قوم کو ردی کی ٹوکری یاد دلا دی گئی ہے۔ ردی کی تازہ ٹوکری کا حوالہ پانامہ سے مجھے کیوں نکالا کو بنایا گیا۔ آئیے پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں۔ جدید تاریخ میں ردی کی بڑی بڑی ٹوکریاں کہاں سے برآمد ہوئیں۔ عملی طور پر 1969ء سے 1971ء تک پاکستان سرزمینِ بے آئین بنتا چلا گیا۔ آئین ساز اسمبلی کو قوم کا عمرانی معاہدہ تیار کرنے میں دو سے اڑھائی سال لگ گئے۔ یوں 1973ء کا آئین نافذ ہوا۔ دستور بیچارے کی عمر 3 سال سے کچھ ہی اُوپر ہوئی تھی کہ اسے 4 جولائی 1977ء کے روز جنرل ضیاء نے اُٹھا کر ردّی کی ٹوکری میں دے مارا۔ وہ پہلے مردِ مومن بنے، پھر مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور آخر میں مردِ حق۔ اسی دوران قوم کی تقدیر کے فیصلے جنرل کی ردی کی ٹوکری سے برآمد ہوتے رہے۔ ان میں سے ایک فیصلہ غریب عوام کے ٹھنڈے چولہے، کوہ مری کی برف جیسا یخ کرنے کے لئے ایل این جی لانے والا ہے۔ 1985ء کا سال تھا‘ جب جنرل ضیاء نے ردی کی ٹوکری میں سے اُردَن میں نوکری کے زمانے کی ایک تصویر نکالی۔ اسے صادق کے پانی میں کھنگالا اور امین کے تولیے سے صاف کرکے وفاقی وزیر پیدا گیر بنا دیا۔
ردی کی ٹوکری پیدا گیری کی گھریلو زنبیل ثابت ہوئی۔ پہلا ہاتھ پی آئی اے پر مارا‘ دوسرا جنرل مشرف پر اور یوں نیلگوں آسماں میں جہازی بیڑا اُڑنے لگا۔ ساتھ ایک زمینی جہاز بھی ہے‘ جس کے دستخطوں سے ہزاروں سرکاری محکموں میں اربوں کے گھپلے ہوئے۔ خشکی پر ایل این جی کے سہارے اُڑنے والا جہاز تھڑا پتی سے کروڑ پتی ہوگیا۔ ردّی کی ٹوکری سے سرکاری ردی یاد آ گئی‘ جو ہزاروں لاکھوں ٹنوں کے حساب سے سرکاری محکمے سالانہ چھپواتے ہیں۔ پھر اسے ردی کی سالانہ بھل صفائی کے دوران کوڑیوں کے بھائو اپنے اپنے ٹھیکے داروں کو بیچ دیتے ہیں۔ پھر ردی کے نئے ٹھیکے ہوتے ہیں، اور مخصوص چھاپہ کھانوں کے دن پھر جاتے ہیں۔
ضیاء دور میں پاکستانی تاریخ کے دن بھی پھر گئے۔ فرقوں کے نام پر سیاسی دھڑا بندی ہوئی پھر مسلح لشکر پیدا ہوئے‘ جن کی سہولت کاری کے لئے حکومتی سرپرستی میں کلاشنکوف اور ہیروئن کے ڈھیر لگ گئے۔ اسی دوران سیاسی گندگی کے ڈھیر نے پورے ملک کو بدبو سے بھر دیا۔ ردی کی ٹوکری میں پڑے ہوئے گندے انڈے کام آنے لگے۔ آئینی حکومت توڑنے کے لئے یہی گندے انڈے کارآمد ثابت ہوئے۔ کچھ گھریلو شوریٰ کے لئے اور کچھ مجلس شوریٰ کے لئے۔ گھریلو طور پر سیاسی مخالفین کی گردن زدنی کے مشورے دینے والے مختلف اخباروں‘ رسالوں میں پانچ ہزار روپے کے ملازم تھے۔ اب وہ بقلم خود ارب پتی اور ان کی ہیچری کے نئے انڈے کروڑ پتی ہیں۔ اس دور کے ماورائے آئین حکمران کے پسندیدہ منصفوں نے جرم کے مشورے میں شرکت کو سزائے موت کے قابل ٹھہرایا۔ مگر ردی کی ٹوکری کے سر میں جوں تک نہ رینگی۔ اسی دور میں جاگیرداری کو قانونی تحفظ دیا گیا۔ لینڈ ریفارمز اور اللہ کی زمین پر اللہ کے بندوںکاحقِ زراعت ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ یوں ''جہیڑا واہوے اوھوای کھاوے‘‘ کا آفاقی اصول روند ڈالا گیا۔ کھیت سے مزارع، مل سے مزدور اور محنت سے محنت کش کے حقوق تقدیس کے پردے میں پامال کر دیئے گئے۔
ساحر لدھیانوی کے آنسو اور آہیں آمریت کے بدن میں چھپے ہوئے پتھر کے دل اور لوہے کے جگر پر بے اثر ثابت ہوئیں۔
ملیں اسی لئے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں
کہ دختران وطن تار تار کو ترسیں
چمن کو اس لئے مالی نے خون سے سینچا تھا
کہ اس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
