فرد کا معاملہ قوم سے علیحدہ ہوتا ہے۔ فرد 70سال میں بزرگ شہری بن جاتا ہے۔ قوم 70سال میں شباب کی انگڑائی لیتی ہے۔ فرد کا کرئہ ارضی پر قیام محدود ہے قوم تاحشر زندہ رہ سکتی ہے۔ فرد اپنی ترقی کے لئے جدوجہد کرتا ہے۔ جائز ذرائع سے ترقی کرے تو توقیر پاتاہے۔ ناجائز ذرائع سے نودولتیا بنے تو ایک نہ ایک دن اس کے ذرائع کا ''راز‘‘ کھل کے رہتا ہے۔ دنیا کی ہر قوم میں ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں‘ لیکن لوگوں کے اجتماعی شعور کا اظہار سوسائٹی یا سماج کے رویے طے کرتے ہیں۔ یکم جنوری 2018ء کو طلوع ہونے والا سورج پاکستانی سوسائٹی کے لئے مواقع اور امتحان‘ دونوںلے کر آیا ہے۔
اگلے روز مجھے کیپیٹل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد کے آڈیٹوریم میں 'شہری اور ان کے قانونی حقوق‘ کے موضوع پر لیکچر کے لئے دعوت دی گئی۔ میزبان (C.U.S.T) کی ہونہار طالبہ عنزہ ملک تھیں۔ 4000 سے زائد طلبہ و طالبات کی اس مادرِ علمی کے وائس چانسلرڈاکٹر عثمان میرے گرائیں نکلے۔ فیڈرل کیپیٹل ایریا اور تحصیل کہوٹہ کو جدا کرنے والی کشمیر روڈ کے دونوں طرف ہوتھلہ واقع ہے‘ جس کی پہلی بستی آڑی سیّداں سے ڈاکٹر عثمان کا تعلق ہے۔ کیپیٹل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی فیکلٹی کے فاضل ممبران اور طلبہ و طالبات نے پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے سوال پوچھے۔ ظاہر ہے افراد کا مستقبل ریاست کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ پروفیسر راجپوت نے سب سے دلچسپ سوال کیا۔ کہا: مجھ سے سٹوڈنٹس اکثر ایک ہی سوال کا جواب جاننا چاہتے ہیں‘ اور وہ یہ کہ مثبت باتیں تھوڑی دیر کے لئے ذہن میں گھر کرتی ہیں‘ لیکن منفی چیزیں دماغ کا پیچھا نہیں چھوڑتیں‘اپنے آپ کو ہر وقت مثبت کیسے رکھیں؟ عرض کیا: اپنے پیشے اور مقصدِ حیات پر فوکس رکھنے کی عادت ڈال لیں۔ ایسا فوکس جسے انگریزی میں ''ٹنل فوکس‘‘ کہتے ہیں‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی نظر منزل مراد پرجمی رہے۔ ارد گرد کے مناظر اور دلچسپیاں یا رنگینی آپ کی نظر میں آ جائے تو بھی دل میں نہ سما پائے۔
اسی موضوع پر پھر اور سوال بھی ہوئے۔ مختصراً عرض کیا: ہم انسان کسی عادت یا سہولت کے غلام نہیں ہو سکتے۔ ہمیں خالق نے کسی بھی مخلوق سے زیادہ شرف دے کر پیدا کیا ہے‘ اور خود ہی اشرف المخلوقات کا درجہ عطا فرما دیا۔
آج کے پاکستانی سماج کی سب سے بڑی ذمہ داری ہم وطنوں کو امید دلانا ہے۔ صرف پانچ عدد کام ہم سارے بہت آسانی سے کر سکتے ہیں۔ اگر آنے والے 360 دن ہم اپنی اپنی زندگی میں یہ چھوٹے چھوٹے 5 کام کرنے کی روٹین بنا لیں تو یقین جانئے سال 2018ء میں وقت کا دھارا تبدیل ہو جائے گا۔ پہلا کام دوسرے ہم وطنوں کو سپیس دینا ہے۔ اگر آپ کے گھر میں ملازم یا ملازمہ ہے‘ تو اسے آج سے 'پانی لے کر آئو‘ کہنا چھوڑ دیں۔ اپنے برتن کھانا کھانے کے بعد کچن میں خود رکھیں۔ اپنی جرابیں اور کپڑے تلاش کرنے کے لئے بیگم کو آواز مت دیں۔ سڑک کراس کرتے وقت رُک کر دونوں جانب دیکھ لیں۔ کار، موٹر سائیکل یا سائیکل چلاتے وقت جلدی کرنے والوں کو آگے نکل جانے دیں۔ ان کے ساتھ ریس نہ لگائیں۔ سڑک پر پیدل چلنے والوں کو سڑک استعمال کرنے کا پہلا حق دیں۔ سرکاری دفتر یا بینک کے باہر لائن میں کھڑے ہوں۔ اگر ہم سارے شہری اس ملک کے شہروں، سڑکوں، سہولتوں اور زندگی میں دوسروں کا حصّہ تسلیم کر لیں تو خود سوچیں ہم سب کی زندگی کتنی آسان ہو جائے۔ آئیے پہلا کام ابھی سے شروع کرتے ہیں۔ دُوسرے یہ کہ غصّے پر کنٹرول کریں۔ غصّہ انسانی فطرت کا حصّہ ہے۔ اسے ختم تو نہیںکیا جا سکتا لیکن اس پر قابو پانا یقینا ممکن ہے۔ ہر بات پر بحث ضروری نہیں ہوتی۔ ہر کسی کو اپنی آوا ز بہت اچھی لگتی ہے‘ اس لیے وہ بولنا پسند کرتا ہے۔ کسی مجلس میں جو بول رہا ہو اسے مت ٹوکیں۔ بولنے والے کی طرف توجہ سے دیکھیں۔ اسے کم از کم یہ تاثر ضرور دیں کہ آپ اس کا مؤقف غور سے سن رہے ہیں۔ پھر اپنی بات کا آغاز کرنے سے پہلے کہیں‘ آپ درست کہتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں اس معاملے کے اور بھی پہلو ہیں۔ اور اس کے بعد اپنے دلائل دیں۔ سرکاری ملازموں سے جھگڑا کرنے اور ہر کسی سے یہ کہنا کہ آپ تو ملتے ہی نہیں، فون ہی نہیں اُٹھاتے، یعنی شکایت کرنے کی عادت چھوڑ دیں۔ تیسرے، اپنے آپ سے محبت شروع کریں۔ جوگر خریدیں، نزدیک ترین گرائونڈ میں پہنچیں اور 24 گھنٹوں میں سے ایک گھنٹہ ہر دن اپنے آپ کو دے دیں۔ یہ درست ہے کہ موت کو نہیں ٹالا جا سکتا‘ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اعصابی کمزوری، دل کی بیماریوں، ذہنی تنائو، شوگر، کولیسٹرول، موٹاپے، کمزوری، سستی کو 35 منٹ کی روزانہ واک سے ٹالا جا سکتا ہے۔ زندگی خریدی نہیں جا سکتی لیکن اس کی کوالٹی بہترین بنانے کا نسخہ آپ کے پائوں میں ہے۔ پائوں استعمال کریں۔ اپنے شہر کے سارے پارک باری باری گھوم کر واک کریں۔ چوتھے، روزانہ ایک روپیہ یا 10 روپے یا جتنی کی بھی توفیق ہو اپنے بجٹ سے علیحدہ کر لیں اور ان سے کسی نہ کسی کو کھانا ضرور کھلائیں۔ پرندوں کی آوازیں سنیں۔ صبح کا سورج طلوع ہوتے اور رات کے ستارے روشن ہونے کا منظر دیکھیں۔ آپ کو یقین آ جائے گا کہ قدرت نے ہر چیز میں علیحدہ انرجی رکھ چھوڑی ہے۔ اپنے ہم وطنوں تک اپنے رزق میں سے روزانہ تھوڑا سا حصہ پہنچائیں‘ خواہ وہ ایک روٹی ہی کیوں نہ ہو۔ پاکستان کے 20 کروڑ لوگ ایک روٹی روزانہ ہم وطنوں تک پہنچانا شروع کر دیں تو دنیا کا سب سے بڑا لنگر خانہ آج ہی سے پاکستان میں جاری ہو جائے گا۔ چلئے آج اس کام کی بسم اللہ کرتے ہیں۔
آئیے آج ہی سے اس بڑے مسئلے کے حل میں ہم اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیں۔ پانچویں بات یہ کہ گھر، ہسپتال، سڑک، سکول، راستے، پارک اور گلی میں پڑے ہوئے گاربیج کو اٹھا کر کوڑا دان تک پہنچا دیں۔ گندگی کا بڑے سے بڑا ڈھیر ایک ایک آدمی کے تھوڑا تھوڑا گند پھینکنے سے بنتا ہے۔ ایک آدمی تھوڑا تھوڑا گند صاف کر دے تو گندگی ختم ہو جائے گی۔ سال میں دو مرتبہ پودے لگانے کا موسم آتا ہے۔ 20 کروڑ لوگ سالانہ صرف 2 پودے لگا دیں تو بھی سال 2018ء میں 40 کروڑ پودے تیار ہو جائیں گے۔ پلاسٹک کے لفافے، ڈبے، پانی کی خالی بوتلیں زرعی زمین، نالی، آبی راستے میں نہ گرنے دیں۔
چھوٹی چھوٹی عادتیں بڑا آدمی بناتی ہیں‘ اور چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرنے سے فلاحی معاشرہ بنتا ہے۔ کیپیٹل یونیورسٹی میں طلبہ و طالبات کے سوالوں نے نیا دریچہ بھی کھولا۔ سوال تھے۔ اچھا کیا ہے اور بُرا کیا؟ بات سیدھی تھی سو وہی کہہ دی۔ جو حرکت، کام یا عادت آپ دوسروں سے چھپانا چاہتے ہیں اُسے چھوڑ دیں وہ بُری ہے۔ باقی سب کچھ اچھا۔ مسلم ملکوں میں سب سے زیادہ آزادی پاکستان میں ہے۔ بولنے، پیشہ اختیار کرنے اور اظہار کی آزادی۔ مسلم دنیا کا پہلا نیوکلیئر میزائل کا حامل ملک۔ مسندِ اقتدار پر اچھے اور بُرے آپ کی پرچی کے ذریعے پہنچتے ہیں۔ 2018ء کا سال پرچی کی طاقت کے استعمال کا سال ہے۔ مجھے یہ انگریزی محاورہ کہنا بہت اچھا لگتا ہے: USE IT, BEFORE,YOU LOSE IT
نئے دنوں کی مسافتوں کو اُجالنا ہے
وفا سے آسودہ راحتوں کو سنبھالنا ہے
اُمیدِ صبحِ جمال رکھنا، خیال رکھنا
سالِ نو کے لیے عربی کی دعا ہے:
کُلُ عَامَ وأنتم بِخَیْر۔۔۔