"SBA" (space) message & send to 7575

دھرنا گیٹ

رچرڈ نکسن ذاتی طور پر واٹر گیٹ سکینڈل کا اصل مُلزم نہیں تھا۔
واٹر گیٹ سکینڈل امریکہ بہادر کے صدر کی انتخابی مہم کے منیجروں کی کمیٹی کے خلاف شروع ہوا‘ جس میں سے کئی لوگ ملوث نکلے۔ واقعات کے مطابق اس گینگ کے 5 لوگوں کو ٹاسک دیا گیا تھا کہ وہ صدر نکسن کے مخالفوں کی معلومات چوری کریں اور ٹیلی فون ٹیپ کریں۔ اس کا مقصد صاف ظاہر ہے کہ حکومت کے مخالفوں کو ہراساں اور بلیک میل کرنا تھا۔ امریکی صدر پر الزام یہ لگا کہ وہ اپنی ٹیم کے چوٹی کے مُلزموں کو بچا رہا ہے۔ رچرڈ نکسن اسی الزام میں گھر چلا گیا۔
یہ گزشتہ 5 سالہ ریکارڈ سے ثابت شدہ حقیقت ہے کہ رچرڈ نکسن سے زیادہ سنگین الزامات گاڈ فادر 1 اور گاڈ فادر 2 کے کریڈٹ پر آئے۔ مثال کے طور پر گاڈ فادر 2 کے لیے ویڈیو کیمرے کی آنکھ کے سامنے ایک وزیر نے نقدی پکڑی۔ کچھ دنوں کے لیے قوم اور میڈیا کو غچہ دینے کے لیے وزیر ہٹا دیا گیا۔ الزام نہیں بلکہ رشوت کے اعتراف کی صوتی، تصویری، واقعاتی اور دستاویزی شہادتیں موجود ہیں‘ لیکن مافیا نے کمائو پتر یعنی فرنٹ مین کو بچا لیا۔ دونوں آج کل پنجاب کے کروڑوں بچوں کی تعلیم و تربیت اور کردار سازی کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ پھر ماڈل ٹائون آیا، چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو گاڈ فادر 2 کی طرف سے خط لکھا گیا، جوڈیشل کمشن بنا دیں؛ چنانچہ جسٹس نجفی کمشن بن گیا۔ گاڈ فادر 2 ایک اور بڑے مُلزم وزیرِ لاقانون کے ہمراہ کمشن کے روبرو حاضر ہوا۔ راوی کہتا ہے کہ دونوں نے اپنے اپنے بیانِ حلفی میں ماڈل ٹائون قتلِ عام کی ذمہ داری پوری دیانت داری سے ایک دوسرے پر ڈالی۔ ماڈل ٹائون قتلِ عام کے سب سے کمزور لنک کچھ منظورِ نظر سرکاری مُلازم تھے‘ جن کو فوراً بیرونِ مُلک بھجوا کر چھپا دیا گیا۔ اس ظالمانہ واردات پر پورا مُلک صدمے سے بے حال ہوا‘ لیکن ایک وارداتیا دوسرے وارداتیے کے ہاتھوں وزارت پر پھر بحال ہوا۔
پھر وزیرِ امور ''مخولیات‘‘ کی ڈیوٹی لگی۔ اس ڈیوٹی اور کلبھوشن یادیو کی ڈیوٹی میں اہداف اور مقاصد کے اعتبار سے ذرہ برابر فرق نہ تھا۔ دونوں نے فوج اور آئی ایس آئی کو نشانے پر رکھا۔ گاڈ فادر نے کابینہ کے سربراہ کی حیثیت سے وزیرِ امورِ مخولیات کو مجرم ٹھہرا دیا۔ وزارت سے ہٹایا اور پھر دوبارہ اُسے بُلا کر وزیر بھی لگایا۔ پی ایم ہائوس کی سکیورٹی میٹنگ کو من پسند رپوٹروں کے ذریعے لیک کرنے والا قصہ تو آپ کو یاد ہی ہے، وہی ڈان لیکس سکینڈل والا۔ اس میں بھی ایک وزیر مجرم قرار دے کر نکالا گیا‘ اور ساتھ ایک مُشیرکو بھی۔ جنت سے نکلا ہوا مُشیر آج کل آلِ شریف پر بیٹھنے والی ''مکھیوں‘‘ کے خلاف سینہ تان کر ڈٹا ہوا ہے۔ جبکہ وزیر عدالت کے کٹہرے میں گاڈ فادر کے چرنوں میں بیٹھ کر اُسے عقلِ کُل کی پرچیاں پڑھانے کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ کل کے سُپرمین اور آج کے اشتہاری مُلزم ''سمدھی ڈار‘‘ کو ڈرانے، بھگانے اور چھپانے کی کہانی تو ابھی چل ہی رہی ہے۔ غالباً دسمبر کے مہینے میں اس کا ڈراپ سین ہو جائے گا۔ اس لیے تفصیل میں جانے کی کیا ضرورت۔ صرف یہی تناظر ذہن میں رکھیں تو دھرنا گیٹ کی ساری کہانی کُھل کر سمجھ میں آ جائے گی۔
چند اشارے نہیں بلکہ واقعات دیکھ لیں۔ آئینِ پاکستان مجریہ 1973ء کے آرٹیکل نمبر260 میںعقیدہِ ختمِ نبوتؐ کی بابت حتمی اور متفقہ ترمیم کو ماتحت قانون سازی کے ذریعے تبدیل کرنے کی مذموم حرکتِ شریف سامنے آئی‘ اور اس ماورائے آئین ترمیم کے نتیجے میں 2قومی مطالبات بھی سامنے آئے۔
پہلا: یہ کہ اس حساس اور طے شدہ آئینی معاملے کو چھیڑنے کے ذمہ دار کردار کون سے ہیں۔
دوسرا مطالبہ: یہ کہ حکومت ان کے خلاف تادیبی کارروائی کرے۔ ان دونوں قومی مطالبات پر درباریوں نے بڑے مُلزموں کو بچانے کے لیے حسبِ عادت کمیٹی، کمیٹی کا کھیل رچایا۔ میرے گرائیں راجہ صاحب کمیٹی کے انچارج بنے۔ ریکارڈ کی بات یہ ہے کہ یہ کمیٹی خود نون لیگ کے نااہل سربراہ نے بنائی۔ اس وقت تک محسنِ انسانیتؐ کے پیروکار اور تابعدار حکومت سے توقع لگائے بیٹھے تھے کہ شاید وہ ناموسِ رسالت ؐ پر سیاست نہیں کرے گی۔ جب تکبر کے ہمالہ پر بیٹھے ہوئے تاجروں نے دروغ گوئی کا مائونٹ ایوریسٹ سر کر لیا‘ تو تب دھرنے نمودار ہوئے۔ پہلا دھرنا آیا اور اُٹھ بھی گیا۔ دوسرا دھرنا لاہور سے چلا‘ 5 دریائوں کے پُل عبور کیے‘ اور 300 کلومیٹر طویل سفر کے بعد فیض آباد پہنچا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اس سارے عرصے میں گاڈ فادر2 نے اپنی صوبائی حکومت کی طرف سے گاڈ فادر1 کی مرکزی حکومت کو تاریخ ساز شرمندگی اور عالمی ذلت سے بچانے کے لیے دھرنے والوں سے مذاکرات کیے اور نہ ہی اس مسئلے کو بگاڑ سے روکنے کے لیے کوئی عملی قدم اُٹھایا۔
فیض آباد انٹرچینج کے ارد گرد میرے رشتہ داروں کے3گائوں ہیں۔ سوہان، پونہ فقیراں اور سہان۔ چشم دید گواہ کہتے ہیں، دھرنا راولپنڈی اسلام آباد کو علیحدہ کرنے والی آئی جے پرنسپل روڈ پر لگا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اہلیت کے بادشاہ عرف وزیرِ داخلہ نے زیرو پوائنٹ پر کنٹینر لگوا دیے۔ اور تو اور سرینا ہوٹل پر بھی کنٹینر گاڑ ڈالے۔ اس دوران ایک وزیر‘ جن کو آلِ شریف نے صرف گالم گلوچ بریگیڈ کی سفارش پر بھرتی کیا‘ مسلسل دھرنے کا طعنہ فوج کو دیتے رہے۔ 1300 احتجاجی مظاہرین کے مقابلے میں 9000 اہلکاروں کی کارکردگی، وزیرِ داخلہ کی گڈ گورننس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ریاستی تشدد سے مارے جانے والے نہتے، بے گناہ لوگ کس بے رحمی سے قتل ہوئے اس کی تصویریں سوشل میڈیا سے دیکھ لیں۔ ملک کی 70 سالہ تاریخ کی آخری بدنامی نما ناکامی کے بعد ناراض گروہوں کے قہروغضب کے سامنے فوج کو کھڑا کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ عدلیہ سے پاناما کیس کا بدلہ لینے کا گر بھی خوب آزمایا گیا۔ عدالت نے کہا: فیض آباد کا راستہ کھولو۔
اس عدالتی پروانے کو قتلِ عام کا پرمٹ سمجھ کر نہتے شہریوں کا لہو بہایا گیا۔
کہاں ہے وہ اینگری وومن اور اینگری اولڈ مین کی جوڑی‘ جو کہتے نہیں تھکتی کہ ہم ایک نظریہ ہیں‘ لوہے کے چنے ہیں‘ کسی سازش سے نہیں ڈرتے‘ ہم چھپنے والے نہیں۔
دھرنا گیٹ کا فلسفہ بڑا سادہ ہے۔ وہ کون ہے جسے دھرنا گیٹ کی وجہ سے 2 سال بعد ٹی وی ٹاک شوز سے ریلیف ملا۔ لوگ چند دن کے لیے حدیبیہ پیپر، مے فیئر فلیٹ، پاناما کیس اور سسلین مافیا بھول گئے۔ سکول کے بچوں نے کہا: دھرنا انٹرچینج کھول دو۔ نواز شریف کی بہترین تربیت یافتہ ٹیم نے 3 گھنٹوں میں پورا پاکستان بند کرکے دکھایا۔ آج سکول بند، کچہری بند، بازار بند، جی ٹی روڈ بند، موٹر وے بند، ہائی وے بند، ٹوئٹر بند، فیس بک بند، یو ٹیوب بند بلکہ اطلاعات تک رسائی کے سارے دروازے ''اتفاقی جمہوریت‘‘ نے بند کر دیے ہیں۔ پاکستان اور لندن میں وہ کھلے پھرتے ہیں‘ جنہیں بند کرنے کے لیے احتساب کا پہیہ گھوما تھا۔ ایک سوال اور بھی ہے۔ حکومت ختمِ نبوتؐ قانون میں ترمیم کے مجرموںکے نام بتانے سے کیوں گھبرا رہی ہے۔ اس کا جواب تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ -C) 295 ( سے پڑھ لیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں