بے لوث مشوروں، بے لاگ تجزیوں اور بہادری کے سوداگروں نے بڑی کوشش کے بعد نااہل وزیراعظم کو شجاعت کے جس بانس پر چڑھایا تھا وہ ٹیڑھا ہو گیا ہے۔
''مجھے کیوں نکالا‘‘ سے شروع ہونے والی عظیم نظریاتی تحریک، سرکاری گاڑیوں پر سے نیچے اُتری اور سعودی بادشاہوں کے جہازوں پر سجدہ ریز ہو گئی۔
تین ججوں یا پانچ آدمیوں کا فیصلہ نہ مان کر عوامی عدالت تک جانے کا نعرۂ بے چارہ بن کھلے مُرجھا گیا۔ ساتھ ہی لانگری بٹالین کے ارمان بھی دل میں ہی رہ گئے۔ جنہوں نے پہلے سرٹیفائیڈ نااہل وزیراعظم کو دورِ جدید کا قائداعظم بنایا۔ پھر اُسے شہید بھٹو جیسا آئی کون پینٹ کرنے کی کوشش کی اور آخر میں چیئرمین مائوزے تنگ یا پھر کم از کم چی گویرا کا دیسی ماڈل کہہ کر اپنے آپ کو سرٹیفائیڈ ٹھٹھہ بنا دیا۔ کہتے ہیں پنجاب کے شاہکار ولن کا کردار ادا کرنے والے مظہر شاہ پستہ قد تھے۔ لیکن بَلا کی آواز، کڑاکے دار بڑھک اور ڈائیلاگ ڈلیوری کے ماسٹر مانے جاتے۔ موصوف کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسرز نے اُن کے لیے اونچے شملے والی پَگ دریافت کی۔ اور یوں اُن کی قد و قامت فلمی دنیا کی قیامت بن گئی۔ پنجابی فلموں کے عروج میں اُن کا ایک ڈائیلاگ عوامی اصطلاح بن کر گلی گلی پہنچا جو یہ تھا ''میں اَڈّی مار کے دھرتی ہلا دیاں گا‘‘۔
سرٹیفائیڈ نااہل وزیرِاعظم کے ''چِٹ رائٹر‘‘ اُن سے مظہر شاہ والے ڈائیلاگ بلواتے رہے۔ لیکن نہ فلمی ڈائیلاگ دھرتی ہلا سکے اور نہ نااہلی ڈائیلاگ۔ اسی وجہ سے کوٹ مومن کے پیر صاحب کے مریدوں سے خطاب کا عظیم جلسہ منسوخ ہوا۔ اور پورا ٹبّر پھرجدّہ سُدھار گیا۔ اِس کا سیدھا مطلب ایک ہی ہے کہ عوامی عدالت سے جوڈیشل فیصلے کے خلاف تحریکِ عدل کی اجازت نہ مل سکی۔ اسی لیے حسبِ سابق ہمارے ''شیر‘‘ بِلّی کی طرح جان بچانے کا فارمولا ڈھونڈنے سعودیہ جانے پر مجبور ہو گئے۔ جس طرح اُردو لُغت میں مطلب نکالنے کے کئی معنی ہیں۔ عین اُسی طرح اسلام آباد کی لنگر گَپ شیروں کی تازہ جَدہ یاترا کے کئی معنی نکال رہی ہے۔
ایک یہ کہ چند ہفتے پہلے گارڈ فادر نمبر ون اور نمبر ٹُو کے خلاف سعودی عرب میں منی لانڈرنگ کے دھندے میں ملوث ہونے کی خبریں سامنے آئیں۔ کچھ معتبر لوگ جن میں مسلم لیگ نون کے سینئر رہنما سابق پارلیمنٹیرین ظفر علی شاہ ایڈووکیٹ سمیت کئی اور نام بھی شامل ہیں، اِن سب کا کہنا ہے کہ شریف برادران کو زیرِ حراست معروف سعودی شہزادے کے انکشاف کے نتیجے میں فوری طور پر طلب کیا گیا ہے۔ کچھ دوسرے حلقوں کا کہنا ہے کہ بعض عرب شہزادوں نے پاکستان میں کثیر سرمایہ انویسٹ کر رکھا ہے۔ اس سرمایہ کاری میں ایک وفاقی وزیر کے زیرِ ملکیت‘ میلوں تک پھیلا ہوا، رہائشی منصوبہ بھی شامل بتایا جا رہا ہے۔ ایک اور ذریعہ کا کہنا ہے کہ امریکہ کے اعلیٰ حلقے کی مداخلت سے ایک اہم فیصلہ جدّہ کی سڑک تک جا پہنچا ہے۔ لیکن سچ کیا ہے؟ کچھ دن بعد یہ راز کھل کر رہے گا۔ جدّہ کے شاہی محلات سے معافی کی ڈیل لینے والوں نے نہ پہلے سچ کسی کو بتایا تھا اور نہ اب وہ منہ کا ذائقہ تبدیل کریں گے۔
درباری یاترا کا معاملہ مگر اتنا بھی گمبھیر نہیں۔ کیوں کہ آپ اسے دو اشاروں میں بہت آسانی سے بُوجھ سکتے ہیں۔ پہلا اشارہ دنیا اخبار میں ہفتے کے دن چھپا۔ اس خبر میں انکشاف کیا گیا پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر ''نواف سعید احمد المالکی‘‘ نے وضاحت کی ہے کہ شریف برادران کے دورۂ سعودی عرب کا پاکستان کے سیاسی معاملات سے سرے سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمارے سامنے اس خبر کو نہ ماننے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔ لہٰذا کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ شاہراہِ دستور کے بعد جدّہ کی سڑک پر ہونے والا فیصلہ بھی احتساب کا ہی ہو گا۔ دوسرا اشارہ ٹرین والا ہے آپ جانتے ہی ہیں۔ الزامات کی ٹرین والا۔ اس تھکی ہاری ریل گاڑی کا کُنڈا کھینچنے کے لئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا تازہ بیان سامنے آ گیا۔ اب آئیے اس خبر کی طرف جسے سرٹیفائیڈ نااہل وزیراعظم کا میڈیا سیل کئی دنوں سے ڈینگی مچھر کی طرح پھیلا رہا ہے۔ جس کا واحد مطلب بھاگتے ہوئے قافلے کو امید کی رسی سے باندھ کر بھاگنے سے روکنا ہے۔ جناب لاہوری بادشاہ سلامت کا جادو پھر سے چل گیا۔ اس واردات کا بیانیہ یہ ہے کہ جاتی امراء کو پھر سے معافی مل گئی۔ منی لانڈرنگ لانڈری سے صاف ہو گئی اورڈیل فائنل ہوگئی۔
اسلام آباد میں مقیم ایک عرب صحافی کا خیال لیکن سب سے الگ ہے۔ میں نے جب انہیں کہا کہ آپ کا خیال سب سے الگ ہے۔ تو وہ تھوڑے ناراض ہوئے کہنے لگے: یا اخی بابر... یہ میرا خیال نہیں میری اطلاع ہے۔ عرب صحافی کی اطلاعاتی خیال آرائی کے مطابق پاکستان میں قبل از وقت الیکشن کا بِگل بجنے کے قریب ہے۔ اس لئے شریف برادران کو طلب کرکے پچھلی ڈیلیں، امداد اور احسانات یاد کروائے جا رہے ہیں اور ساتھ شاہی مطالبہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج 42 ملکی الائنس میں اپنے سولجر بھجوائے۔ عرب صحافی کے خیال میں قومی سلامتی کی مشاورت والے جرنیل نے اسی معاملے پر سرٹیفائیڈ نااہل وزیراعظم سے لمبی ملاقات کی۔ آپ خوداندازہ لگائیں کہ وہ وزیراعظم جو کابینہ کے اجلاس میں مسلسل 10 منٹ بولنا اپنی توہین سمجھتا ہو۔ وہ ایک جرنیل اور وہ بھی ریٹائرڈ کے سامنے 6گھنٹے کیوں بیٹھے گا؟ میں نہیں جانتا کہ اس پُرمغز میٹنگ میں کون کتنی دیر بولا یا کس نے کس کے مغز شریف کا مسالا بنا کر چھوڑا۔
لیکن تازہ ترین اطلاعات مغرب کے صحافتی حلقوں سے مل رہی ہے۔ مغربی دنیا میں نہ کوئی صحافی نہ کوئی اخبار بے بنیاد خبر چھاپنے کی جرأت کر سکتا ہے۔ اس لئے بھی اور اس حقیقت کے پیش نظر بھی کہ شریف برادران نے ڈیل کی خبروں کی تردید نہیں کی۔ جس کی وجہ دیوار پر لکھی ہے اور وہ یہ کہ ڈیل کی بھیک مانگنے‘ بھاگ کر جدّہ جانے والے اِس بھیک کے خلاف بیان کیسے جاری کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے زمینی حقائق مگر دوسرے ہیں۔ ملک میں نہ کوئی مشرف ہے نہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، نہ کوئی سیلف سٹائل چیف ایگزیکٹیو۔ نہ ہی پانچ عہدوں کی ٹوپی پہننے والا حکمران۔ نہ تو آئین معطل ہے اور نہ ہی لیگل فریم ورک آرڈر (LFO) سے سہمے ہوئے جج صاحبان۔ ملک میں اصلی اپوزیشن اور ساڑھے چار سال بعد فرینڈلی اپوزیشن بھی شہباز شریف سے استعفیٰ مانگ رہی ہے۔ دونوں بھائی 19 سیاسی جماعتوں کی نظر میں ماڈل ٹائون قتلِ عام کے بڑے ملزم ٹھہرائے گئے ہیں۔ وہ زمانہ گیا جب اٹک جیل کا دروازہ‘ عدالت نے نہیں آمریت نے کھلوایا تھا۔ سرکاری میڈیا کی بلا شرکت غیرے سربراہ نے فرمایا کہ اس کے والد اور چچا قومی مفاد میں جدّہ گئے ہیں۔ واہ کیا قوم ہے؟ جس کا مفاد عرب بادشاہوں اور شہزادوں کے قدموں میں رکھا ہے۔ ماڈل ٹائون کے تیسرے بڑے ملزم نے کہا کہ شریف برادران امّتِ مسلمہ کے مسائل حل کرنے کے لئے جدّہ پہنچے ہیں۔ اسی ہفتے شہر بھر میں مشین گنوں سے فائرنگ کرکے بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے والے وزیر دفاع کو اپنے حلقے میں‘ اپنے جلسے سے بغیر تقریر کئے فرار ہونا پڑا۔
2017ء ستمگر نکلا۔ایک نااہل، تین مفروراور باقی پاکستانی قوم کے مفاد میں جدّہ کی سڑکوں پر فیصلہ لینے جا پہنچے۔ عزت، عزت ہوتی ہے گوجرانوالہ کے جلسے میں ہو یا جدّہ کی سڑک پر۔