یہ صرف دل گردے کا کام نہیں ۔ ساتھ اس بات پر پختہ یقین بھی چاہئے کہ عزت ، ذلت ، اختیار و اقتدار‘ رتبہ دینے والا اور منصب چھیننے والا وحدہ لا شریک ہے۔ ورنہ سوسائٹی میں تبدیلی آئے گی نہ ہی سیاست ، سیادت یا قیادت میں۔
پہلی دفعہ مجھ سے بات ہوئی ۔ کہا: کسی قیمت پر ضمیر بیچنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا ۔ کچھ دن بعد پھر کہنے لگا: الیکشن کمیشن نے ووٹ فروشی کا نوٹس لیا ہے ۔ آپ وہاں میری وکالت کریں ۔ آج نتیجہ آپ کے ہاتھوں میں ہے ۔ کے پی کی جس اسمبلی میں کل 60 ارکان کی طاقت سے اقتدار ملا‘ وہاں 20 ارکان کے رشوت میں ملوث ہونے کا انکشاف کر ڈالا ۔ میڈیا پر بیٹھ کر نام بتائے ۔ ساتھ بولا: چارج شیٹ ہو گی۔ پھر ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کے پی اسمبلی کے ارکان میں سے کل سیاسی طاقت کے تیسرے حصے کو احتساب کے قومی ادارے کے حوالے کرنے کا فیصلہ سنایا ۔ اس تاریخی عمل کی بنیاد کمیٹی نے رکھی‘ جسے سینیٹ الیکشن میں ووٹ فروشی کی تحقیقات کرنے کا ٹاسک سونپا گیا ۔ بھرپور پریس کانفرنس میں خود تسلیم کیا کہ سیاسی نقصان ضرور ہو گا‘ لیکن میں سیاست کو رشوت خوری سے پاک کر کے دکھائوں گا ۔ یہ تھا سیاست کا اناڑی عمران خان‘ جس نے سیاسی اشرافیہ میں خود احتسابی کے سارے قرض چُکا دیے۔
اب آئیے سیاست کے کھلاڑیوں کی طرف۔ ایک عدل کے منصب پر براجمان تھا۔ اُسے سرکاری خرچ پر بُلٹ پروف گاڑی میں بیٹھنے کی عادت ہو گئی ۔ پوری قوم، عدالت، حکومت اُسے بلٹ پروف گاڑی سے باہر نکالنے کے لیے 2013ء سے 2018ء تک کھینچتے رہے‘ لیکن سیاست کا کھلاڑی سرکاری گاڑی سے چمٹا رہا ۔
دوسری جانب کچھ سال پہلے نصف شب کے بعد سول لائن راولپنڈی میں ایک وکیل کے گھر پر دستک ہوئی۔ ہرکارہ فائل پکڑے کھڑا تھا ۔ وکیل کے دستخط لیے گئے اور ہرکارہ رات کی سیاہی میں کارِ سیاہ کے بعد گم ہو گیا ۔ اگلے دن مرحوم وکیل سامنے کھڑے تھے ۔ ایوانِ عدل کا کسٹوڈین حلفاً کہہ رہا تھا ''اے خدا میرے ابو سلامت رہیں‘‘ کا بچہ بے گناہ ہے ۔ پھر ایک کے بعد ایک کاروکار سامنے آتا گیا ۔ پاکستان تا دوبئی ایزی لوڈ سے ایران کے تُماّن کی اوور لوڈنگ تک ۔ صرف چار عشروں میں ارب پتیوں کا اباّ بننے والا پچھلے سے بھی زیادہ معصوم نکلا ۔ قوم سے کہا: میری آمدنی کم اور عیاشی زیادہ ہے تو تم کو اس سے کیا؟ اس جملے پر پہنچا تو پروین شاکر یاد آگئیں ۔
اوروں کا ہاتھ تھامو، اُنہیں راستہ دکھائو
میں بھول جائوں اپنا ہی گھر، تم کو اس سے کیا
ابرِ گریز پا کو برسنے سے کیا غرض
سیپی میں بن نہ پائے گہر، تم کو اس سے کیا
لے جائیں مجھ کو مالِ غنیمت کے ساتھ عدو
تم نے تو ڈال دی ہے سِپر، تم کو اس سے کیا
سیاست کے اس حسنِ آوارگی نے دھتورے کے زہر آلود گُل کھلائے ۔ آج پورا ملک جس کے مسموم دھوئیں سے مغلوب اور مغموم ہے ۔