اس دور میں محنت کی وزارت اور لیبر پالیسی ردی کی ٹوکری میں گئی۔ تنخواہ کو روٹی کھانے کے قابل کرنے والے ویج بورڈ ایوارڈ ملازم کی بجائے مالک کے حق میں جانے لگے۔ اس دور کے گملوں میں سیاسی اداکاروں کی جو پنیری تیار ہوئی اس کی فصل آج قطر سے پانامہ تک میگا کرپشن، اقرباء پروری، کِک بیک کے ذریعے پرچمِ ستارہ و ہلال کو سر بلند کرنے کا باعث بن رہی ہے۔
گھر کا حال آپ کے سامنے ہے۔ برسر اقتدار ٹولے کے نااہل سربراہ نے بزرگ پاکستانیوں کی بے رحم قاتل حسینہ واجد کے وحشی ابا شیخ مجیب الرحمٰن کی تصویر ردی کی ٹوکری سے نکالی‘ اسے مودی کی اماں والی ساڑھی سے صاف کیا‘ پھر اسے بنگلہ بندھو کے پانیوں میں اشنان کروایا اور قوم کو بریکنگ نیوز سنائی: مجیب الرحمٰن محب وطن تھا۔ اس سیاسی دکان دار کو معلوم ہے کہ بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کے ساتھ مجیب کی بیٹی کیا کر رہی ہے؟ جنگی جرائم یک طرفہ اور ''پاکٹ ٹائپ‘‘ ٹریبونل نے پاکستان سے محبت کو قومی گناہ قرار دے کر پھانسیوں کا بازار سجا دیا۔ کیا نااہل شریف نے اگرتلہ سازش کیس کی فائل پڑھ رکھی ہے۔ پاکستان کے اداروں کی دشمنی میں نااہل شریف نے وہ کیا جو کوئی پاکستانی سوچ بھی نہیں سکتا۔ نااہلی والی ردی کی ٹوکری میں پڑا ہوا شخص کون سی ریاست کو علیحدہ کروانا چاہتا ہے۔ جاتی امرا، پارک لین لندن والی حلال کمائی کی ریاست۔ ذرا آگے چلئے‘ قصور میں بچوں کی قتل گاہ بچھی ہے۔ 2015ء میں درجن بھر بچیاں درندوں نے مسل کر خاک و خون میں ملا دیں۔ 2016ء میں سینکڑوں معصوم بچے بھی اس فہرست میں شامل ہوئے۔ سو سے زیادہ بچے بے آبرو کرکے قتل کر دیئے گئے۔ پنجاب کے حکمران‘ جو خود کئی قتل کی ایف آئی آروں کے نامزد ملزم ہیں، وہ بیان دیتے ہیں‘ جو ملزموں، قاتلوں اور عصمت دری کرنے والوں کے حق میں جائیں۔ وزیر لاء قانون نے زینب کی ردا تار تار ہونے کا غصہ میڈیا اور والدین پر اتارا۔ ماڈل ٹائون قتل عام سے داد پانے والی پنجاب کی سیاسی پولیس نے قصور میں خالی ہاتھ شہریوں کو سیدھی گولیاں ماریں۔ 10 شہری اس سرکاری دہشت گردی سے زمین بوس ہوئے۔ ان میں 7 زخموں سے چور ہیں، 2 اللہ کو پیارے ہوئے۔ سانحہ قصور کے اگلے روز فیصل آباد میں 14 سالہ بچے کے ساتھ بھی بالکل زینب جیسی واردات ہوئی۔ عمرے سے واپسی پر زینب کے دل شکستہ باپ نے میڈیا سے کہا: جاتی امرا میں ایک شخص کی حفاظت پر تین ہزار پولیس والے کھڑے ہیں‘ میری بیٹی کو بچانے کے لئے 3 پولیس والے بھی باہر نہیں نکلے، اس لئے کہ ہم کیڑے مکوڑے ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کی پولیس کو ماورائے عدالت قتل کی شہ اور شاباش ملتی ہے۔ اس لئے یہ نہتے شہریوں کو سیدھی گولیاں مارتے ہیں۔ ایسے قاتلوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جن کے کہنے پر گولی چلا رہے ہیں، وہ انسانی قتل کو کارپٹ کے نیچے دبانا خوب جانتے ہیں۔ اس موقع پر بھی ردی کی ''نوٹس‘‘ لینے والی ٹوکریاں پھر کھل گئیں۔ 302 کے ایک ملزم نے فوری طور پر قصور کے دو قتلوں کا نوٹس لیا۔ دوسری ردی کی ٹوکری کھلی جس میں جے آئی ٹی کی درجنوں رپورٹس ڈمپ ہو کر پڑی ہیں۔ تیسری ٹوکری تصویروں والی ہے، جس میں قتل کرنے والوںکا چیف ایگزیکٹو مقتولوں کے ساتھ منہ لٹکا کر فوٹو سیشن کرانے کا عالمی ریکارڈ بنا رہا ہے۔
ردی کی ایک اور ٹوکری بھی کھلی پڑی ہے۔ اسے تاریخ کا کوڑے دان کہتے ہیں۔ شدّاد، نمرود، فرعون، میسولینی، اگسٹو، پنوشے اور جنرل ڈائر بڑے طاقتور حکمران تھے۔ لوگ ان کا نام سن کر تھر تھرکانپتے۔ آج لوگ ان کا انجام سن کر تھرا جاتے ہیں۔ کیا یہ بتانے کی ضرورت باقی ہے کہ تاریخ کے کوڑے دان میں کون کون سے نام جائیں گے۔ غدّارِ وطن مجیب اسی کوڑے دان میں سڑ رہا ہے۔
حیف اب وقت کے غدّار بھی رستم ٹھہرے
اور زندان کے سزاوار فقط ہم ٹھہرے