27 مارچ 2018ء کا سورج یوم العجائبات کا پیام بر بن کر طلوع ہوا۔
مجھے اس روز ماضی قریب کا ایک قصہ یاد آیا۔ میں اسلام آباد شہر سے باہر تھا۔ وزیرِ اعظم ہائوس سے فون آ گیا۔ آپ فوراً پی ایم ہائوس آ جائیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان ملاقات کے لیے تشریف لا رہے ہیں اور آپ کی موجودگی پر اصرار کیا گیا ہے۔ میں نے ایک واقفِ حال کو کال کی۔ پتا چلا ایک ریٹائر ہونے والے سیاسی خانوادے کے جج کے لیے ایڈہاک اپوائنٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ تھوڑی دیر بعد پی ایس پی ایم کا موبائل سے فون تھا۔ سر، وہ پہنچ گئے ہیں اور آپ کا انتظار ہو رہا ہے۔ 10 منٹ بعد ملاقات والے کمرے سے بڑی کال آ گئی۔ فون بجتا رہا‘ میں نے کال اٹینڈ نہ کی۔ لمبی ملاقات چلتی رہی اور اگلی فون کال پر میں نے وزیرِ اعظم ہائوس جانے سے معذرت کر لی۔ ملاقات میں زیرِ بحث تفصیلات آج سے متعلقہ نہیں ہیں‘ لیکن اتنا ضرور ہوا کہ اس وقت کے مذاکراتی وزیرِ اعظم بعد ازاں نااہل ہو گئے۔
نظریۂ ذاتی ضرورت دو چیزوں کا مرکب ہے۔ ڈاکٹرائن آف نیسیسٹی اور پرسنل نِیڈ۔ اس کا پہلا حصہ عدالتی فیصلوں کی زبان میں ''سیاسی انصاف‘‘ کہلاتا ہے۔ دوسرا حصہ رینٹ کنٹرول قوانین میں ذاتی ضرورت کے نظریے پر مبنی قانون ہے۔ وہ کیا تھا‘ جس نے شیر کو درِ انصاف پر جا کر ڈھیر کر دیا۔ حسبِ حال سب جانتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ اس وقت مسلم لیگ ش ہو یا مسلم لیگ ن‘ دونوں کا نظریۂ ذاتی ضرورت ''مجھے بچا لو‘‘ ہے۔ لانگری بٹالین کے بقول سویلین حکومت میں ''مداخلت‘‘ کرنے والی خاکی اسٹیبلشمنٹ ہو یا ووٹ کی ''عزت‘‘ نہ کرنے والی عدالت‘ یہ دونوں ادارے آج کل باپ، بیٹے، بھائی، بیٹی اور سمدھی کے 7 پھیروں کا مرکز بن چکے ہیں۔ 27 مارچ کے دن 'کیئر ٹیکر‘ وزیرِ اعظم چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار صاحب سے ملنے کیوں گیا‘ مجھے پتا نہیں۔ وَن آن وَن ملاقات میں گفتگو کیا ہوئی ہو گی‘ اس کا اندازہ لگانے کے لیے لوگ خیال کے اپنے اپنے گھوڑے دوڑا رہے ہیں‘ لیکن ایک بات کھلی ڈُلی ہے بلکہ دیوار پر لکھی ہوئی۔ اور وہ یہ کہ شرم رخصت ہوئی جبکہ حیا کہیں ہجرت کر گئی۔ جو شخص کُھل کر کہتا آیا ہے کہ میں تو وزیر اعظم ہی نہیں ہوں‘ وہ وزیر اعظم بن کر درِ انصاف پہ سجدۂ سہو کی ادائیگی کے لیے جا پہنچا۔ جو کہتا ہے‘ میں نواز شریف کی عدالتی نا اہلی کا فیصلہ نہیں مانتا‘ سڑکوں پر عوام کا فیصلہ تسلیم کروں گا۔ اس شخص کے بقول سپریم کورٹ کے دو بینچز نے فیصلہ نہیں دیا، زیادتی کی ہے۔ یہ وہی آدمی ہے‘ جو ہائوس آف فیڈریشن کے سربراہ چیئرمین سینیٹ کو ملنے سے انکاری ہے۔ اب 'مجھے بچا لو‘ مہم اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ اسی لیے گلا پکڑنے والے پائوں پڑ رہے ہیں۔ پہاڑی زبان کا مقولہ ہے دایاں ہاتھ گریبان پر اور بایاں ہاتھ پائیدان پر۔ اداروں کو دبائو میں لانے کے دعوے دار چچلی انگلی پکڑ کر چلنے پر تیار۔ نظریۂ ذاتی ضرورت کا کمال دیکھ لیں۔ لوہے کے چنے چِکّڑ چھولے میں تبدیل ہو گئے۔
