آخر کار امپائر کی اُنگلی اُٹھ گئی۔
اُنگلی کے حوالے سے سب سے پارلیمانی محاورہ انگشت بہ دنداں والا ہے‘ یعنی دانتوں میں اُنگلی دینا ہے۔ اس محاورے کی اپوزیشن نظم میں یوں ہے: کان میں کُھجلی، ناک میں اُنگلی مت کر۔ اُنگلیوں پر نچانا، انگشتِ شہادت‘ اُنگلیوں پر گننا وغیرہ اُنگلی کی کرامت کے معروف محاورے ہیں۔
شریف خاندان تیسری بار مزید مال بنائو مہم پر اسی شان سے نکلا‘ جس شان سے پچھلی دو دفعہ مال و منال کو متاعِ غرور کا سودا سمجھ کر سمیٹنے نکلا تھا۔ مگر اب کی بار متاعِ غرور نے ان کا سارا غرور خاک میں ملا دیا‘ لیکن حسب عادت و سابق لانگری بٹالین کے مطابق قصور فوج کا نکلا۔ شروع میں عدلیہ شامل نہیں تھی۔ پھر پانامہ نے ایسا ہنگامہ برپا کیا جس کا کلائمیکس ''کیوں نکالا‘‘ ٹھہرا۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے آلِ شریف کے پسندیدہ سووموٹو میں انسانی حقوق کی روح پھونک ڈالی۔ لذت دوبالا کرنے کے لیے آئیے اسے پھر سے یاد کریں۔ شاہراہِ دستور پر سیاسی جج کے پیادے نااہل شریف کے استقبال کو کھڑے ہیں۔ پتہ نہیں کس کی فرمائش پر ''کالا جوڑا‘‘ پہنے نااہل شریف ایوانِ عدل کی سیڑھیاں چڑھتا گیا۔ سانپ اور سیڑھی کے کھیل میں نااہل شریف کا ٹارگٹ عدل کی بالا دستی نہیں مخالفوں کو سبق سکھانا تھا؛ چنانچہ دو امپائروں کی فرینڈلی اُنگلی ایک ہی وقت میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ دونوں کے بیان حلفی تیار ہوئے۔ پھر انہیں خاکی لفافے میں پیک کرکے نااہل شریف کے سیاسی کزن جج کے سامنے ڈال دیا گیا۔
سانپ اور سیڑھی کے کھیل میں چونکہ کھلاڑیوں کی تعداد طے شدہ نہیں ہوتی۔ نہ ہی امپائرنگ کے رولز تحریری ہوتے ہیں۔ اس لیے کھیل کا امپائر ایک نہیں ہو سکتا۔ ابھی کل ہی کی بات ہے، نصف صدی کا قصہ نہیں۔ دو چار برس پہلے دو ہزار بارہ کے 12ویں مہینے کی 11ویں تاریخ تک نااہل شریف کا سیاسی کزن جج سریر آرائے کرسی اور متحرک تھا۔ اسی دور میں عدل کے امپائر کی اُنگلی کبھی ڈی جی رینجرز پر اٹھتی تھی کبھی مجھ جیسے بے نوا وکیل پر۔ تب سب اچھا تھا۔ سیاہ پوش، سفید پوش اور خاک پوش سارے کے سارے امپائروں کی اُنگلیاں آلِ شریف کی خواہش پر اٹھتی تھیں... اور گاہے فرمائش پر بھی۔ تب فوج غیر جانب دار تھی اور عدلیہ مکمل طور پر آزاد و خود مختار۔ یاد رہے ابھی ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانشین 56 کمپنیاں کارپٹ کے نیچے دبی تھیں۔ پھر موسم بدلا، رُت گدرائی، اہلِ جنوں بے باک ہوئے۔ انصاف اور احتساب کی فصلِ بہار کی آمد آمد کا دف بجا اور زعمِ پارسائی کے اماموں کے گریبان چاک ہونا شروع ہو گئے۔ الحفیظ و الامان۔ کس قیامت کے اقامے میرے نام آتے ہیں۔ یا کس قیامت کے پانامے میرے نام آتے ہیں۔ جو بھی کہہ لیں سچ نے سچ مچ کھل کر سچ کا بول بالا اور کالی سیاہی سے دھوکہ دہی کا منہ کالا شاہ کاکو بنا دیا۔
بات ہو رہی تھی امپائر کی اُنگلی اٹھ جانے کی‘ جس کا پہلا اور آخری مظاہرہ 23 مارچ کے دن پریڈ گرائونڈ اسلام آباد میں ہوا۔ دنیا کی مشکل ترین جنگ میں مصروف شہیدوں کی وارث فوج 23 مارچ کی تقریب کی میزبان تھی۔ اس قومی تقریب میں وزیر اعظم ایل این جی کے سرور میں مسرور بیٹھا تھا۔ سری لنکا کے مہمان صدر پالاسری سمیت سب پریڈ کرنے والوں کے احترام میں کھڑے تھے‘ لیکن سرور پیلس والوں کا مجبور قیدی وزیر اعظم کہیں کھویا رہا۔ ایسے میں امپائر نے اُنگلی ہلائی۔ جس کے نتیجے میں مسرور وزیر اعظم فوج کے سربراہ کی مداخلت سے مجبور ہو کر پریڈ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ جس کی فوٹیج ہم سب دیکھ چکے۔ ہاں البتہ اس فوٹیج کی ریکارڈنگ میں سائونڈ موجود نہیں۔ امپائر کی انگلی والی ویڈیو میں آواز ریکارڈ نہ ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ سوشل میڈیا نے اٹھایا۔ ہر کسی نے امپائر کی اُنگلی اٹھنے سے لے کر سرور والوں کے ہاتھوں مجبور وزیر اعظم کے اٹھنے تک اپنی مرضی کی آوازیں فوٹیج میں ڈال دیں۔ ان آوازوں میں کچھ ڈائیلاگ فیض آباد دھرنے سے‘ کچھ سلطان راہی کی پنجابی فلم والے تھے۔ کچھ بچوں کے ایک گانے سے۔ ان میں سے اکثر آوازیں اور ڈائیلاگ ناقابلِ اشاعت ہیں۔ ذرا سوچیں اس موقع پر شریف جمہوریت کے خواب و خیال میں اگر فوج مداخلت نہ کرتی تو نیم دراز وزیر اعظم نا جانے کیا حرکتِ شریف کر بیٹھتا۔ کچی نیند میں خراٹے، پہلو بدلنا، خاص زاویوں سے خارش، اشارے۔ اور اگر نیند پکی ہو جائے تو اس میں خوابوں پر رننگ کمنٹری سب کرتے ہیں۔
کمنٹری سے دیہاتی علاقے کا پرانا مقدمہ یاد آیا ہے۔ رمضان شریف میں ایک گائوں کی دو برادریوں نے خون آشام جنگ لڑی۔ ان دو برادریوں کے دو حاجی نماز فجر کے بعد مسجد میں بیٹھ کر گفتگو کر رہے تھے۔ دیہات میں آج بھی مسجدوں میں لوگ خود اذان دیتے ہیں‘ خود ہی نماز کی امامت کرتے ہیں‘ اور خود لائوڈ سپیکر کھول کر مختلف اعلانات کرتے ہیں۔ ان دو حاجیوں میں سے ایک نے نماز کی امامت کرائی‘ مگر نماز کے بعد مسجد کے لائوڈ سپیکر کا مائیک بند کرنا بھول گیا‘ جس کے نتیجے میں ان کی آف دی ریکارڈ گفتگو پورے گائوں نے آن دی ریکارڈ لائوڈ سپیکر پر سن لی۔ آگے تو آپ جانتے ہی ہیں۔ دیہاتی وسیب میں ڈنڈا، کلہاڑی، بھالا، سَبل اور لاٹھیاں ہر گھر میں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ ان سب کے کثرتِ استعمال سے نڈھال دونوں حاجی ہسپتال جا پہنچے۔
ملک کا دوسرا امپائر بھی قلندر نکلا۔ پنجاب پولیس کے مشہورِ زمانہ بلا مقابلہ پولیس مقابلے کی فریادی ماں دیکھی، تڑپ کر گاڑی روک لی۔ خود نیچے اترا۔ اک فریادی نے ہاتھ امپائر کے کندھے پر رکھ کر فریاد کی داد طلب کی۔ امپائر نے آئین کے آرٹیکل نمبر 9 میں درج حقِ زندگی کا مقدمہ سننے کے لیے اتوار کو بھی زنجیرِ عدل ہلا ڈالی۔ ظاہر ہے یہ کھلی جمہوریت دشمنی نہیں تو اور کیا ہے؟ امپائر کی انگلی مزید آگے بڑھ کر ینگ ڈاکٹرز تک جا پہنچی۔ کہا: ہڑتال مت کرو‘ آئیے میں آپ کے جنجال کی پڑتال کرتا ہوں‘ آپ ہسپتال آباد کریں‘ اپنے دکھ اور دل درِ انصاف کی کال کے حوالے کر دیں۔ دیکھا آپ نے ہو گئی ناں پولیس کے لاٹھی چارج میں انتظامی مداخلت۔ اب بے چارے پُلسئیے ڈانگ مارنے کے لیے ڈاکٹر کا سر کہاں تلاش کریں گے۔ اس مداخلتِ بے جا کی وجہ سے جمہوریت کا سارا شبھ شبھا، رعب داب، دبدبہ اور طنطنہ روبہ زوال ہے۔ عین جمہوریت تو یہ ہے خادم اعلیٰ، اس کا فرزندِ اعلیٰ اور صوبائی وزارت پر میرٹ سے پہنچا ہوا کزنِ اعلیٰ سستے بازار تک نیچے گاڑیوں، درباریوں کی قطار‘ اوپر ہوا میں ہیلی کاپٹر تیز رفتار پر سوار ہو کر پہنچیں۔ امپائر کی اُنگلی ہے کہ آگے سے آگے بڑھ رہی ہے۔ پنجاب کے پنج پیاروں کے فرنٹ مین غریب پرور سرکاری ملازموں کو صرف 15/20 لاکھ ماہانہ تنخواہ۔ 8/10 لاکھ کی سہولتیں بھی امپائر کی اُنگلی کی زد میں ہیں۔
ایک تیسرا بھی امپائر ہے جس نے سمدھی ڈار کو بیمار جان کر سات سمندر پار جانے کی عارضی اجازت دی۔ بیچارہ عارضی کو حتمی جان کر وزارت‘ تنخواہ، عملہ، ٹی اے ڈی اے سمیت کبھی لندن، کبھی ٹی وی پر بیماری بھلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایسے میں دوسرے سمدھی کا بخار اترنے کے آثار ہیں۔ شیر کے ڈھیر ہونے میں تھوڑی دیر بچی ہے اسی لیے ''گالی بریگیڈ‘‘ سیز فائر پر ہے۔ میرے پیارے اعتبار ساجد اس پر یوں امپائر کی اُنگلی کے شکر گزار ٹھہرے:
کیوں کوئی، کاٹتا نہیں، سر کوئی پھوڑتا نہیں
سنگ و سگانِ راہ بھی، راہ پہ آ گئے ہیںکیا...؟