چغلی اور فریاد میں کیا فرق ہے؟ اسے رہنے دیتے ہیں ۔ دل چاہتا ہے میں بلال الرشید کی چغلی کروں۔ ہونہار نوجوان ایسے موضوعات چنتا ہے جنہیں ہم پھیکا سمجھتے ہیں ۔ اس قبیل کے لکھاری مغرب میں تو ہیں اپنے ہاں اس کا شدید کال ہے ۔ گُل نوخیز اختر بھی زندگی کے سنجیدہ پہلوئوں سے ایسا مزاح اور مزاحیہ زاویوں سے اس طرح کی سنجیدگی کشید کرتے ہیں کہ مزہ آ جاتا ہے۔ ظفر اقبال صاحب کا کالم نئے شاعروں، شاعرات، لکھاریوں کے لیے ادبی ڈویلپمنٹ بینک ہے ۔ ظفر صاحب کے بینک سے میں نے آج وکالت نامے کا عنوان بلا سود قرض پر لیا ہے۔ ایڈووکیٹ ظفر کے ہشت پہلو ادبی کالم نے اسد اعوان (جنہیں میں نہیں جانتا) کا شعر سنا کر امید دلائی کہ صرف بچے من کے سچے نہیں ہوتے ۔ بچوں میں سچے شاعر بھی ہمیشہ پائے جاتے ہیں ۔ بلکہ ایسے ستارے جنہیں ظفر اقبال جیسا کوئی چاند روشنی کے ہالے میں لے کر قطبی تارہ بنا ڈالے۔
ارادہ تو مارگلہ گرین میں گالف کھیلنے کا تھا۔ یہیں بیٹھ کر وکالت نامہ لکھنے کا۔ لیکن گالف کلب کی بائونڈری سے متصل مارگلہ کی پہاڑیاں نقشِ فریادی بن کر سامنے کھڑی تھیں ۔ میں گزشتہ تقریباً چار عشروں سے یہاں پہاڑ گردی (ہائیکنگ) کرتا ہوں ۔ صرف میں نہیں‘ برفانی چیتے ، مرغِ زریں ، دکھنی تیتر‘ پِیلک، لالڑی ، نیل کنٹھ، بلبلوں کے اتنے بڑے ڈار جو میں نے اور کہیں نہیں دیکھے۔ درجنوں قسم کی چڑیاں ، ہرن ، خرگوش، ہڑیال اُن کے گھونسلے ، پناہ گاہیں ، انڈے ، بچے بھی۔ جنگلی پیاز ، چونگ ، کچنار کے اَن گنت درخت ، جنگلی کریلے‘ فلورا ، فانا، چیڑ ، سلور آکس بھی ۔ یہ سب کچھ تقریباً تین کلومیٹر کے ایریا میں راکھ کے ڈھیر، جلے ہوئے ٹنڈ منڈ درختوں کی شکل میں میرے پائوں تلے تھا ۔ یوں لگا میری زندگی کے 40 سال کسی وحشت گر نے جلا کر بھسم کر دئیے ہیں۔ اکثر یہاں دوستوں کے ساتھ آنا ہوتا ہے ۔ آج سٹاف کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ میری پہاڑ گردی کی اسی عادت نے میرے اکثر دوستوں کو بھگا دیا ہے ۔ یہ کیسے ہوا‘ صرف دو دوستوں کی کہا نی سن لیں ۔ برادرم خورشید ندیم نے نئے جوگرز خریدے تو میں نے اُنھیں اپنے ساتھ پہاڑ گردی کی دعوت دے ڈالی ۔ وہ گھر تشریف لائے‘ ہم نے 2 گھنٹے گشت کیا اور پھر وہ غائب ہو گئے۔ پہاڑ گردی کے تیسرے ہفتے میں نے اُنھیں فون کیا اور کہا‘ ملک صاحب شام کو فارغ ہیں تو پھر تشریف لائیں۔ خورشید صاحب نے جواب دیا: اگر آپ نے جوگرز پہن رکھے ہیں تو میں نہیں آ رہا ۔ دوسرے دوست خواجہ حارث ایڈووکیٹ صاحب لاہور سے تشریف لائے ہوئے تھے۔ کہنے لگے: پوری فارم میں ہوں‘ آج پہاڑ پر چلتے ہیں۔ یہ تقریباً8/9 سال پہلے کی بات ہے ۔ پھر جب ملتے کہتے: آپ بہت خراب آدمی ہیں‘ مہمانوں سے جبری مشقت لیتے ہیں۔ تین دن پہلے سپریم کورٹ کی لائبریری میں ریسرچ کے لیے گیا‘ تو خواجہ حارث پھر مل گئے ۔ چھوٹتے ہی کہنے لگے: اب دعوت دینے کی ضرورت نہیں‘ میں تیاری کر رہا ہوں جلد پہاڑ پر چلیں گے ۔ اس طرح کی پہاڑی وارداتوں میں کئی اور نامور دوست ایسے ہیں جن کی عہدے ، تعیناتیاں اور ذمہ داری کی نوعیت ان کا نام لینے سے روک رہی ہے ۔ قصہ مختصر، جیسے پرانے زمانے کی کہاوت ہے 'دوست کو بھگانا ہو تو اُدھار دے دو پھر نظر نہیں آئے گا‘ اس کا نیا ورشن یوں سمجھ لیں 'دوست کو بھگانا ہو تو پہاڑ پر لے چلو‘۔
جس دن مارگلہ کی آگ شروع ہوئی میں نے اسی وقت سوشل میڈیا پر آواز اٹھائی۔ توجہ دلائو نوٹس جاری کیا ۔ مقامی انتظامیہ کے سربراہ اور ترقیاتی ادارے کے بڑے کو ٹیلی فون کیے ۔ سلگتی ہوئی آگ کے ابتدائی دھوئیں کی تصویر اپنے ٹویٹر اور فیس بک اکائونٹ پر اَپ لوڈ کر دی ۔ ترقیاتی ادارے کے انتہائی ذمہ دار عہدے دار نے بتایا: ہمارے پاس اس شعبے کے سٹاف میں صرف سات لوگ ہیں ۔ دوسرے ڈائریکٹوریٹ سے کھینچ کھانچ کر گزارا ہوتا ہے ۔ اس خوفناک اطلاع نے مجھے ڈرا کر رکھ دیا ۔ چنانچہ میئر اسلام آباد ، وزیرِ داخلہ اور وزیرِ اعظم کو مخاطب کر کے ان لفظوں میں ٹویٹر پیغام بھیجا:
'' لاکھوں پودے ، پھول، پھل اور درخت ، اَن گنت پرندے، گھونسلے، مارگلہ ہلز کا 2 کلو میٹر جل کر راکھ ۔ میئر ، وزیرِ داخلہ ، وزیرِ اعظم NERO والی بانسری بجاتے رہے‘‘۔
آمدِ بہار کے موسم میں حشرات الارض کے کس دشمن نے مارگلہ میں یہ حشر سامان آگ لگائی‘ ہمیشہ کی طرح کبھی پتہ نہیں چل سکے گا ۔ جس ملک کی کمیشن خور برسرِ اقتدار اشرافیہ اپنی چوری، ڈکیتی ، قتل کی وارداتیں چھپانے کے لیے بات بات پر کمیشن بٹھاتی ہے‘ یقین جانئے ایسی طرزِ جمہوریت میں مارگلہ کے فریادی پرندے یا گھونسلوں میں پڑے بال و پر سے محروم نو مولود طُو طیِ بے نوا کی فریاد کون سنے گا۔
ویسے بھی اس ملک میں فریاد سننے والا سیلف سٹائل فریادی ہے۔ اس کے اپنے کہنے کے مطابق وہ پاکستان کی فریاد لے کر زنجیرِ عدل ہلا رہا ہے ۔ ہر بات پر اختلاف ۔ ہر دعوے پر اعتراض ضروری تو نہیں ۔ آئیے مل کر فریادی سے ایک معصوم سا سوال پوچھ لیں ۔ کیا آپ سینے پر ہاتھ رکھ کر اللہ تعالیٰ کو حاضرناظر جان کر قوم کو بتائیں گے کہ آپ کی فریاد کیا تھی ؟ پورا ملک ، ایک گھنٹا اور پچپن منٹ جاری رہنے والی اس فریاد کا ایک ایک لفظ سننا چاہے گا ۔ چونکہ آپ ووٹ کو عزت دینے کے دعوے دار ہیں‘ اس لیے آپ نے بالکل ٹھیک کیا کہ باعزت ووٹروں کے ذریعے ووٹ کی حرمت کے جو 341 پاسبان آپ کے ارد گرد اسمبلی میں بیٹھے ہیں‘ انہیں اتنی لمبی فریاد سنا کر رلایا نہیں‘ ورنہ اسمبلی ہال آنسوئوں کے سمندر میں ڈوب جاتا ۔ آپ نے یہ بھی درست کیا کہ آئین کے آرٹیکل 19 پر بایاں ہاتھ رکھ دیا۔ اظہارِ حق کا حق استعمال نہیں کیا۔ ورنہ ووٹ کی بے عزتی ہو جاتی ۔ آپ ویسے بھی ریکارڈ ہولڈر وزیرِ اعظم ہیں‘ جس کے ہاتھ میں پاکستان نے لال رنگ کا پاسپورٹ تھما رکھا ہے ۔ یہ ٹریولنگ ڈاکومنٹ دنیا میں ڈپلومیٹک پاسپورٹ کہلاتا ہے‘ جس پر پاسپورٹ ہولڈر کا عہدہ پہلے لکھا جاتا ہے نام اُس کے بعد ۔ لال رنگ کا یہی پاسپورٹ ریاست نے بطور وزیرِ قانون مجھے بھی عطا کیا تھا۔
ہیلو فریادی صاحب... قوم جانتی ہے‘ اس کا وزیرِ اعظم جہاں بھی جائے گا‘ اسی پاسپورٹ پر بطورِ وزیرِ اعظم ہی ٹریول کرے گا ۔ آپ بیس کروڑ ووٹروں کی عزت کے رکھوالے ہیں۔ جب جے ایف کینیڈی ایئر پورٹ پر یو ایس امیگریشن کے نچلے درجے کے اہلکاروں نے کپڑے اُتارنے کے لیے کہا تو آپ کی عزت کہاں چَر رہی تھی۔ وہی غیرت جو سینیٹ کا الیکشن ہارنے کے بعد اپنی سرزمین پر سرکاری خرچے کے جلسوں میں روزانہ للکارے ما ررہی ہے ۔ آپ کے بقول یہ ذاتی دورہ تھا‘ سرکاری نہیں ۔ قومی غیرت چھوڑیے شخصی عزتِ نفس کا کم از کم تقاضا تو یہ تھا واپس آ جاتے۔ وہ کون سی مجبوری تھی جس نے ایٹمی ملک کے وزیرِ اعظم کو سب کچھ اتار پھینکنے پر مجبور کیا اور گونگا بنا دیا۔ پاکستان کی فلیگ کیریئرگاڑی امریکن ایمبیسی نے باہر روکنے کا کہا تھا۔ میں نے کیا جواب دیا‘ برادرم حامد میر کا کالم پڑھ کر دیکھ لو۔
ہم بھی غالب کی طرح کوچۂ جاناں سے اسد
نہ نکلتے تو کسی روز نکالے جاتے