں اتنا کہہ کر کہ بھا جی، جسٹس باقر نجفی کمیشن رپورٹ منظرِ عام پر لے آئو۔
اگر کوئی قدرت کے انتقام کو بھی نہیں جان سکتا تو سمجھ لو وہ آج بھی تکبر کے ہمالہ پر سوار ہے۔ اسی لیے وہ انصاف کی ''شاپنگ‘‘ سے ناکامی پر سخت پریشان ہے۔ مارگلہ کے بندر کی کہانی پھر کبھی سن لیجئے گا۔ فی الحال یہ سادہ مگر پُرکار شعر کافی ہو گا۔
عوام الناس ہنستے جا رہے ہیں
سیاستدان پھنستے جا رہے ہیں