کمال اسم بھی ہے اور صفت بھی۔ کمال کی بے شمار قسمیں ہیں۔ اسی لیے کمال کئی محاوروں میں استعمال ہوا۔ اوجِ کمال تک پہنچنا۔ جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں۔ کمال ہوشیاری۔ یہیں رک کر آئیے کمال کی کچھ وارداتیں دیکھیں۔
پہلے ذرا ماضی کا تذکرہ ہو جائے۔ ایک دانشور وزیرِ اطلاعات بنے‘ سرکاری نشریات پر مبنی وزرات کے وفاقی وزیر۔ موصوف کمال کے آدمی ہیں اور کمالات سے بھرے ہوئے بھی۔ وفاقی وزیر کی حیثیت سے قوم کے خزانے کا حلف اٹھاتے ہی کمالِ فن کے اس عظیم شاہکار کو زلف تراشی کی ضرورت پڑ گئی۔ صاحبِ کمال نے ایک جوائنٹ سیکرٹری کو بلایا اور کہا: تم مجھے شہر کے کسی اچھے حجام کی دکان پر لے چلو‘ بال کٹوانے ہیں۔ جوائنٹ سیکرٹری بھی کمالات میں اکمل تھا۔ وہ اطلاعات و نشریات کی وزارت کے شہزادۂ معظم کو ایف سیکٹر کے ایک سب سے مہنگے ہیئر سیلون میں لے گیا۔ حجامت بنوانے کے بعد اس وقت جوائنٹ سیکرٹری کو وفاقی وزیر نے شکست دے دی‘ جب اس نے کہا کہ میری حجامت کا بِل سرکاری خزانے سے ادا کر دو۔ جوائنٹ سیکرٹری کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ جس دن نااہل شریف کی ڈبل نااہلی کے لیے مجھے سرکاری لا آفیسر کی جانب سے اٹھائے گئے نکات کے جواب دینے کے لئے بینچ نمبر ایک کے روسٹرم پر بلایا گیا اس روز ایک کمال کا کیس سنا گیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن میں تعیناتی اور سرکاری خرچ سے بے رحمانہ اخراجات والا مشہور کیس۔ بینچ نمبر1 میں چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب نے ایک فائل اٹھا کر کھولی‘ اور کہنے لگے: یہ 27 کروڑ والے نے کمال کے اخراجات کر رکھے ہیں۔ پھر چیف جسٹس صاحب نے پڑھا کہ موصوف نے توا، سلیپر اور ایک عدد بالٹی بھی سرکاری خرچ سے منگوا رکھے ہیں۔ قومی وسائل کے اس لنڈا بازار کی لوٹ سیل میں جن لانگریوں نے اپنی کئی نسلوں کے پیٹ بھرے وہ آہ و زاری اور واویلا کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں: جمہوریت خطرے میں ہے۔ اسی لیے وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کے فلور پر کہا: سپریم کورٹ کی سووموٹو کارروائیوں سے ملک کو خطرہ درپیش ہے۔ معاشی جرائم کے بادشاہوں کی ملک کو خطرے میں ڈال دینے والی واردات کوئی نئی نہیں۔ کئی عشرے پہلے سے حبیب جالب نے اقتداری بدمعاشیہ کا نقاب ان لفظوں میں الٹ رکھا ہے:
وطن کو کچھ نہیں خطرہ، نظامِ زر ہے خطرے میں
حقیقت میں جو رہزن ہے، وہی رہبر ہے خطرے میں
جو بیٹھا ہے صفِ ماتم بچھائے، مرگِ ظلمت کا
وہ نوحہ گر ہے خطرے میں، وہ دانشور ہے خطرے میں
اگر تشویش لاحق ہے تو سلطانوں کو لاحق ہے
نہ تیرا گھر ہے خطرے میں، نا میرا گھر ہے خطرے میں
صدیوں پرانے فنِ ریاست گری میں نااہل ہونے کے لیے کسی کاغذی نااہلیت سے زیادہ عملی نااہلی خطرناک ثابت ہوتی آئی ہے۔ چند دن پہلے پاکستان کے امیر ترین اداروں میں سے ایک کا مقدمہ عدالتِ عظمیٰ میں چل رہا تھا۔ متروکہ وقف املاک کا ادارہ۔ اسے اتفاق کہہ لیجئے‘ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کا ہی بینچ تھا۔ عدالتِ عظمیٰ میں انکشاف ہوا کہ اخبار اکٹھے کرنے والا اس ادارے کا بلا مقابلہ سربراہ بھرتی ہو گیا ہے‘ جس کی قانونی تعیناتی کا قانونی وقت گزر چکا ہے لیکن بغیر کسی قانونی جواز کے وہ پھر بھی مقبوضہ عہدے پر براجمان ہے۔ یہ تقرریاں نااہلی کے عالمی ریکارڈ بنانے والے نے بقلم خود کی ہیں۔ نہ اشتہار چھپوایا گیا، نہ مقابلہ، نہ میرٹ، نہ قابلیت۔ جو جتنا بڑا طبلچی ہے‘ اس کے لیے اتنا ہی بڑا لانگری عہدہ حاضر ہے۔ ہم سب کو اچھی طرح یاد ہے‘ 2013ء کی انتخابی مہم میں نااہل شریف اچھی حکمرانی کا ایک ہی گُر کلیم کرتے آئے اور وہ یہ کہ میرے پاس ''تجربہ‘‘ کار ٹیم ہے۔ تجربوں کی یہ داستان کبھی ملتان میٹرو، کبھی 65 کمپنیوں‘ کبھی آشیانہ ہائوسنگ، کبھی ایل ڈی اے کی شکل میں عوام کو گڈ گورننس کا سرپرائز دے رہی ہے۔ اگلے دن اخباروں نے لکھا: جاتی امرا کی گھریلو ماسی المعروف لاہوری گروپ آف سول سروس کے ارکان نے احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔ ساتھ وجہ یہ درج تھی کہ احتساب کا قومی ادارہ مشتبہ پبلک سرونٹس سے اربوں، کھربوں کی کرپشن کا ریکارڈ کیوں مانگ رہا ہے۔ کیوں کا جنتر منتر بھی کمال کا ہے۔ یہ 'مجھے کیوں نکالا‘ سے شروع ہوا اور اب مجھے کیوں کھنگالا سے ہوتا ہوا پھر سے کیوں نکالا تک پہنچ چکا ہے۔ نااہل سابق وزیر اعظم نے دارالحکومت کی احتساب عدالت کے باہر کمال کی بات کی۔ فرمایا: مجھ سے سارے عہدے واپس لے چکے ہو‘ اب میرا نام باقی رہ گیا ہے‘ وہ بھی مجھ سے لے لو۔ تفتیش کار خوب جانتے ہیں کہ نااہل شریف کے نام میں کچھ نہیں رکھا۔ 300 ارب روپے کا مالِ مسروقہ سات سمندر پار چھپایا گیا ہے۔ اس کمال کے حکمران کو خوب پتہ ہے کہ وہ لوٹ کا مال کس کس ملک تک پہنچایا گیا‘ چوری اور اس کے بعد منی لانڈرنگ کے ذریعے۔ اس کمال گر کے لیے آسان نسخہ یہ ہے کہ چوری کے بعد سینہ زوری کا کمال نہ کیا جائے اور قوم کا لوٹا ہوا مال قوم کے خزانے کو واپس کر دیا جائے۔ ورنہ، توا اور سلیپر چور اُچکے، ڈاکو اور اُٹھائی گیرے مافیا کا پیچھا کریں گے۔ قانون کا پہیہ مفاد کے جنگی ترانے سن کر پٹڑی سے نہیں اترے گا۔ چوری شدہ اثاثوں کی آف شور کمپنیوں کا پانامہ، منی لانڈرنگ کی رقمیں ہڑپ کرنے والا اقامہ اور نااہلی کا قانون بدل کر پارلیمنٹ کے منہ پر توا ملنے والا ہنگامہ کیا قدرت کی گرفت کا کمال نہیں۔ کاش! کوئی عزت کی پروا کرنے والا پیٹ اور جیب سے سوچنا بند کرے۔ تب اسے دیوار پر لکھا سمجھ آ جائے گا۔ ملک کی آخری عدالت میں دو دن پہلے جس تاریخی مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا‘ اس کا پیراگراف نمبر9 پڑھنے کے قابل ہے:
As a result of the above declaration, all steps taken, orders passed, directions given and documents issued by respondent No.4 as party head after his disqualification on 28-07-2017 are also declared to have never been taken, passed, given or issued in the eyes of law. The election commission of pakistan is accordingly directed to remove the name of respondent No.4 (Mian Muhammad Nawaz Sharif) as president/party head of respondent No.3 (Pakistan Muslim legue(N) from all relevant record(s).
جو ضرورت کی عینک کے بجائے بصیرت کے نور سے دیکھیں‘ ان کے لیے کھلی نشانیاں ہیں۔ حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں۔ مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے؟ ڈبل نااہل کے مرشد مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا نام لانگری بٹالین نے پاکستان کے آئین میں لکھوا دیا تھا۔ با کمال مشورے دینے والے صاحبانِ کمالات اسے بتاتے رہے کہ اس طرح آپ ہمیشہ یعنی تاحیات صدر بن گئے۔ سب ٹھاٹ باٹ پڑا رہا اور بنجارہ لاد کر چلتا بنا۔ ملکوں کی تاریخ میں 70 سال کا ملک بچہ کہلائے گا۔ کوئی کتنا ہی کمال کی اداکاری کر لے‘ ملک چلانے والے ادارے جلال کی رعونت سے ڈرنے والے نہیں۔ ان کمالات کے لیے تقریباً 93 دن کا وقت بچا رہ گیا ہے۔ اس کے بعد کیا ہو گا‘ اس کا مظاہرہ مکمل ہوا۔ جو کہتے تھے کہ نااہل شریف کا بیانیہ اوجِ کمال کے جھنڈے گاڑ رہا ہے‘ وہ بتائیں موصوف کی ڈبل نااہلی پر کتنے کروڑ فِدائین ٹینکوں کے سامنے لیٹنے کے لیے سڑک پر نکلے؟ وہ توا، وہ سلیپر، وہ بالٹی، وہ بی اے پاس متروکہ املاک میں اپیل کی عدالت کا فل بینچ چلانے والے!!