"SBA" (space) message & send to 7575

بغاوت کی ایکٹنگ

خدمت، حریت، وطنیت، جذباتیت اور حکومت کے ایکٹنگ میں عالمی ریکارڈ بنانے کے بعد شریف جمہوریت بغاوت کی ایکٹنگ پر بھی آن ریکارڈ آ گئی۔ لیجئے نا اہل وزیر اعظم نے نون کی نا اہلی کا فیصلہ ملنے کے بعد بغاوت کا اعلان کر دیا۔
سرزمینِ پنجاب اور خطۂ کشمیر نے کئی باغی پیدا کئے۔ لیکن لوگ پریشان ہیں کہ بغاوت کی حالیہ سیاسی اداکاری کی مثال کہاں سے ڈھونڈیں۔ ایک باغی رائے عبداللہ خان بھٹی تھا‘ جس نے دو عشروں تک مغلِ اعظم کو مسلسل للکارا۔ مزاحمت منظم کی اور دور دیس سے‘ دیس پنجاب پر شمالی لشکریوں کی یلغار کے راستے روکے۔ پنجاب کا دوسرا باغی بھگت سنگھ ہے، جس نے بغاوت سے شادی کی اور سرزمینِ وطن کی حرمت پر 26 / 27سالہ جوانی نچھاورکردی۔ بھگت سنگھ اتنی چھوٹی سی عمر میں کتنا بڑا باغی تھا اس کا اندازہ لگانے کے لیے بھگت سنگھ کے نام سے خوف زدہ آل انڈیا کانگرس کے مرکزی لیڈروں کے بیان پڑھ لینا ہی کافی ہیں، موہن داس کرم چند گاندھی سمیت۔ 
سرزمینِ پنجاب کا تیسرا بڑا باغی راجپوت رائے احمد خان کھرل تھا۔ تینوں باغیوں نے مادرِ وطن کے سسکتے، تڑپتے لوگوں کے لیے اپنے دور کے حکمرانوں کو للکارا۔ پھانسی جن کا مقدر کر دی گئی۔ رائے عبداللہ خان بھٹی، بھگت سنگھ اور رائے احمد خان کھرل کی نشانیاں ساندل بار سے گوگیرا بنگلے تک بکھری پڑی ہیں۔ بے جگری سے لڑنے والے باغی اور منہ مانگی موت کے عوض دھرتی ماں پر جان نثار کرنے والے بہادر مائوں کے دلیر بیٹے۔
دُلاّ بھٹی، بھگت سنگھ اور رائے احمد خان کھرل کی عظمت اور ہمت کی داستانیں ''گلی گلی میری یاد بچھی ہے پیارے، رستہ دیکھ کے چل‘‘ کہہ کر بغاوت کے سیاسی اداکاروں کو آج بھی شرمندہ کر رہی ہیں۔ کاش کوئی ذرا سی شرم ہوتی یا رتّی برابر حیا۔ لیکن یہ ہماری خام خیالی ہو گی کہ ہم منی لانڈرنگ کی کُھرلی، کِک بیک اور بلیک منی کے طویلے میں شرم و حیا جیسی جنسِ نایاب ڈھونڈ لیں گے۔ 
دوسری جانب ذرا وی آئی پی بغاوت کا اعلان کرنے والوں کو دیکھیں۔ یہ شرم و حیا کے پُتلے جنرل جیلانی کی جوتیاں سیدھی کر کے سیاست میں آئے۔ جنرل ضیا کے دعا کی تاثیر سے حکومتی ایوانوں تک پہنچے۔ اور پھر جنرل مشرف کے لطفِ خاص سے اٹک قلعے سے وکٹری بنا کر نکلے اور جدہ کے سرور پیلس تک کا باعزت سفر طے کیا۔ صرف لیڈر ہی نہیں ان کے ساتھ ساتھ سارے گھر والے تمام بچے، بیگمات، باورچی اور دیگچے شاہی مہمان بن گئے۔ سچ تو یہ ہے ایسے باغی آج تک نہ چی گویرا نے دیکھے ہوں گے نہ نیلسن منڈیلا نے اور نہ ہی فیڈل کاسترو نے۔ یہ باغی جن محلات میں سوتے ہیں ان کا سارا خرچ پنجاب کی سرکار برداشت کرتی ہے۔ پنجاب ہائوس کے صوفے، وَیلے، باورچی، گاڑیاں، ڈرائیور اور دیواریں ان باغیوں کی باغیانہ سرگرمیوں کی چشم دید گواہ ہیں۔ بغاوت کی ڈکشنری میں یہ اپنی طرز کی پہلی بغاوت ہے‘ جس میں باغیوں کا سرغنہ ایک ایسا شخص ہے‘ جو سرکاری گارڈوں کے نرغے میں اور قومی خزانے کے تنخواہ داروں کے جھرمٹ سے باہر نہیں نکلتا۔ یہ حضرتِ باغی پٹواریوں، گرداوروں، تحصیلداروں، ٹپے داروں، تمنداروں، اے سی، ڈی سی، اے ڈی سی جی، کمشنر، سی پی او، ڈی پی او، آر پی او، ای ڈی او‘ ڈی ای او، ڈی ایچ او اور سب سے بڑھ کر ایس ایچ او کی مہربانی سے جمع کیے گئے حریت پسندوں، باغیوں اور جرأت مندوں کے جھرمٹ میں اعلانِ بغاوت فرماتے ہیں۔ ذرا غور کیجیے گا‘ یہ اعلانِ بغاوت سرزمینِ پنجاب کے صوبیدار کا بڑا بھائی کر رہا ہے‘ جس کا اپنا وزیرِ اعظم اپنے کئی وزیرِ اعلیٰ، اسمبلیوں کے اپنے سپیکر۔ اپنا صدرِ پاکستان اور حکومت بھی اپنی پارٹی کی ہے، ایسے میں ایک سوال تو بنتا ہے۔ نا اہل وزیرِ اعظم کی یہ بغاوت کس کے خلاف ہے‘ چھوٹے بھائی کی بے وفائی کے خلاف یا لانگری بٹالین کی ناکامیوں کے خلاف؟؟۔ یہ تو بڑے میاں کا قصہ تھا‘ جو آج کل عُمرِ شریف کے اعتبار سے بھی سینئر سٹیزن ہو چُکے ہیں‘ ورنہ بغاوت کی مزید تفصیلات بھی ضبطِ تحریر میں آ جاتیں۔ اب ذرا دیکھئے‘ سیاسی اداکاری کے ایکسٹرا فنکاروں کو۔ پنجابی فلموں کے بے تاج بادشاہ گر اور ہیروئین گر بڈھا گجر پروڈکشن والے حاجی محبت علی میرے لاہور آفس کے کلائنٹ تھے۔ اس دور میں میرے پنڈی وال ہیرو سُلطان راہی کا راج تھا۔ فلمی لڑائیوں کے آغاز کے لیے جنگو نامی فائٹر اور کہوٹہ کی ایک برادری کے وِلن جگی ملک ہمیشہ پہلا مُکاّ مارا کرتے تھے۔ آپ اسے اس وقت کے سکرپٹ رائٹرز ایسوسی ایشن کی سازش کہہ لیں یا پھر ہماری محنت کش فن کار جوڑی کی کاروباری تقدیر کہ وہ فلم کے آخری سین یا پھر اپنی فلمی موت تک ہزاروں مکّے یا سینکڑوں لاتیں کھانے کا کردار نبھاتے تھے۔
بغاوت کی ایکٹنگ کے ایکسٹرا کرداروں کا ٹریک ریکارڈ بھی دیکھنے کے قابل ہے۔ بغاوت کی سیاسی اداکاری کے اولین کردار کو لوہے کا چنا کہہ لیں۔ جس دن موصوف نے سپریم کورٹ کے بینچ نمبر1 میں مِنمناتے ہوئے عدالتی سوالوں کے جواب دیے اس دن میں بھی اسی کورٹ روم میں موجود تھا۔ 
دوسرا کردار ہمارے پیٹی بھائی کا ٹھہرا‘ جس نے صاف اعتراف کر ڈالا ''میں تو ایکسٹرا ہوں‘‘۔ ساتھ یہ بھی کہہ ڈالا: عدلیہ کے خلاف سکرپٹ کسی اور کا تھا۔ ایک اور سیاسی ایکٹر نے قومی میڈیا کا گلہ کیا کہ وہ ان کے ملاوٹ شدہ بیان چلاتا ہے۔ ساتھ کہا: کیمرے جھوٹ بولتے ہیں، رپورٹرز داستان نویس ہیں، اور ایڈیٹرز سبز آنکھوں والے۔ میری ویڈیوز جعلی ہیں اور یہ سب میڈیا کا کیا دھرا۔ بغاوت کی ایکٹنگ کا ایک اور فنکار بھی اپنے کردار سے پورا انصاف کرتے پایا گیا۔ کہنے لگا: کہا سنا معاف کر دیں، کھایا پیا ہضم، پیسہ ختم اور میری سیاسی پلیٹ شفاف کر دیں۔ قافلۂ جمہوریت کے کماں بدست لشکری اتنے ہیں کہ جن پر اگلی کسی جمہوریت کو کوئی وائٹ پیپر شائع کرنا پڑے گا۔ 
آئیے ڈپٹی باغی نمبر3 کا ذکر پہلے پڑھ لیں‘ اور پھر تذکرہ آئے گا دو نمبر باغی کا۔ ڈپٹی کے داماد کا بھیجا ہوا وہ کرائے کا فیصل آبادی غنڈہ دھر لیا گیا‘ جس نے عمران خان پر حملہ کرنا تھا۔ اُس کا موقع واردات پر کیمرے کی آنکھ کا ریکارڈ شدہ بیان موجود ہے۔ باغی کہتے ہیں: ہمارا نام ووٹ ہے، غیرت ہے، اقتدار ہے ہمیں اپنی مرضی کرنے دو۔ باقی جسے چاہو واجب القتل کہہ دو۔ 14قتل دن دیہاڑے کرو۔ کوئی ایک ملزم 5 منٹ کے لیے جیل نہ جانے پائے۔ دو نمبر باغی نے ''میں نہیں مانتا‘‘ سے بغاوت کی ایکٹنگ شروع کی۔ آج کل کہہ رہا ہے‘ لوگ ہمارا احترام کریں۔ ارے یہ تو بتائو کیا قومی ادارے مٹی اور گارے کے بنے ہوئے ہیں۔ ان اداروں کے لوگ با عزت نہیں کیا؟ میں اس دن بھی سپریم کورٹ کے بینچ نمبر ایک میں بیٹھا ہوا تھا جس وقت چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب اور فاضل بینچ کے نام کی ننگی گالیوں والی ویڈیو چلائی گئی۔
وزیرِ داخلہ سے لے کر وزیرِ خارجہ تک اور پھر بڑے باغی کی باغیانہ تقریب پذیرائی تک‘ جو کچھ ہوا وہ چُنے ہوئے اور بذریعہ دعوت بلائے گئے لوگوں کے درمیان ہوا۔ وہاں نہ عدلیہ موجود تھی نہ ہی فوج۔ بغاوت کی ایکٹنگ کرنے والے کیوں نہیں سمجھتے‘ عوامی عدالت کا موڈ یہ ہے:
مِرے مزاج کا اس میں کوئی قصور نہیں
تیرے سلوک نے لہجہ بدل دیا میرا 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں