قومی کرکٹرز کے درمیان بیٹھنے کا میرے لیے یہ دوسرا موقع تھا۔
پی ایس ایل کی اسلام آبادی فاتح ٹیم عمران خان کو ملنے دو دن پہلے بنی گالا پہنچی۔ اس سے پہلے 1992ء کے کرکٹ ورلڈ کپ کی ونر ٹیم کے اعزاز میں پنڈی کینٹ کے پنج ستارہ ہوٹل کا شہری استقبالیہ اٹینڈ کیا تھا‘ جس میں میرے علاوہ میرے گرائیں اور ضلع کونسل کے مرحوم چیئرمین کرنل نصیر ستی‘ راولپنڈی شہر کے مرحوم میئر جیلانی صاحب اور میں نے تقاریر کی تھیں۔ ینگ فاتح کرکٹرز کی باتوں میں کئی دفعہ ریلوکٹا کا ذکر آیا۔ جس طرح عام دوستوں کی محفل میں کسی کو انتہائی ماٹھا اور ناکارہ کہا جاتا ہے‘ ریلو کٹا کا یہی مطلب مجھے سمجھ آیا۔
دنیا لاہور کے رپورٹر محمد حسن رضا نے قوم کو ایسی خوفناک تحقیقی خبر سنائی‘ جس نے مجھے ریلو کٹا طرزِ حکمرانی یاد کروا دی۔ اس تفصیلی رپورٹ کے تین پہلو ایسے ہیں جن سے بلا خوفِ تردید یہ ثابت ہو گیا ہے کہ پنجاب میں خدمت کا ڈرامہ بھی ریلو کٹا نکلا۔ پہلا: حسن رضا کے کنفرم شدہ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کا ریلو بھکاری گینگ ،عوام اور میڈیا کو بتائے بغیر چپکے سے اپنی مرضی کے کمرشل بینکوں سے 93 ارب 87 کروڑ روپے قرض اٹھا کر استعمال کر چکا ہے۔ یہ قرض کہاں گیا...؟ اس بارے میں حکومت نے ہم سب کو چیلنج دیا ہے کہ اس کا نام و نشان ڈھونڈ کر دکھا دو‘ تو حکومت قرض کا نام بدل دے گی۔
بغیر کسی معاشی منصوبہ بندی اور پیشہ ورانہ اہلیت کے‘ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں 2017/2018ء کے لیے سب سے بڑے بجٹ کا ڈرامہ پیش کیا گیا۔ اس بجٹ کے سارے دعوے صوبے کے عوام کے لیے ریلو کٹا ثابت ہوئے۔ صوبہ پنجاب کو کتنے پیسے کہاں سے ملیں گے؟ ٹیکس کے حصول اور اہداف کا کیا بنے گا؟ اس بارے میں بھی تمام تر حکومتی اندازے بھی ریلو کٹا ثابت ہوئے۔
اس ریلو کٹا گورننس کا اگلا شاہکار دیکھ لیں۔ کئی ترقیاتی سکیموں کے فنڈ پہلے جاری کیے گئے۔ پھر ان فنڈز کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی۔ نہ جاری کرنے کا جواز سامنے آیا نہ پابندی لگانے کی وجہ بیان کی گئی۔
دوسرا پہلو: یہ کہ اب نئے مالی سال کے بجٹ کے لیے ایک دفعہ پھر پسندیدہ بینکوں سے مزید 48 ارب 80 کروڑ روپے قرض لینے کی منظوری دے دی گئی‘ جس کے لیے پنجاب کی کابینہ کا اجلاس ہوا نہ صوبائی اسمبلی کا‘ بلکہ خزانے کے لیے ذیلی کیبنٹ کمیٹی کی ''جلسی‘‘ میں یہ واردات ڈالی گئی۔
تیسرا پہلو: قرض کی اتفاقیہ فائونڈری والے کشکول میں قرض کے ان سکّوں پر کتنے فی صد سود لگے گا‘ اور یہ شرح سود کس نے طے کی؟ یہ راز بھی صیغۂ راز میں رکھا گیا ہے۔
دوسری جانب ش لیگ کی پنجابی گورننس کے مقابلے میں وفاقی حکومت کیسے پیچھے رہ سکتی ہے۔ ہر روز اربوں روپے خزانے سے نکال کر صوابدیدی فنڈز میں ڈالے جا رہے ہیں۔ دنیا کے کسی ترقی پذیر یا ترقی یافتہ ملک میں کوئی حکمران سرکاری خزانے سے ایسے کھلواڑ کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ابھی پچھلے ہفتے جنوبی کوریا کی سابق صدر PARKGEUN-HYE کو 24 سال قید اور £80m جرمانہ ہوا۔ کوریائی صدر پر الزام تھا کہ اُس نے کورین صدر کی حیثیت سے اپنی سہیلی کو نوازا۔ یہاں تو نوازا، نوازا کھیلنے کا ملاکھڑا لگا ہوا ہے۔ بھائی نے بھائی کو نوازا۔ اباّ نے بیٹے کو نوازا۔ تایا نے بھتیجے کو نوازا۔ چاچے نے بھتیجی کو نوازا۔ مالک نے اخبار جمع کرنے والے کو نوازا۔ باپ نے بیٹی کو نوازا۔ سمدھی نے سمدھی کو نوازا۔ سُسر نے داماد کو نوازا۔ بہنوئی نے سالے کو نوازا۔ کزن نے کزن کو نوازا۔ ماموں نے بھانجے کو نوازا۔ سیٹھ نے لانگری بٹالین کو نواز ڈالا۔ اس نوازا، نوازا گیم میں کون ہے جس کو نہیں نوازا گیا۔ بندے تو بندے ہیں اور ریلو کٹے‘ ریلو کٹے‘ یہاں پر تو پھٹیچر قسم کا سلیپر بھی اور پلاسٹک کی بالٹی بھی سرکاری بجٹ سے نواز دی گئی۔ ابھی اگلے روز خادمِ اعلیٰ کے ایک ملازم نے یہاں تک کہہ دیا: صدقے زکوٰۃ والی سرکاری رقم بھی ذاتی ملازموں اور خاندانی میڈیکل سٹی کو نوازی جا رہی ہے۔ نوازنے کا یہ ختم نہ ہونے والا سلسلہ احتساب کی ٹرائل کورٹ کمپلیکس میں بھی جاری ہے۔ اگلے روز میں اور میرا موکل عمران خان کمپلیکس میں داخل ہوئے‘ جس کے چاروں طرف کارِ خاص، مخابرات، ایلیٹ، کمانڈوز اور وفاقی دارالحکومت کی لائق فائق پولیس براجمان تھی۔ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود چاروں اطراف کی سڑکیں بلاک تھیں اور ٹریفک کا اژدھام ایسا کہ اللہ اللہ۔ ابھی چند ہفتے پہلے وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کروائی تھی کہ صرف بلیو بُک والے وی آئی پیز کے لیے چند لمحوں کے لیے اشارے روکے جاتے ہیں‘ سڑک نہیں۔ یہاں پورا ایریا سیل، موکل خوار اور وکیل گرمی میں چل کر عدالت آنے سے بے ز ار نظر آئے۔ موکل کے ہمراہ میں راہداری کے اندر پہنچا۔ دائیں ہاتھ پر کورٹ روم میں انسدادِ دہشتگردی کی عدالت قائم ہے‘ جس کے باہر صرف ایک سنتری کھڑا تھا۔ دوسری طرف ایک مشکوک سا شامیانہ لگا نظر آیا‘ جس کے سامنے بے وردی مشکوک چہرے اور باوردی مدقوق چہرے دیکھنے کو ملے۔ میں نے سکیورٹی والوں سے ہاتھ کے اشارے سے پوچھا: ادھر کیا ہے؟ ایسا جواب ملا جسے سن کر دونوں راہداریاں قہقہوں سے گونج اُٹھیں۔ سکیورٹی اہلکار بولے: ادھر ''کیوں نکالا‘‘ ہے۔ اس قدر پروٹوکول دنیا بھر کی معلوم تاریخ میں کبھی کسی ملزم کو نہیں ملا۔ میں وزرائے اعظم، صدر سمیت سب سے بڑے اداروں اور شخصیات کے مقدمے لڑ چکا ہوں۔ اس کیس میں، میں نے پہلی بار ملزم کو عدالت میں حملہ آور کے طور پر وارد ہوتے دیکھا۔ بھڑکیلا پروٹوکول، غصیلہ لہجہ۔ آتش بیان چِٹیں اور پرچیاں۔ سرکاری پٹرول ہٹو بچو کے آوازے۔ مگر چہرے پر ہوائیاں۔ ہر کسی پر بے اعتباری۔ قومی اداروں پر حملے۔ اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی حکومت کے لیے نااہلی اور ترقیاتی عمل روکنے والی کے سرٹیفکیٹ۔ اوپر سے آزاد میڈیا کے سوالات۔ لگتا ہے پروین فنا سیّد کو سالوں پہلے اس منظر کا وجدان ہوا تھا۔ ورنہ مرحومہ سیّد زادی سے یہ شعر نہ ہو پاتا:
زرد رُت، تیز ہوا، آخرِ شب، قحطِ یقیں
اُس کے چہرے کا عجب رنگ ہُوا ہے دیکھو
نہ جانے کس صاحبِ وجدان رپورٹر نے اڈیالہ جیل میں نئی سفیدی‘ بڑے مہمان کے لیے استقبالی تیاریوں کی بڑی خبر ڈھونڈ نکالی۔ اسی خبر کے نتیجے میں زرد رُت کے دوران تیز ہوا سے کھیلنے والا آخرِ شب کا مسافر قحطِ یقیں کا مجسمہ بن کے رہ گیا۔
اگلے دن موصوف نے سوال اُٹھایا۔ اڈیالہ جیل کے اندر کون تیاریاں کر رہا ہے؟ کس کو معلوم ہے‘ مجھے سزا ہو گی اور جیل جائوں گا؟ 'کیوں نکالا‘ والے کونے کی پیشی کے ساتھ ہی میں علیم خان کی ضمانت کی درخواست میں وہاں گیا۔ رپورٹرز نے مجھ سے وہی سوال کیا۔ عرض کیا: پنجاب کا محکمہ جیل خانہ جات شہباز شریف کے پاس ہے۔ یہ سوال پی ٹی آئی سے نہیں‘ بڑا ملزم چھوٹے ملزم سے پوچھ لے۔
کیوں برادرِ خورد! تمہیں کیسے پتہ چلا اڈیالہ جیل میں سفیدی اور صفائی کی ضرورت ہے۔ قحطِ یقین کی رُت میں کسی کو بھی شک کا فائدہ نہیں دیا جا سکتا۔