کل صبح حسبِ معمول سپریم کورٹ کے بنچ نمبر1 کے روبرو مقدمات لڑنے پہنچا۔ کوہ مری میں تعمیرات کے حوالے سے از خود نوٹس میں ہوٹل مالکان کا وکیل ہوں۔ کیس کی سماعت کے دوران میں، اعتزاز احسن اور لطیف کھوسہ ساتھ بیٹھے تھے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے اس ملاقات پر خود تبصرہ کر ڈالا۔ ایک دن پہلے بدھ کے روز سپریم کورٹ کے بینچ نمبر2 میں جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کے روبرو میں نے سیریل نمبر1 پر فوجداری اپیل میں بحث مکمل کی۔ سیریل نمبر2 پر بلوچستان سے مقدمۂ قتل پیش ہوا۔ جسٹس آصف خان کھوسہ نے لطیف پیرائے میں کہا: بڑے لوگ رات کو ملتے ہیں۔ اس لیے کہ خبرنامہ رات 9 بجے چلتا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے بھی لطیف پیرائے میں ہی ملاقات پر تبصرہ کیا۔ کہنے لگے: میں ادارے کی عزت اور آپ سب کی آبرو کو کمپرومائز نہیں ہونے دوں گا۔ اس ملاقات میں ادارے نے کچھ نہیں گنوایا۔ کل ہی آئی ایس پی آر نے ن لیگ کے این آر او غبارے سے ہوا نکال کر اسے ٹُھس کر دیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کُھلے دل سے کُھلی عدالت میں کہا: کوئی ملنے آئے تو میں انکار کیسے کروں۔ وہاں سے ملنے کی درخواست آئی تھی‘ ہر سائل مجھ سے مل سکتا ہے۔ ساتھ یہ وضاحت کر دی کہ ملاقات کے لیے جانے کی دعوت قبول نہیں کی۔
آپ یقینا جاننا چاہیں گے کہ این آر او، گریبان اور پائیدان کا آپس میں کیا تعلق ہے۔ عرض کیے دیتا ہوں۔ خادمِ اعلیٰ کے بیان نکالیں۔ ویڈیو ملاحظہ کریں۔ کہتا ہے ''میں ججوں اور جرنیلوں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں‘ اکٹھے بیٹھ جائو اور کچھ کرو‘‘۔ یہی سکرپٹ ایک سے زیادہ مرتبہ دہرایا گیا۔ پھر 'مجھے کیوں نکالا‘ کا مَنترہ چھوڑ کر نااہل شریف نے بھی سجدۂ سہو نکالنے کی اداکاری کی۔ فرمایا: میں سب سے بات کرنے پر تیار ہوں۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے‘ پائیدان والے ہاتھ کا کیا مطلب ہے۔
اب آئیے ملاقات کے نتیجے کی طرف جس کے دو رُخ ہیں۔ پہلا، کیا 'مجھے بچا لو‘ مہم کامیاب ہو گئی۔ جواب مجھ سے لینے کی بجائے احتساب عدالت اسلام آباد کے باہر پہنچیں۔ نااہل شریف نیا سکرپٹ لے کر چیف جسٹس پر حملہ آور ہے۔ اسے کہتے ہیں دوسرا ہاتھ گریبان پر۔
یار لوگ پائیدان اور گریبان والے ہاتھوں کی سیاسی اداکاری کی وجہ جاننا چاہیں گے۔ وجہ منسٹرز کالونی میں انٹری پاس والے رات کے راہی رپورٹروں سے پوچھ لیں۔ برسرِ اقتدار جماعت کے ارکان‘ جنہوں نے بھاگنے کے لیے گاڑیاں سٹارٹ رکھی ہیں۔ گریبان سے پائیدان تک پہنچنے والے ہاتھ ان کو روکنے کی کوشش ہے۔
27 مارچ کو ہی سات سال بعد میرے خلاف توہینِ عدالت کا مقدمہ ختم ہوا۔ 'جاگ پنجابی جاگ‘ کے داغ والی پگ سر پر سجائے نااہل شریف نے 27 مارچ کو میمو گیٹ پر یو ٹرن لے لیا۔ توہینِ عدالت کے اس مقدمے کے کچھ پہلو ایسے ہیں‘ جو چشم کشا نہیں‘ حیران کُن ہیں۔ مقدمہ ختم ہو گیا۔ اس لیے ان پہلوئوں کا تذکرہ ہو سکتا ہے۔ جس دن اس مقدمے کے واقعات اور دستاویزات‘ دونوں سامنے آئے‘ آپ کی حیرانی، پریشانی تک جا پہنچے گی۔ سپریم کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن کے کچھ دوستوں نے 27 مارچ کو فرمائش کر ڈالی کہ ان تفصیلات کو کتابی شکل دے دی جائے۔ چلئے سسپنس ختم کرتے ہیں۔ ایک ہلکا دستاویزی اشارہ حاضر ہے۔
کالعدم ن لیگ کے سیاسی کزن جج نے توہینِ عدالت کیس میں سب سے پہلے وزیرِ اعظم کو نشانے پر لیا۔ پھر مذکورہ پریس کانفرنس میں موجود چار دیگر وفاقی وزیروں کو نوٹس جاری کیا۔ پھر اکیلے میرے خلاف مقدمہ کیسے چل پڑا۔ اس کے لیے ہم وزیرِ اعظم ہائوس کے ڈرائنگ روم اور نااہل شریف کے سیاسی کزن جج کی سرکاری بیٹھک میں پھر کسی وقت داخل ہوں گے۔ اس وقت دوپہر کے ڈھائی بجے ہیں۔ ڈاکٹرز کے مقدمے میں پیش ہوں۔ ابھی چیف جسٹس نے کہا: این آر او نہیں ہو گا... سائل رات کو ملنے آیا تھا۔ اس کے سوال کا جواب دن دیہاڑے مل گیا۔