ہزارہ، پوٹھوہاری، سرائیکی، ملتانی، بہاولپوری، کراچی صوبوں کی نعرے بازی کا موسم پھر لوٹ آیا۔ اس کی وجہ بیساکھ کا مہینہ نہیں‘ جس میں نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں‘ زمین کیمیا گری کرتی ہے‘ سوکھے ہوئے بے ثمر ڈنڈے خوبصورت پتے، پھول، پھل اور شاخیں نکال لیتے ہیں‘ بلکہ اس کی وجہ انتخابی نعرے بازی ہے اور جنرل الیکشن کی آمد آمد۔ ہفتے کے دن دوسرے پہر آبائی گائوں کہوٹہ جانے کے لیے نکلا، ہمیشہ کی طرح پودوں سے لَدا ڈالا بھی ساتھ تھا۔ سلور اوکس، چیڑ، بوتل برش، سنبل اور پھولوں کے پودے۔ بڑی سڑک کی بجائے محفوظ شہید نشانِ حیدر کے گائوں پنڈ ملکاں سے گزرا۔ انتخابی موسم کی محبت میں جلدی جلدی بنائی گئی سڑکوں کو بے وقت بارش نے کھڈستان میں تبدیل کر دیا ہے۔ بالکل اناڑی میک اپ آرٹسٹ کے شاہکار کی طرح۔ جہاں شہر کی رہائش گاہ سے دیہاتی گھر کے صحن تک 38/40 منٹ لگتے تھے وہاں نمائشی روڈز نے ڈیڑھ گھنٹہ لگوا دیا۔ پہلی مرتبہ اس سڑک پر پوٹھوہار صوبہ تحریک کی ممبرشپ کے لیے کھمبوں سے ٹنگے ہوئے دعوتی پینا فلیکس نظر آئے۔
خیال آیا پوٹھوہار کے نئے انتظامی یونٹ عرف صوبہ پوٹھوہار میں داخلے کے لیے ممبرشپ کارڈ جاری ہوں گے یا پھر ممبروں کو کوئی نمبر الاٹ ہو گا۔ اور اگر کوئی ممبر سازی کی اس مہم میں شامل ہونے سے رہ گیا تو نوزائیدہ صوبہ پوٹھوہار میں اس کا سٹیٹس کیا ہو گا؟ پنجاب کے مختلف علاقوں میں ایک اور نعرہ بھی دیواروں پر کالی سیاہی سے لکھا نظر آتا ہے‘ جو یہ ہے ''پنجاب نئیں جاگیراں ونڈو‘‘۔ جن دنوں ہزارہ صوبہ تحریک اپنے جوبن پر تھی تب بابائے ہزارہ بابا حیدر زمان بیمار ہو کر اسلام آباد آئے۔ بہت پرانے تعلق دار ہیں۔ میں بابا حیدر سے ملنے گیا۔ ان کا کہنا تھا: ہزارہ صوبہ تحریک کو کسی سیاسی جماعت سے الحاق کی ضرورت نہیں۔ ہزارہ صوبہ بنائو تحریک میں شہیدوں کا خون شامل ہے۔ لہٰذا ہزارہ صوبہ تحریک کے امیدوار الیکشن میں سیاسی جماعتوں کو ملیامیٹ کر دیں گے۔ آگے کیا ہوا، یہ ایک تاریخ ہے‘ جس کے آدھے گواہ ہزارہ صوبہ تحریک چھوڑ کر 5 سال سے وفاقی وزارتوں کے مزے لے رہے ہیں۔ باقی ماندہ قائد کے‘ پی کے کی صوبائی وزارتوں پر براجمان ہیں۔ بقولِ شاعر:
پھر یوں ہوا کہ مجھ پہ اک دیوار آ گری
یہ دیکھ نہ سکے، پسِ دیوار کون تھا
آج ہزارہ صوبے کی تحریک کے نعرے ہری پور، حویلیاں سے گزرتے ہوئے ان ٹرکوں پر لکھے نظر آتے ہیں‘ جن پر کسی دور میں فیلڈ مارشل ایوب خان کی تصویر تھی‘ جس کے نیچے پیلی سیاہی میں اُداس موسموں کی یاد دلانے والا یہ مصرعہ ضرور لکھا ہوتا تھا: تیری یاد آئی، تیرے جانے کے بعد۔ اب یہ تو ہمارے پڑوسی اور ہزارے وال ہی بتا سکتے ہیں کس کو کس کی یاد کس کے جانے کے بعد آئی‘ لیکن ہزارہ صوبہ تحریک کے شہدا، زخمیوں اور اسیروں کو کوئی اور یاد کرے نہ کرے‘ بیرسٹر کرن تنولی ہمیشہ ان کا ذکر تفاخر اور عقیدت سے کرتی ہیں۔
سرائیکی صوبے کی 3 کہانیاں میرے علم میں ہیں‘ مگر ان تینوں کہانیوں میں 3 عورتوں نہیں‘ 3 مردوں کے کردار ہیں۔ کسی کی دل آزاری مقصود نہیں‘ لیکن لوگوں کو تو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ سرائیکی صوبہ بنتے بنتے کس کے ہاتھوں سے پھسل گیا۔ آپ اسے یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کون سرائیکی وسیب کے ہاتھوں سے پھسل کر تختِ لاہور کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر ہو گیا۔ ان 3 میں سے ایک مرد بلوچی تھا‘ جسے تاریخ بنانے کا ذوق چُرایا۔ دوسرا پوٹھوہاری‘ جسے آئینی اور قانونی گمبھیرتا سے نکال کر سرائیکی صوبے کے خدوخال تیار کرنے کا ٹاسک ملا۔ تیسرا غازی مرد خود سرائیکی تھا‘ یا غالباً ملتانی۔ سب کچھ طے ہو گیا۔ تینوں سر جوڑ کر بیٹھے۔ تاریخ اور دن کے لیے کہ کس دن اور تاریخ کو اور کیسے ترامیم لانی ہیں۔ تیسرے نے میٹنگ میں کہا: صوبہ بنانے کی ''ٹائمنگ‘‘ مجھ پر چھوڑ دیں۔
پہلا خاموش ہو گیا بلکہ حیرت زدہ بھی۔ دوسرے سے نہ رہا گیا، کہنے لگا: کل نیا دن ہو گا‘ نئی تاریخ اور نئے چیلنج سامنے آ جائیں گے۔ آج کی انرجی اور موقع کل نہیں مل سکے گا۔ اس سچی کہانی کے واقعات سرائیکی علاقے کی بے لاگ وکالت کرنے والے انتہائی با خبر جناب رؤف کلاسرا بھی خوب جانتے ہیں۔
پنجاب میں انتظامی یونٹس یا صوبے بنانے کا ایک اور واقعہ بھی ریکارڈ پر ہے۔ ضلع کونسل راولپنڈی کے سابق چیئرمین ہمارے دیرینہ کلائنٹ چوہدری افضل کے صاحبزادے کا‘ جو پنڈی سے حکومتی جماعت کے رکنِ صوبائی اسمبلی ہیں۔ ان کے ذریعے پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش ہوئی‘ جس کی تشہیر نہ صرف الیکٹرانک میڈیا نے کی بلکہ خبریں اخباروں کے پہلے صفحات پر شائع ہوئیں۔ کہا یہ گیا کہ حکومت بہاولپور صوبہ، پوٹھوہار صوبہ اور سرائیکی صوبہ بنانے کے لیے تیار ہے۔ پھر خفیہ ہاتھوں نے مستقل نا اہل شریف کو تیسری مرتبہ وزیرِ اعظم بنا دیا۔ آج بھی انہی کی حکومت چل رہی ہے۔ پنجاب میں جن کا خاندان برسرِ اقتدار ہے‘ جس کا نامزد وزیر اعظم دنیا بھر میں پاکستان کی عزت کے پھریرے لہراتا پھر رہا ہے۔ اگر وفاق اور پنجاب کی حکومتیں مخلص ہوں تو صوبہ بنانے کا کام ایک دن میں نہیں تو 2 دن میں مکمل کیا جا سکتا ہے۔ یہ نعرے بازی نہیں آئینی حقیقت ہے‘ جس کے مطابق جس صوبے کی حدود میں تبدیلی کرنی مقصود ہو‘ اس کی صوبائی اسمبلی نئے صوبے کی قرارداد ایک گھنٹے میں پاس کر سکتی ہے۔ ساتھ ہی وفاقی پارلیمنٹ آئین کی چند متعلقہ شقوں میں ترمیم کر دے گی۔ ایسی ہی ایک ترمیم کے ذریعے میں نے بطورِ وزیرِ قانون ملک کا پانچواں‘ اسلام آباد ہائی کورٹ تشکیل دیا تھا۔ یہ نصف صدی کا قصہ نہیں صرف سال 2010ء کا عملی کام ہے۔
مستقل نا اہل شریف اور ش لیگ کے صدر‘ دونوں کا یکساں دعویٰ ہے کہ ان کی پارٹی کے ارکان کی اکثریت ان کے ساتھ ہے۔ کون نہیں جانتا‘ ان دونوں جگہ پر ان دونوں حکومتوں کو صوبہ بنانے کیلئے مطلوبہ اکثریت کے علاوہ کچھ اور نہیں چاہیے۔
دوسری جانب یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ تقریباً تمام پارلیمانی پارٹیاں پنجاب کی انتظامی تقسیم کی حمایت کر چکی ہیں۔ ایسے میں آپ خود فیصلہ کر لیں‘ یہ کام کون کر سکتا ہے جو نہیں کر رہا۔
صوبے داری کی ان محلاتی سازشوں اور جنگ میں کچھ اور کردار بھی قابلِ ذکر ہیں۔ یہ ہیں مستقل اصحابِ اقتدار عرف شامل باجہ۔ یہ ٹولہ نسل در نسل فنِ حکمرانی کا وارث سمجھا جاتا ہے۔ اس کی اکثریت ماضیِ قریب کے آخری مارشل لاء میں ساڑھے 9 سال جنرل مشرف کی پاپوش برداری کرتی رہی۔ انہی کی اکثریت گزشتہ 5 سال سے مستقل نا اہل شریف کے گوشۂ آغوش میں مدہوش رہی۔ نہ تو جنرل مشرف کے کسی اوپننگ بیٹسمین کو سرائیکی، ملتانی یا بہاولپوری صوبہ بنانے کا خیال آیا اور نہ ہی کسی نے ڈکٹیٹرشپ کے سایۂ عاطفت میں ذاتی راحت اور عافیت قربان کرکے صوبہ بنانے کے لیے آواز بلند کی۔ تب ان کے پسندیدہ2 ہی نعرے تھے۔ سب سے پہلے‘ مشرف خان اور دہشت گردی کی امریکی جنگ ہماری ہے۔ صوبے داری کے اس امیدواری لشکر کے منہ پر پچھلے 5 سال کس نے ہاتھ رکھا...؟ اللہ توبہ۔ ان بندگانِ شکم کا شوشے پہ شوشا اور غریب آدمی کی بے تاب خواہش۔
دل سے اک خواہشِ بے تاب لگا دیتا ہے
پھر وہ پابندیٔ آداب لگا دیتا ہے
لفظ بے صوت ہوں لیکن تیرا قاتل لہجہ
میرے اطراف میں اعراب لگا دیتا ہے
پہلے کہتا ہے افلاک سے آگے دیکھو
پھر کہیں بیچ میں مہتاب لگا دیتا ہے
ہر وہ الزام جو دشمن نہ لگائے مجھ پر
وہ مرا حلقۂ احباب لگا دیتا ہے
رات دیتا ہے تھکے دل کو تھپکنے کے لیے
پھر تعاقب میں کوئی خواب لگا دیتا ہے