سیاسی رشوت کی گرم بازاری کا عالم دیکھئے ۔ بلوچستان میں ایک گھر کے 36 نیم خواندہ مُہر ے ٹانگیں مفادات کی کڑاہی میں ڈال کر مال بنا رہے ہیں ۔ ساتھ مزید مال بنانے کے لیے کبھی بھارت کا پسندیدہ راگ الاپتے ہیں۔ گاہے اشرف غنی کو پورا کے پی تحفے میں پیش کرنے کا عندیہ دیتے ہیں ۔ میرٹ کو قتل کر کے جمہوریت کا جو ہرن مینار تعمیر ہوا‘ اس میں گھوڑوں کی منڈی نہیں تو کیا حلقۂ اربابِ ذوق جمع ہو گا ۔ آج سامنے کی بات ہے کہ کے پی میں پی ٹی آئی حکومت گر سکتی ہے ۔ اس کے باوجود اپنے ہی لوگوں کے خلاف انٹرنل تفتیش میں ثابت ہونے والے الزامات کو درست کہنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ۔ ماڈل ٹائون قتلِ عام‘ ایل ڈی اے آتش زدگی قتلِ عام، ڈان لیکس ، پانامہ لیکس ، راجہ ظفرالحق کمیٹی محض چند مثالیں ہیں ۔ ویڈیو کیمرے پر رشوت لیتے ہوئے پکڑے جانے والا آج بھی وزیر ہے ۔ قوم کے بچوں کو زیورِ رشوت سے آراستہ کرنے کا ذمہ دار ۔ پہلے قانون و انصاف کے ایوانوں کو رشوت ستانی کے فوائد سکھانے کی وزارت سنبھالے رکھی ۔ ایسے میں کوئی جنونی ہی کہہ سکتا ہے کسی کو اسمبلی ٹکٹ کے نام پر پیسے مت دینا‘ تمہارا مال ضا ئع ہو گا‘ جب تک مطمئن نہیں ہو جاتا اگلے عام انتخابات کا ٹکٹ جاری نہیں ہو گا۔
کچھ وارداتیے آخری شجاع نکلے‘ جنہوں نے خود میڈیا رپورٹرز کو فون کیے۔ فخریہ بتایا: تھیلے بھر کر کوئٹہ پہنچنے لگا ہوں ۔ وہ بھی خصوصی چارٹرڈ طیارے کے ذریعے‘ پھر وہاں سے کے پی جائوں گا ۔ بالکل ویسے ہی جیسے منڈی مویشیاں کے بیوپاری نگر، نگر مال لگاتے اور ڈ نگر ڈھور ہانک کر لاتے ہیں۔
عمران خان کے تازہ فیصلے کے تناظر نے کئی سوالات کو جنم دیا ۔ چند پیچیدہ سوالات یوں ہیں ۔
پہلا : ووٹوں کی خرید و فروخت میں ملوث ارکانِ اسمبلی نا اہل قرار دئیے جا سکتے ہیں یا نہیں ۔ اس کا جواب ہاں میں ہے ، کیونکہ آئین کے آرٹیکل 218(3) کے مطابق الیکشن فیئر، فری اور ٹرانسپیرنٹ ہی نہیں بلکہ قانون کے مطابق ہو گا ۔ سارے انتخابی قوانین ووٹ بیچنے کی اجازت نہیں دیتے‘ بلکہ خفیہ رائے شماری میں جس ووٹ پر شناختی نشان یا کوئی علامت ظاہر ہو وہ لازماً مسترد ہو گا ۔
دوسرا سوال: ووٹ فروشوں کی نا اہلی کا فیصلہ کون کرے گا ۔ اس طرح کی نا اہلی کے فورم دو ہیں: پہلا الیکشن ایکٹ مجریہ 2017ء کے تحت یہ اختیار الیکشن کمیشن کو حاصل ہے‘ جب کہ آئین میں یہی اختیار سپیکر اسمبلی ریفرنس کے ذریعے استعمال کر سکتا ہے ۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ ووٹ فروشی یا ضمیر کی خریداری قابلِ دست اندازیٔ پولیس جرم ہے ۔ اس کا جواب تا حیات نا اہلی کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے 5 رُکنی بینچ نے حال ہی میں مزید واضح کر دیا۔ اسے محض اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب کے خادم اور وفاق کا با غیرت حکمران بھی کہہ رہا ہے کہ سینیٹ کے الیکشن میں ضمیر فروشی ہوئی‘ تو چلیں ووٹر کو عزت دینے کے مشن امپوسیبل کا آغاز کریں ۔ ووٹ فروشوں کو بے نقاب کریں ۔ جو حکومت میں ہیں‘ ان کا احتساب بھی ۔ اس سے پہلے ظفرالحق کمیٹی رپورٹ اور ڈان لیکس تو عام کریں ۔ آپ کو ووٹ سے محبت ہے‘ ووٹر سے کیا شریکہ ہے ۔ ووٹ کو عزت دینا چاہتے ہو‘ ووٹر کو پینے کا صاف پانی ، پنکھا چلانے کے لئے بجلی ، ہسپتال میں دوائی دو‘ پرائمری تعلیم ، پبلک ٹرانسپورٹ ‘ دیہات میں لیٹرین بنانے پر تیار نہیں ۔ تبدیلی پانامہ ہیٹ اُتار کر جناح کیپ پہننے سے نہیں آتی ۔ ووٹر ، اس کی ماں دھرتی سے محبت کر کے دیکھو۔ عزت کا مفہوم غریب قوم خوب جانتی ہے ۔ آپ سے بہتر ، بہت بہتر ۔ اسی لیے مادرِ وطن پر بچے نثار ہوتے ہیں‘ چوری کا مال چھپا کر فرار نہیں۔
یہ تم جو مجھ سے محبت کا مول پوچھتے ہو
یہ تم سے کس نے کہا پیڑ چھائوں بیچتے ہیں؟